• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • الجزائر پر فرانسیسی استعمار اور ظلم و ستم کی داستان۔۔مجتبیٰ شاہ سونی

الجزائر پر فرانسیسی استعمار اور ظلم و ستم کی داستان۔۔مجتبیٰ شاہ سونی

1954ء میں الجزائری عوام نے تقریباً خالی ہاتھ اور انتہائی پرانے اور روایتی ہتھیاروں کی مدد سے فرانسیسی استعمار کے خاتمے کیلئے انقلابی تحریک کا آغاز کر دیا۔ عوام کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں الجزائر پر فرانس کے 130 سالہ قبضے کا خاتمہ ہو گیا اور یہ اسلامی ملک تقریباً پندرہ لاکھ شہید دے کر آزادی اور خودمختاری سے ہمکنار ہوا۔ اس طرح الجزائر ظلم و ستم کا شکار دیگر اقوام کیلئے رول ماڈل قرار پایا۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ استعماری دور کے خاتمے کو چھ عشرے گزر جانے کے بعد بھی فرانسیسی حکمرانوں میں استعماری خو موجود ہے اور انہوں نے الجزائر پر استعماری قبضے کے صرف انداز تبدیل کئے ہیں۔ براعظم افریقہ پر فرانس کا استعمار تقریباً پانچ صدیوں تک جاری رہا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں دنیا کے دیگر حصوں میں استعماری قوتوں کے خلاف انقلابی تحریکوں نے جنم لیا وہاں افریقی ممالک میں بھی فرانسیسی استعمار کے خلاف ایسی ہی انقلابی تحریکیں شروع ہو گئیں۔ فرانسیسی استعمار نے ان انقلابی تحریکوں کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال کیا اور انہیں کچلنا شروع کر دیا۔ افریقی ممالک میں انجام پانے والی آزادی کی ان جنگوں میں تقریباً بیس لاکھ کے لگ بھگ افراد مارے گئے۔ فرانس نے ایسے ممالک میں بھی طاقت کے زور پر عوامی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی جنہیں وہ آزادی کا وعدہ دے کر دوسری عالمی جنگ میں اپنے شانہ بشانہ لڑنے پر راضی کر چکا تھا۔ ایسا ہی ایک ملک الجزائر تھا۔ الجزائر کے شہری دوسری عالمی جنگ میں فرانس کی فوج میں شامل ہوئے۔

الجزائر کے یہ شہری اسی وعدے پر فرانس کی فوج میں شامل ہوئے تھے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد انہیں آزادی اور خودمختاری عطا کر دی جائے گی۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد فرانس نے نہ صرف الجزائر کو آزادی عطا نہیں کی بلکہ آزادی کا مطالبہ کرنے والے شہریوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کا قتل عام شروع کر دیا۔ فرانسیسی فوجیوں کی جانب سے الجزائری عوام کا یہ قتل عام سطیف اور گلیما کے قتل عام کے بعد شروع ہوا اور 1962ء میں الجزائر کی آزادی تک جاری رہا۔ آزادی کی اس طویل جدوجہد میں دس لاکھ الجزائری لقمہ اجل بن گئے۔ یہ تعداد فرانسیسی فوجیوں کے براہ راست اقدام کے نتیجے میں قتل ہوئے۔ فرانس نے الجزائر میں 1830ء سے نسل کشی کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔

تاریخی امور میں الجزائر کے صدر کے مشیر عبدالمجید شیخی کہتے ہیں کہ فرانسیسی فوجیوں نے الجزائر میں عام شہریوں کا قتل عام شروع کرنے کے بعد ایک اور بھیانک اقدام بھی انجام دیا۔ وہ مقتول شہریوں کی ہڈیاں اپنے ساتھ لے جاتے تھے تاکہ انہیں صابن بنانے اور چینی صاف کرنے والی صنعت میں استعمال کر سکیں۔ 1954ء سے 1962ء تک جاری رہنے والی آزادی کی تحریک میں الجزائر فریڈم فرنٹ کے 60 ہزار رکن اور 10 لاکھ عام شہری فرانسیسی فوجیوں کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔ فرانس کے موجودہ وزیراعظم ایمونوئیل میکرون نے 2017ء میں اپنی الیکشن مہم کے دوران استعماری دور میں الجزائر میں فرانس کے ظلم و ستم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس کو الجزائر سے معذرت خواھی کرنی چاہئے۔

لیکن جب جون 2017ء میں ایمونوئیل میکرون الیزے محل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے اپنا گذشتہ موقف تبدیل کر دیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایمونوئیل میکرون دائیں بازو کی شدت پسندانہ قوتوں کے دباو میں ہیں۔ انہوں نے اپنے گذشتہ موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی باتوں کا غلط مطلب اخذ کیا گیا ہے۔ فرانس اس وقت مغربی دنیا کا ایسا ملک ہے جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیتا ہے۔ تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے فرانس کا کریہہ ماضی کھل کر دامنے آتا ہے۔ حال ہی میں فرانسیسی وزیراعظم ایمونوئیل میکرون نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ فرانس استعماری دور میں انجام پانے والے اقدامات کے بارے میں ہر گز الجزائر سے معذرت خواہی نہیں کرے گا۔ دوسری طرف فرانسیسی وزیراعظم کے اس بیان کے ردعمل میں الجزائر میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا ہے جس کا مقصد استعماری دور میں فرانسیسی ظلم و ستم کو منظرعام پر لانا ہے۔

الجزائر میں انسانی حقوق کے سرگرم اراکین اور قانونی ماہرین حکومت اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ فرانسیسی استعمار کے دوران انجام پانے والے مظالم اور مجرمانہ اقدامات کے بارے میں جامع رپورٹس تیار کی جائیں اور انہیں بین الاقوامی عدالتی اداروں کو بھیجا جائے۔ قانونی شعبے میں سرگرم رکن فاطمہ بنی براہم کہتی ہیں: “ہمیں فرانس کی معذرت خواہی کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت میں اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔” اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 2009ء میں الجزائر کے صدر سے ملاقات کے دوران اس ملک کی آزادی کی تحریک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: “الجزائر، شمالی افریقہ اور ایران کے ماضی کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ ایک قوم کی جانب سے اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد نتیجہ بخش ثابت ہوتی ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply