“عورت” کا تجزیاتی مطالعہ۔۔عدنان چوہدری

عورت ایک پہیلی ہے۔ایک ایسی پہیلی جسے سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔یہ بھول بھلیوں کی طرح ہے جسے آپ جی سکتے ہیں۔لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن سمجھنے کی کوشش بیکار ہے۔آپ اسے سمجھ نہیں سکتے۔

عورت کےبارے میں پہلی آگاہی یہی ہے کہ اس سے محبت کی جائے، سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے ۔عورت آغاز میں آگے بڑھنے کے عمل کو روکتی ہے لیکن  اگر بڑھ جائے تو واپسی ممکن نہیں۔اگر آپ کسی عورت کے ذہن کو بدلنا چاہتے ہیں تو یہ بھی آپ کے بس کی بات نہیں۔یہ بھی آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ اس سے متفق ہوا جائے۔

اللہ تعالی نے جب یہ کائنات تخلیق کی تو اس کی خوبصورتی عورت میں رکھی۔قدیم یونانی مفکر کے بقول”عورت کو تخلیق کرتے وقت گلاب کے پھولوں کی خوشبو،کلیوں کی نازکی لی، تتلیوں کے رنگ اکٹھے کیے، چاند کی ٹھنڈک اور سورج کی تمازت لی، آبشاروں کا ترنم لیا گیا اور جھرنوں کی دھنیں چرائی گئیں ، شیرنی سے جرات اور لومڑی سے مکاری لی۔اونٹ سے کینہ لیا، عقاب سے پھرتی، سانپ سے زہر اور شہد کی مٹھاس لی گئی۔دریاؤں کی ویرانی، صحراؤں کی وسعت اور سمندروں سے گہرائی لی۔پھر اللہ نے اس میں  اپنی محبت کوٹ کوٹ کر بھری۔ان سب چیزوں کو اکٹھا کیا اور اپنی مہارت سے ایک خوبصورت عورت تراشی۔یہی عورت خدا کی پیچیدہ ترین تخلیقات  میں سے ایک ہے۔

عورت کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے عورت کو کچھ ذمہ داریاں بھی سونپ دی ہیں۔اس کی تخلیق کا مقصد اس کا گھر اس کا شوہر اور اولاد کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دینا ہے۔گھر عورت کی سلطنت ہے جس کی وہ بلا شرکت غیر ے حاکم اور مالک ہے۔

اس کا پہلا فرض اپنے شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ اسی لیے خدا نے شوہر کو مجازی خدا کا درجہ دیا۔تبھی نبی پاکﷺ  کی حدیث کا مفہوم ہے کہ خدا کے بعد اگر کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔اگر خاوند مجازی خدا ہے تو عورت کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ شوہر کو کسی غلط کام میں ملوث پائے تو اس سے اس بابت بازپرس کرے اگر وہ غلط کاریا ں کرنے سے رک جائے تو عورت اس کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے بصورت دیگر وہ علیحدگی اختیار کر سکتی ہے خلع کی صورت میں۔عورت کو یہ اختیار دینا ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل دی گئی  اکائيوں میں سے پہلی اکائی ہے۔

درجہ دوئم پہ عورت کی ذمہ داریوں میں اس کی اولاد ہے جو عورت کی زندگی کا مرکز و محور ہے ۔بچوں کی تربیت عورت کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے ۔بچہ پہلا سبق اپنی ماں سے سیکھتا ہے۔بچے  آئینے  کی صورت ہیں جن پہ ان کی ماں کی شخصیت کابراہ راست اثر پڑتا ہے۔ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ سر انجام دے جس سے بچوں کی تربیت پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں۔عورت کے لیے ماں کی صورت میں تعلیم وتربیت،تحمل مزاجی، بردباری اخلاقی اقدارو و روایات ، مذہبی تعلیم، جھوٹ سے نفرت معاشرے میں رہتے ہوئے اس کے سماجی و معاشرتی تعلقات میں مثبت رویہ بہت ضروری ہے۔اگر عورت بچوں کی اچھی تعلیم و تر بیت میں ناکام ہو جائے تو اولاد کی بے راہ روی نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کے لیے نقصان دہ اور شرمندگی کا باعث کا ہے۔اسی لیے ایک حکمران نے کہا تھا کہ آپ مجھے پڑھی لکھی تربیت یافتہ مائیں دیں میں آپ کو ایک تربیت یافتہ نسل دوں گا۔

یہ ایک ماں ہی کی تربیت تھی جنہوں نے ہمیں حکمرانی کی دنیا میں ابوبکروعمر دیے میدان سپہ سالاری میں خالدبن ولید ابو عبیدہ بن جراح صلاح الدین دیے۔سائنس کی دنیا میں الخوارزی، جابر،بو علی سینا اور الزہراوی دیے تاریخ نویسوں میں ابن قاسم فرشتہ اور ابن خلدون دیے۔روایت کے  میدان میں امام بخاری ترمذی اور ابن ماجہ فلسفہ و فکر کے لیے ابن عربی رومی اور اقبال دیے سیاست میں قائداعظم دیے۔کسی بھی میدان میں ایک لیڈر کی تربیت میں عورت کا بحیثیت ماں ایک قلیدی کردار رہاہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔

آج کی عورت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے اصل مقصد سے دور ہو گئی ہے اور مغربی عورت کی طرح آزاد خیال اور خود مختار ہونا چاہتی ہے۔اس کے خیال میں مغربی عورت کو حقوق نسواں کی آزادی حاصل ہے مگر وہ نہیں جانتی کہ ایک مغربی عورت سے  زیادہ مظلوم کسی اور خطے کی عورت نہیں ہے۔اسلام نے جو حقوق عورتوں کے لیے مقرر کیے ہیں وہ بہت ہی  زیادہ موثر ہیں اور مغربی عورتیں ان حقوق کو دیکھتے ہوئے مسلمان ہو رہی ہیں ۔مغربی معاشرہ عورت کو ایسے حقوق دینے سے قاصر ہے۔مغرب میں عورت کو گزر بسر کرنے کے لیے مرد کے برابر کام کرنا پڑتا اور براہ راست ذاتی ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے وہ جلد ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اسلامی ممالک میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اپنے ممالک میں  خواتین پر ہونے والے مظالم ہائی لائٹ نہیں کرتی۔مرد کے جبر کا نشانہ بننے والی مغربی عورت خوف کا شکار ہے۔

وہ عورتیں جو دفاتر میں کام کرتی ہیں۔انتظامی امور چلاتی ہیں۔سیاست میں حصہ لیتی ہیں ،وزراء اور صدر تک بن جاتی ہیں۔بلاشبہ وہ بہت ذہین، لائق، محنتی اور مردوں سے بہت آگے ہیں۔دانش اور رہنمائی کا پیکر بن کر لوگوں کو لیڈ کرتی ہیں مردوں کو اپنی بے پناہ صلاحيتوں سے حیران کر دیتی ہیں۔وہ مارگریٹ، بے نظیر مریم ملالہ تو بن جاتی ہیں مگر اپنی نسوانیت کھو بیٹھتی ہیں۔ان کے دل اندر سے خالی اور محبت سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ جوکہ بنیادی انسانی حقیقت ہیں ۔وہ اچھی بیوی اچھی ماں تو ہوتی ہیں مگر ان کے اندر ایک مرد جنم لے لیتا ہے اور اس کے اندربرابری کا ایک عنصر پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی فطرت اور جبلت کے خلاف صف آراء ہوتی ہے۔

کبھی آپ نے سوچا کہ خدا نے کسی عورت کو پیغمبر کیوں نہیں بنایا؟ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ جس خدا نے عورت کو تخلیق کیا ہے وہ ہی اس عورت کے اجزائے ترکیبی سے اچھی طرح واقف ہے۔عورت کی خوبی،خامی، طاقت، کمزوری اور صلاحیتوں کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگرچہ دنیا میں آدھے سے  زیادہ مسائل لالچ ،چوری،رشوت، قتل، انتقام اور خاندانوں کی تباہی کے پیچھے بری عورت اور غلط تربیت کا ہی ہاتھ ہوتاہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply