میرے ان دوستوں کو سلام ۔۔۔۔سید عارف مصطفٰی

بڑے حیرت انگیز لوگ ہیں‌ یہ میرے دوست ڈاکٹر علیم خان فلکی ( بھارت) طارق جمیل اور آفتاب الدین قریشی ، اور اب اسی فہرست میں ایک نام کا اضافہ اور ہوگیا ہے جو کہ لاہور میں قومی زبان تحریک کے سرگرم رہنماء پروفیسر سلیم ہاشمی کا ہے ۔۔۔ کیونکہ چند روز قبل اپنے بیٹے سعد کی شادی خانہ آبادی کے موقع پہ انہوں نے  فیسبک پہ یہ پوسٹ کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ گفتار ہی نہیں کردار کے بھی غازی ہیں ۔۔۔ ذرا انکی یہ پوسٹ ملاحظہ کیجیئے۔۔۔۔
” میرے بڑے بیٹے محمد سعد ہاشمی کی شادی خانہ آبادی اس ہفتے کے اختتام پر ہو رہی ہے۔ ان شاءاللہ
اس شادی کے موقع پر مایوں، مہندی, دودھ پلائی, جوتا چھپائی، بینڈ باجہ، آتش بازی، فلم سازی سمیت کوئی خرافات نہیں ہو گی۔ بارات پر بھی 40 سے زیادہ لوگ نہیں ہوں گے۔ دعوت ولیمہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں سادگی سے دی جا رہی ہے۔ بہو بیٹی کے گھر والوں سے کسی قسم کی جہیز کی فرمائش یا مطالبہ نہیں کیا گیا۔۔۔“

آج کے خرافاتی دور میں جبکہ بڑے دیندار سے نظر آنے والے لوگ بھی اپنے گھر کی تقریبات میں خود کو مجبور قرار دے کے ہر غلط رسم کو جاری رکھے نظر آتے ہیں اور ہر قسم کے بیہودہ رواج کی تعمیل ہونے دیتے ہیں تو ایسے میں بلاشبہ پروفیسر سلیم ہاشمی جیسے اجلے لوگوں کا دم غنیمت ہے کہ جن کا اجالا محض اپنی ذات تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنی اچھی سوچ کا اجالا اپنے عمل میں ڈھال کے بہتیرے دوسرے اچھے مگر کم ہمت لوگوں کو بھی حوصلہ دینے کا موجب بنے ہیں ۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے کہ انہیں غلط رسوم و رواج کے خلاف اپنی اس جدوجہد میں اپنے عالی دماغ فرزند اور روشن ضمیر شریک حیات کی بھی بھرپور تائید اور تعاون میسر ہے کیونکہ ایسےغیرمعمولی کارنامے یوں ہی تنہا انجام دینا ممکن ہی نہیں ہے اور اس ضمن میں انہیں انکی بیگم اور انکے فرزند کو سادگی اور اعلی اخلاقی اقدار کی پاسداری کی درخشندہ مثال بننے پہ صمیم قلب سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

لیکن مجھے یہاں یہ بتاتے ہوئے بڑی مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ میرے چند اور دوست بھی اسی طرح رسومات کی آندھیوں کے سامنے اپنی مزاحمت کے چراغ جلائے ہوئے ہیں جس کی بناء پہ مجھے ہاشمی صاحب کے علاوہ ڈاکٹرعلیم خان فلکی ،طارق جمیل اور آفتاب الدین قریشی کی رفاقت پہ فخر ہے کیونکہ ان کا وجود آج ان مرتی ہوئی اعلیٰ اخلاقی اقدار کے لیئے آکسیجن کی مانند ہے ۔۔۔ لاریب ، یہ سب آج کے دور کے عظیم لوگ ہیں اور یہاں میں لفظ عظیم کا استعمال بہت سوچ سمجھ کے اور سماجی فریم کے دائرے میں رکھ کے کر رہا ہوں کیونکہ میں آج کے اس سماج کی حقیقت کو اندر سے جاننے کی وجہ سے باآسانی یہ کہہ  سکتا ہوں کہ اب لفظ ‘عظمت’ کی تشریح کا احاطہ مزید وسیع کیا جانا چاہیئے کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں عظمت کے تقاضے اور مزید مشکل ہوچلے ہیں جن میں سے ایک مشکل تقاضا اگر اپنے ذاتی تعصبات سے اوپر اٹھنا ہے تو اس سے زیادہ مشکل کام اپنے سماج کے نافذ کردہ ایسے رواجوں سے پیچھا چھڑانا ہے کہ جو انسانی زندگی اور معمولات کو پیچیدہ اور مہنگا بنا ڈالتے ہیں اور جنہیں رسومات کا نام دے کے اصراف بیجا اور نمود و نمائش کے ایسے ایسے حربے اختیار کیئے جاتے ہیں کے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کردیا جاتا ہے اور جسکے سبب بہت سی بیٹیاں اپنے گھروں میں ہی بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجاتی ہیں

یہاں عین مناسب ہوگا کہ میں ان دوستوں کے عظمت کے ان حوالوں کا سرسری جائزہ پیش کردوں ۔۔۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی کا ویسے بنیادی حوالہ تو انکی ظریفانہ نثر ہے اور وہ ایک طویل عرصہ بھارت کے بلکہ اردو دنیا کے سب سے وقیع ظرافتی پرچے ‘ماہنامہ شگوفہ’ کے ادارتی بورڈ کا حصہ رہے ہیں – اسکے علاوہ وہ بھارت کے شہر حیدرآباد کی نہایت معروف علمی ادبی، انتظامی و سماجی شخصیت ہیں ۔۔۔ علم دوست احباب واقف ہونگے کہ تہذیب و تمدن اور اردو کی سرپرستی اور علم پروری کے لحاظ سے حیدرآباد دکن ہندوستان کے سر کا تاج رہا ہے اور اب بھی ہے اور علیم خان فلکی اس ریاست کی اس قابل فخر شناخت کی لاج رکھنے والے ناموں میں سے ایک بڑا نام ہیں – موصوف نے ہندوستانی سماج میں چل رہی نامناسب رسومات اور بیہودہ رواجوں کے خاتمے کے لیئے اپنے قلم کو علم بناکے اپنی کاٹ دار اور فکر انگیز تحریروں کے ذریعے سماجی انقلاب برپا کرنے کی سعی میں اپنا حصہ اس بھرپور طرقے سے ڈالا ہے کہ اس پہ فخر کیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا انکی یہ نظریاتی تحریریں اور پیغامات ‘ سوشیو اکنامک فورم’ کے عنوان سے واٹس اپ بھی دستیاب ہیں جن سے پاکستانی سماج بھی بھرپور استفادہ کرسکتا ہے کیونکہ اسکے مسائل و معاملات کا تانا بانا بھارتی سماج سے بڑی حد تک مماثلت رکھتا ہے

میرے دوسرے دوست طارق جمیل ہیں جو کہ حیرت انگیز انتظامی صلاحیتوں کے حامل ہیں – آپ کئی سماجی امور میں میرے ساتھ شریک کار ہیں ، بزم شعر و سخن کے مہتمم ہیں ، سیاسی طور پہ جماعت اسلامی سے وابستگی رکھنے کے علاوہ وہ ایک صنعتکار بھی ہیں اور جمیعت دہلی پنجابی سوداگران کے ایک سرگرم عہدیدر ہیں اور اسکے مہنامہ رسالے ‘سوداگر’ کے مدیر ہیں – آپ بہت سلیس و عمدہ نثر لکھتے ہیں اور جب سے  اپنے اس پرچے کا انتظام سنبھالا ہے اسکو ایک برادری کے مجلے سے اٹھا کے عامتہ الناس کے استفادے کی غیر معمولی شے بنا دیا ہے – چونکہ آپ بھی سماج کی بہتری کے لیئے دل میں بہت شدید تڑپ رکھتے ہیں چنانچہ جب  اپنے اپنے دو فرزندوں کی شادیاں کیں تو اس میں جہیز نہ لے کے اور حتیٰ کہ ولیمے میں احباب سے تحائف اور سلامیاں بھی نہ لے کے اپنے کردار کا غیر معمولی نقش مرتب کیا – اسی طرح میرے ایک اور دوست آفتاب الدین قریشی ہیں جو کہ تعلیمی لحاظ سے سول انجینئر اور پیشے کے اعتبار سے ایک کامیاب بلڈر ہیں – آپ دور طالبعلمی میں این ای ڈی میں اسلامی جمیعت طلباء کے ناظم بھی رہے اور اس دوران ان پہ ایک قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا تھا کہ جس میں انکی جان بال بال بچی تھی مگر انکی استقامت میں کوئی کمی نہ آئی – بعد میں آفتاب جماعت اسلامی میں بھی متحرک رہے مگر اب اپنی تشکیل کردہ جناح مسلم لیگ کے بانی و قائد ہیں- آپ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں اور نثر بھی بہت اچھی لکھتے ہیں – آپ تحقیق کے میدان میں بھی سرگرم رہتے ہیں اور نظریاتی مچیٹوں میں بھی رواں نظر آتے ہیں – آفتاب الدین قریشی کشادہ دل شخص ہیں اور اس حد تک غیر معمولی کشادہ دل کے یہ محاورہ تکغلط ثابت کردیا ہے کہ ” کوئی جماعت اسلامی سے نکل بھی جائے تو اسکے اندر سے جماعت اسلامی نہیں نکلتی ۔۔۔ “ آفتاب صاحب نے بھی اپنے دو بیٹوں کی شادیاں اسی غیرمعمولی رنگ ڈھنگ سے کیں اور نہ صرف یہ کہ جہیز نہیں لیا بلکہ نہایت حیرتناک طور پہ لڑکی والوں کی جانب سے ملبوسات اور ضیافت کے انتظامات بھی خود اپنے پلے سے کیے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خود میں بھی اپنے چاروں بیٹوں کے لیئے ایسا ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں جسکا اظہار میں ایک ٹی وی پروگرام میں پہلے ہی کرچکا ہوں ۔۔۔ لیکن یہ تو میرے اپنے خیالات اور عزائم ہیں اور مستقبل میں کیا میری اولاد میرے ان خیالات کا پاس رکھ سکے گی یا نہیں ، تاہم میری دعا ہے کہ خدا میرے الفاظ کی لاج رکھوائے ورنہ ایسے دن دکھانے سے پہلے ہی اپنے پاس بلالے ۔۔۔ کچھ نہ ہوسکا تب بھی میں اتنا ضرور کروں گا کہ اگر میری اولادوں کی جانب سے میرےعزائم کی پاسداری نہ کی گئی تو میں ان تقریبات میں شرکت سے مکمل اجتناب کروں – آخر میں میری اپنے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس معاشرے کو منگنی مہندی مایوں چوتھی و گود بھرائی جیسی بیہودہ رسموں کی خرافات اور جہیز و بری جیسی فضولیات سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور یونہی بیٹھے بیٹھائے اور لیٹے لٹائے معاشرے کی بہتری اور سدھار کے خواب دیکھنے کی منافقت کا ارتکاب نہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply