اتحاد و محبت۔۔۔علینا ظفر

تمام پاکستانیوں کو پاکستان کا بہترواں یومِ آزادی بہت مبارک ہو۔ میری دعا ہے کہ اگلے سال جب ہم پاکستان کا تہترواں یومِ آزادی منا رہے ہوں تو وادیء کشمیر آزادی کے گیت گاتے نغمہ سرا پنچھیوں  کی چہکار سے گونج رہی ہو۔ کشمیر کا ہر بچہ چمن کی کھلتی ہوئی کلیوں کی مانند کھلارہے۔ طالبِ علم ہاتھوں میں قلم اور بستہ تھامے بخوشی درسگاہوں میں جاتے ہوں۔ والدین اور اولاد کے دلوں میں ایک دوسرے سے بچھڑ جانے کے خوف کی بجائے طمانیت کی چھایا ہو۔ بوڑھے چہروں کی اداس آنکھوں میں امید کے روشن دیپ ٹمٹما نے لگیں ۔ہر طرح کے غم، رنج ، سسکیاں و آہیں ہنسی، قہقہوں اور خوشی میں تبدیل ہو جائیں۔ پروردگار کشمیر کی فضا کو بارود کی بُو سے پاک کر دے اور تمام مسلمانوں پر اپنی رحمتیں برسا دے،آمین۔

میں پاکستان میں بسنے والے ہر فرد کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ اللہ نے آپ کو ایک عظیم ترین تحفہ عطا کیا جس کا نام پاکستان ہے۔اس میں مالک کی مہربانی سے موسم، سبزیاں، پھل، آبشاریں، پانی،سمندر، دریا، پہاڑ، ریگستان، جنگلات غرض یہ کہ ہر اعلی سے اعلی چیز آپ کو ملی۔لیکن ہمارے ہاں تقریباً ہر شخص نے کفرانِ نعمت کو اپنے رویوں میں شامل کر لیا ہے۔ ہر دوسرا شخص چاہے وہ معاشرہ ، حکومت ہویا موسم ، مہنگائی ، سبزی و پھل ، کسی پہ بھی شکوہ کرنا نہیں بھولتا۔جن معاملات میں ہمیں اپنے گریبانوں کا جائزہ لینا ہے وہ جگہ ہر چیز کا شکوہ کرنے والی برائی نےلےرکھی ہے۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت اپنائیے جس نے اپنے فضل سے آپ کو بہت لوگوں سے بہت اچھا اور بہت بہتر حال میں رکھا ہوا ہے ۔ ہم سب کو شکوہ چھوڑنا ہے کہ جو شکوہ کرنے والے ہیں ذلت ان کا مقدر ہے، کیونکہ اللہ شکوہ کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔اور جو شکر کرنے والے ہیں اللہ ان کو عزت سے نوازتا ہے۔ سو ہر قسم کا شکوہ ترک کر دیجیے۔

تفرقہ ہمارا المیہ ہے ۔ زبان ، علاقائیت، کلاس ، تہذیبوں کے فرق اور دین میں تفرقے کی وجہ سے ہم سب لوگ اس وقت شدت پسند ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے تعلق کو ختم کر دیا ہے۔اگر ملتے بھی ہیں تو دل میں نفرتیں اور کدورتیں ہمارے اندر پوری طرح موجود ہوتی ہیں۔دل سے لوگوں کا احترام نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہماری مملکتیں کمزور اور حکومتیں نا پائیدار ہیں۔ ہم خود تو سارے ہی محبتوں کے پیاسے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہماری ماؤں کو شکایت ہے کہ ہمارا بچہ ادب نہیں کرتا، بقول  ساس ،بہو ادب نہیں کرتی، بیٹا کہنا نہیں مان رہا، وفا نہیں رہی۔ ہم نے ایسی یا اس طرح کی دیگر شکایات کرتے ہوئے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات نہیں سوچی کہ ہم اللہ کے کتنے فرمانبردار ہیں۔ اللہ سے اپنی فرمانبرداری کی ریٹنگ بڑھا دیں آپ کی اولاد فرمانبردار ہو جائے گی۔اللہ سے وفا داری بڑھایئے۔ یہ مکافاتِ عمل ہے جو چلتا ہے۔ ہم زمانے سے وفاداری کی امید رکھتے ہیں لیکن ہم میں خود کوئی وفا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سارا معاشرہ کنوئیں کی آواز ہے جو آواز دیں گے لوٹ کے ہمیں آئے گی یا ہماری پھینکی ہوئی  وہ گیند ہے جو  ہم نے دیوار پہ   ماری  ہے ،وہی پلٹ کے ہم تک آئے گی۔ جب تک محبت اور سکون تقسیم نہ کریں ، خود کو بھی نہیں ملتے۔ہماری زندگی کتنی آسان ہو جائے اگر ہم یہ سوچ لیں کہ جس کا جو کلچر ہے، جس کا جو مذہب ہے، جس کی جو زبان ہے، جس کے جو زندگی کے طریق ہیں ،جس کی جو کلاس ہے، وہ اس کو مبارک ہو اور آپ اس پر معترض نہ ہوں۔ آپ یہ مت چاہیں کہ زمانہ آپ کے مطابق ہو جائے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جو میرا طریقہ ہے، جو میرا عقیدہ ، مذہب و مسلک ہے لوگ اُس پہ چلیں۔ خدارا ایسا مت سوچیں۔ اگر آپ نفرتیں، غصہ، غضب، بے صبری، شدت پسندی، خود پسندی، خود غرضی اور لالچ سے معاشرے کو نکالنا چاہتے ہیں توایک بنیادی کام کریں کہ لوگوں پر کسی بھی طرح کا اعتراض کرنا اور معترض ہونا چھوڑ دیں۔ ہمارے ہاں عموماً خود کسی بات پر عمل کرنے کی بجائے دوسروں کو نصیحتیں کرنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ یعنی ہم معترض بھی ہوتے ہیں اور نصیحت بھی کرتے ہیں۔ ہم کسی بندے کو لے کربراہِ راست تنقید کرنے لگتےہیں۔ایک اصول سیکھ لیں اوراسے اپنا لیں کہ آج کے بعد آپ نے گھرمیں ، دفتر میں، بازار میں، کسی پر تنقید نہیں کرنی ۔ جب آپ تنقید چھوڑ دیں گے تو آپ یقین کریں محبتیں آپ کا مقدر بن جائیں گی۔ جب تک دلوں سے نفرتیں اور کدورتیں نہ نکل جائیں آپ دوسرے کا احترام نہیں کر سکتے۔ دوسرے کے احترام کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں کسی کے لیے غصہ ، نفرت اور اعتراض نہ ہو۔

رسول اللہ ﷺ نے بلا تحقیق کوئی بھی بات آگے پھیلانے سے منع فرمایا ہے ۔ سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلانے اور ان پہ تبصرہ کرنے سے گریز کیجیے۔ ۔ آپ نے اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا۔ لوگوں سےمل کر ڈیلنگ کے دوران آپ نے ان کے رویوں کو نہیں جانا ہوتا۔ آپ کے پاس ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے جو سارا دن آپ باتیں سنتے ہیں۔ آپ کے سارے علم کی بنیادایک موبائل یا ٹیلی ویژن ہی ہے وہ بھی بغیر تحقیق کے ، جس میں لازمی نہیں کہ کوئی تحقیق شامل ہو۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ تیرے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کے آگے پھیلادے۔ یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ آپ کی کوئی بات ملک میں مایوسیاں بھی پھیلا سکتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کو اگر ذلیل و رسوا اور تباہ وفنا کرنا ہوتو اس میں مایوسی انڈیل کر اسے مایوس کر دو۔ہر جرم کے پیچھے مایوسی کا دخل ہوتا ہے۔شیطان نے تب ہی جرائم شروع کیے اور وہ شیطان اس وقت بنا جب وہ اس بات سے مایوس ہوگیا کہ مجھے خلیفۃالارض بنایا جائے گا۔ اس لیے اللہ نے اس کا نام ابلیس رکھا، ابلیس کا مطلب ہے انتہائی مایوس۔ اس دن سے اس نے منفی حرکات  شروع  کردیں۔تو جو پاکستانی معاشرے میں منفی باتیں پھیلا رہا ہے وہ ابلیس کا کام کر رہا ہے۔ مثبت باتیں کہیے، مثبت باتوں کو اپنائیں۔

ایک بات یاد رکھیں پاکستان کے بننے میں، اس کے قائم رہنے میں اور اس کے بہت زیادہ طاقتور ہونے میں رسول اللہﷺ کی دعائیں شامل ہیں۔ جس سے سب سے زیادہ کملی والےﷺ کو محبت ہے وہ آپؐ کی امت ہے، جس کےلیے رات کو اٹھ کر رویا ، گڑگڑایا کرتے اور اللہ سے دعا ئیں ، اس کی بخشش اور فلاحیں مانگا کرتے۔ تو جو امتِ محمدی کوتکلیف پہنچا رہا ہے وہ کس کواذیت دے رہا ہے؟ سورۃ توبہ کی آیت نمبر 61 کے مطابق جو اللہ کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے اللہ نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ پاکستان رسول اللہﷺ کو پسند لیکن کچھ لوگ اس کا نقصان کر رہے ہیں۔ آپﷺ نے امت میں اتحاد کے لیے دعائیں مانگیں تو اس ملک میں تفرقہ مت پھیلائیں، جان بوجھ کر اسے کسی بھی طرح کا نقصان پہنچانے کی خطا ہرگزمت کیجیے ۔ آپس میں اتحاد پیدا کرکے قوم کو جوڑ یں، اپنے لوگوں کو باہم کر دیں ان کو ملا دیں تاکہ رسول اللہﷺ ہم سے راضی ہو جائیں۔ جو صوفی ہیں ، اللہ والے ہیں ، وہ خدمت اور محبت کرتے ہیں۔ جس کی سیوا کرتے ہیں اس کی عزت بھی کرتے ہیں۔ اگر گھبرا کے دوسروں سے سخت بات کی جائے تو انسان اپنے رتبے سے ہی معزول ہو جاتا ہے۔کیونکہ جو بندہ ہمارے پاس آ رہا ہے وہ اصل میں تو ہمیں عزت دے رہا ہے ، ہمیں اللہ سے جوڑ رہا ہے کہ ہم سخاوت اور اس کی خدمت کر رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ محسوس ہو کہ آپ اللہ کے قریب ہو رہے ہیں وہی ہمارے محسن ہیں۔اگر کسی شخص کو زندگی میں خدمت اور سیوا کے مواقع ملتے ہیں تو یقیناً وہ خوش نصیب ہے۔ ثواب کا موقع دینے والے کو بھی ثواب ہے۔ ہمارے استادِ محترم فرماتے ہیں کہ جو خالق سے پیار کرنا چاہتا ہے وہ مخلوق سے پیار کرے تو وہ خالق سے ہی محبت ہے۔ اگر اس کی مخلوق کو چھوڑ دیا تو خالق سے تعلق توڑ دیا۔ اللہ کے سب سے قریب وہ بستا ہے جو سخی ہوتا ہے اور اللہ کی مخلوق سے بغیرغرض سے محبت کرتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں رب اللعالمین ہوں، یعنی سب کا رب اور رسول اللہﷺ کے لیے کہا کہ یہ رحمت اللعالمین ہیں، یعنی سب کے لیے رحمت۔ قرآن میں شہد کے بارے میں شفا باالناس کہا شفا باالمومنین نہیں کہا۔ یعنی اللہ نے تقسیم ختم کر دی۔ اللہ کا سورج سب کی فصلیں یکساں پکا رہا ہے، کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اللہ کی بارش ہر ایک کے کھیتوں پر یکساں برستی ہے۔ وہ مذہب و ملت ، نیک وبد اور چھوٹے بڑے کی تفریق نہیں کرتا۔ہمیں اس آفاقی نظریے کو سمجھتے ہوئے اس چیز کو اپنانا ہے کہ ہم تفریق کے عمل سے نکل جائیں۔ لوگوں کو تقسیم نہ کریں، کسی بھی گروہ میں کسی بھی اچھائی کوبرائی میں اور محبت کونفرت میں تقسیم نہ کریں۔ نظریہ ء آفاقیت کو آگے بڑھائیں اور فروغ دیں۔ آپ نے مخلوق میں تفریق نہیں کرنی تاکہ محبتیں پروان چڑھیں۔ پاکستان میں امتی بستے ہیں اور ہم سب امتی ہیں۔ اس سوچ سے ہرپاکستانی سے محبت اور اس کی عزت کیجیے کہ یہ کلمہ گوء  رسول ﷺ اور امتی ہے۔لہذا ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے رواج کو ختم کر دیجیے۔ایک ایک لمحہ سوچیں اور غور کریں کہ ہم سے کہاں غلطی ہو رہی ہے اور ہمیں کملی والےﷺ کے امتی کے لیے کیا کیا خدمت اور محبت کرنی ہے۔اللہ نے ہر کسی کو کوئی نا  کوئی ٹیلنٹ، صلاحیت اور دانائی دے رکھی ہے، تاکہ وہ دوسروں کی خدمت کر سکے اور انسانیت کو فائدہ پہنچا سکے۔ جتنے لوگ انسانیت کے فائدے میں لگے ہوئے ہیں یا انسانیت سے جڑے ہوئے ہیں وہ عظیم لوگ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سو آدمی ان سے رجوع کر پائیں ایک کا بھی دکھ دور ہو جانا بہت بڑی معراج ہوتی ہے ، اس میں کوئی خاص بڑی تعداد ضروری نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے ایک دن کعبۃاللہ کی طرف ہاتھ بلند کیا اور فرمایا، سن لے اے اللہ کے پہلے گھر تیری حرمت سے مجھےانسانی جان کی حرمت زیادہ عزیز ہے۔اگر ہم نے حرمت کو سمجھ اور سیکھ لیا اور انسانوں کا احترام اپنے اوپر واجب کر لیا تو ہمارا یہ ملک پاکستان فلاحی اور جنت کا گہوارہ بن جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply