یہ نظام تعلیم ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔۔رضوانہ سیّد علی

مجھے ایک بچے کو جو جماعت چہارم کا طالب علم ہے ،کتابیں لے کر دینا تھیں ۔ میں نے احتیاطاً تیسری کا نصاب لے لیا تاکہ دہرائی کے بعد وہ چہارم کا نصاب پڑھے ۔ یہ کتابیں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ سے 2020ء میں چھپی ہیں اور ان پہ لکھا ہے یکساں قومی نصاب کے مطابق ایک قوم ایک نصاب۔
اردو کی کتاب کے علاوہ انگریزی اور ریاضی کی کتاب ہے ۔ ریاضی بھی انگریزی میں ہی ہے ۔

پہلے اردو کی کتاب دیکھیے ۔ رنگین ہے ، باتصویر ہے ۔لیکن پھر بھی پھیکی اور بے روح معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ تصاویر محض بھرتی کی ہیں جیسے فوٹو کاپی ہوں ۔ رنگ کہیں سے کہیں جا رہے ہیں ۔ لیجئے بچے نے میرے سامنے کتاب کھولی اور ابتدائی صفحات اسکے ہاتھ میں آ گئے وہ ڈر کر میری جانب دیکھنے لگا ۔ اُف ! اس کتاب کو بچے پورا سال کیسے چلائیں گے ۔ اب سبق پڑھنے کی باری آ ئی ۔ پہلے حمد پھر نعت اور پھر تیسرا سبق ہے ۔ ” بے مثل ذات ہے رسول کریم ﷺ  کی ۔”
مگر بچہ تو ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکا ۔ حالانکہ پچھلے سال اسے یہ کتاب پڑھائی گئی ہو گی ۔


اب ذرا یہ بھی دیکھیے ہر سبق کے شروع اور آخر میں تین تین، چار چار صفحات میں ہدایتوں اور مشقوں کے جال بچھائے گئے ہیں ۔ ذرا نمونہ دیکھیے ۔

حاصلات تعلم :
اس سبق کی تکمیل کے بعد آ پ اس قابل ہو جائیں گے کہ قدرے طویل گفتگو سن کر اسکے اجزاء ( ابتدا، اہم نکات اور نتائج ) اخذ کر سکیں ۔
سادہ جملوں کو استفہامیہ جملوں میں بدل سکیں ۔
تذکیر و تانیث کا فرق جملوں میں واضح کر سکیں ۔


مجھے شک ہے کہ یہ حاصلات تعلم خود اساتذہ کے سر سے گزر گئے ہوں گے کہ بچہ میرے سامنے ہے ۔ چہارم کا طالب علم ہے اور تیسری جماعت کی کتاب کا ایک لفظ بھی پڑھنے سے قاصر ہے ۔
اب ایک دوسری مثال دیکھیے ۔ امریکی ابتدائی درجے کی ایک کتاب میرے پاس موجود ہے ۔ یہ کتاب 1938ء میں چھپی تھی ۔ ابھی تک اس کی جلد سلامت ہے ۔ صفحات خستہ اور پیلے ہو چکے ہیں لیکن بائنڈنگ مضبوط ہے ۔ تصاویر اسقدر خوبصورت ہیں کہ منہ سے بولتی محسوس ہوتی ہیں ۔ کتاب کے تین حصے ہیں ۔
1- our animal friends
2- our friends at play
3- story book friends
کہیں کوئی ہدایت نہیں ۔ کوئی مشق نہیں ۔ کتاب کے آ خر میں جاکر ایک صفحے پہ اساتذہ کے لیے کچھ تجاویز ہیں اور بس

Advertisements
julia rana solicitors


پاکستان بنتے ہی ستمبر 1947ء میں قائد اعظم نے پہلی تعلیمی کانفرنس بلوا لی تھی ۔ اسکے بعد 59ء70ء72ء80ء اور پھر 82ء تک تعلیمی پالیسیاں بنا بنا کر ہم نے بہترین تجاویز کا ڈھیر لگا لیا مگر افسوس عمل کسی ایک پہ بھی نہ کیا ۔ بلکہ انگریزوں نے جو ایک بہترین کوریکولم بنا رکھا تھا جس کے مطابق کھیل کود اور دوسری سرگرمیاں تعلیم کا بنیادی عنصر تھے ۔ اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا ۔ ہر وہ انسان جسے کوئی معاش نہ ملا وہ ٹیچر بن گیا ۔ قوم کو تعلیم کے نام پر زبانوں اور فرقوں میں الجھا دیا گیا کیونکہ نام نہاد اشرافیہ کی فلاح اور زندگی اسی میں مضمر تھی ۔
2000ء کے بعد جو بھی وزیر تعلیم بنا وہ پرانے سڑے ہوئے شربت نئی بوتلوں میں انڈیل کر قوم کو بیوقوف بناتا رہا ۔ شفقت محمود صاحب نے بھی جو مشروب گھولا ہے اس کا ایک نمونہ اور نتیجہ میں نے آ پ کے سامنے رکھ دیا ہے ۔
گر ہمی ملا و ہمی مکتب
کار طفلاں تمام خواہد شد
اور پاکستانی قوم کا کام واقعی تمام ہو چکا ۔
نام نہاد اشرافیہ جیت چکی ، قائد کے عوام ہار گئے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply