کچناپہ۔۔سلیم مرزا

جولوگ سمجھتے ہیں مزاح لکھنا مشکل ہے ۔میں ان سےبالکل متفق نہیں اور امید ہے  کہ وہ بھی اس مضمون کو پڑھ کر خود پہ نظرثانی کر ہی لیں گے ۔
ویسے ڈھیٹ ہونا دوسری بات ہے
مزاح نگاری جیسا سہل کام دنیا میں کوئی نہیں ۔یہ مشکل ہوتا تو مشقت سے میرا وزن ایک سو تیس کی بجائے ایک سو پچیس کلو ہوتا ۔بلحاظ وزن باقی مزاح نگاروں کو دیکھ لیں ،مثلا عطاءالحق قاسمی، فردوس عاشق اعوان ۔

اب ایک اینڈرائیڈ موبائل میں اردو لکھنے والی اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں ۔
نیٹ ورک  کی سپیڈ اچھی ہونی چاہیے ورنہ پچھلے دنوں ایک صاحب خراب نیٹ ورک کی وجہ سے شاعر ہوگئے ہیں ۔

مزاح لکھنے کیلئے خود کو دنیا کا سب سے مجبور ،دکھی اور محروم شخص تصور کیجیے ۔اگر شادی شدہ ہیں تو تصور کرنے کی ضرورت نہیں۔
بندہ جب تک شادی شدہ نہ ہو اسے اپنی “گفیہ “صلاحیتوں کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔

ابھی آج ہی کی بات ہے کہ حکومت کے اصرار پہ گھر بیٹھا ہوا تھا لیکن مجال ہے جو بیوی کہیں ٹک کر بیٹھنے دے ،گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔دالیں چاول ،چینی، پیاز سارا کچھ اکٹھا کر لیا ۔پھر بھی دھنیا لینے کے بہانے بھیج دیتی ہے کہ دیکھ کر تو آئیں، کرونا کہاں تک پہنچا ہے؟
ہر دو گھنٹے بعد آواز دیتی ہے ۔
“جو آٹے کا پتہ کرنے جائے ،ماسک والے سے بھی پوچھ کر آئے ۔چار دن سے ماسک کا کپ سائز پسند نہیں آرہا،ادھر گلی میں پولیس سے بچ بچا کر ایک مترنم سا سبزی والا گھس آیا ۔
کیا سُر تھا
آلو لے لو، گوبھی لے لو
گوبھی لے لو ،آلو لے لو
انترے میں کچھ اور سبزیوں کا بھی ذکر تھا ۔سوچا، جب تک گا رہا ہے ناچ ہی لوں ۔
وہ گلی میں پلے بیک سنگر بنا ہوا تھا ۔میں گیراج میں ہریتک روشن ، اچانک بیگم کی نظر پڑگئی ۔
“خسروں کو ریہرسل کروانے کی بجائے باہر جاکر پوچھو، گوبھی کس بھاؤ ہے”؟

اچھےمزاح نگار کی یہ خوبی ہے کہ بیگم کے طنز کو نظر انداز کرے اور سبزی والے کو جا کر کہے”یہ زنخوں کی طرح آواز کیوں لگا رہے ہو “؟

مزاح نگار کی حالات حاضرہ اور پڑوسن ناظرہ پہ گہری نظر ضروری ہے ۔ فیس بکی مزاح نگار ہونے کیلئے جو روش چل رہی ہو اسی پہ لکھنا چاہیے ۔جیسے آج کل لاک ڈاؤن ہے تو مجھ جیسا سلجھی عمر کا مزاح نگار عوام کو ضرور بتائے گا کہ لاک ڈاؤن تو ہوتے تھے ہمارے زمانوں میں،اب تو ہر ایرا غیرا کچن میں گھسا ذاکر شیف بنا ہوا ہے۔مقصد صرف ٹھونسنے کا ہے ۔ کسی نے ابھی تک باتھ روم کی صفائی کی تصویر اپلوڈ کی؟
نہیں ۔وہاں کیا اکیلی بیگم ہی تخریب کاری کرتی ہے؟
جسے دیکھو کچن فتح کیے بیٹھا ہے ۔کسی کو ئی روک ٹوک نہیں ۔کالے چنے پک رہے ہیں ۔چاولوں کا “پپا”بنایا جارہا ھے۔ چٹا چاٹا لئے آٹا خراب کر رہے ہیں اور تو اور ایک پیڑے جیسے شاعر نے پراٹھا تک توے پہ دے مارا اور وہ بھی مکمل گول۔اب آدھے پنڈی اسلام آباد والے مصر ہیں کہ چورس کیسے بنایا جائے۔؟
تو بھلا ہو صلاح الدین درویش اور ظفر عمران کی بیگمات نے چھریاں نکال لیں ،خبردار کچن میں گھسے
سلیم مرزے کا ہیئر اسٹائل کاپی کرنے کا کوئی اور جگاڑ کریں ۔لمبے بالوں کو آگ لگ گئی تو ساتھ کچن بھی بھی جلے گا ۔

کچن کی گھر میں وہی عزت ہے جو وفاق میں پنڈی صدر کی ۔وباء کی آڑ میں اب یہ تو نہیں ہوسکتا ناں کہ مومنہ وحید کو کور کمانڈر منگلا لگا دیا جائے ۔؟
میری بیوی نہ مجھے کچن میں نہیں جانے دیتی
“کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا ”
گئے دنوں یہی کوئی چار پانچ ماہ پہلے کی بات ہے بیگم نے سوچا کیوں نہ چھٹیوں کا فائدہ اٹھا کر میکے والوان کو اس بات کی سزا دی جائے کہ کس سادہ لوح سے بیاہ دیا ۔
بہتیرا سمجھایا کہ یہ قسمت کا لکھا تھا اور ویسے بھی تئیس سال میں چار بچے سادہ لوحی نہیں سادگی ہے ۔
جانے دو
لیکن اسٹیبلشمنٹ جو سوچ لے کرکے رہتی ہے ۔
جاتے جاتے جن چیزوں کے نقصان کا احتمال تھا سنبھال گئی ۔پڑوسنوں کو بھی باتوں باتوں متنبہ کر گئی کہ دو چار دن گھر پہ نہیں ہوں ۔اور جو گھر پہ ہے اس کی گارنٹی نہیں ۔جاتے جاتے فیضان کو گھر ہی چھوڑ گئیں کہ حرکات پہ کم سکنات پہ زیادہ نظر رکھنا ۔
دوپہر کو گئی تو سہ پہر فیضان کو رات کے کھانے کی فکر ہونے لگی ۔کہنے لگا
“پاپا رات کو پکانا ہے یا کسی رشتے دار کے ہاں عین ٹائم پہ جانا ہے “؟

مجھے دوسری بات زیادہ قابل عمل لگی، بڑے بھائی کی محبت میں دل بھر آیا کہ بہت دن ہوگئے انہیں ملے ہوئے ۔اگر بیگم میکے جاسکتی ہے تو میں کیوں نہیں ؟
اللہ میرا میکہ سلامت رکھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

باپ بیٹا پیدل ہی چل نکلے کہ محبت اور بھوک میں شدت ہی اچھی لگتی ہے ۔ابھی آدھی راہ تھی کہ سلیم بھائی(ابن فاضل) کی کال آگئی ۔پاس سے گزر رہے تھے ۔
میں نے بھی روک ہی لیا ،مہمان باعث رحمت ہوتے ہیں ۔
بیٹے سے کہا کہ تم پیپسی وغیرہ کا ارینج کرکے نکل لو اور چائے کیلئے دودھ لے آؤ ۔
میں مہمان کو باتوں میں الجھاتا ہوں ۔کھانے تک مجھےببرداشت کرگئے تو فریج میں چکن ہے ۔
اور میں چکن  کڑاہی کا انٹرنیشنل شیف
چھوٹا منڈا تو نکل لیا دودھ اور مشہورعالم برفی لینے
جیسے ہی پہنچے انہیں گھر تک لایا ۔
بیٹھک میں بٹھایا۔پیپسی لانے کچن پہچا تو مکمل لاک ڈاؤن ۔ڈھونڈنا شروع کیا تو کچن میں گلاس کوئی نہیں ۔
ہر ریک اور دراز میں جھانکا توانکشاف ہوا کہ کچن میں  ہر جگہ پہ تالابندی چل رہی ہے ۔
میرے دل کے علاوہ ہر چیز جس کے ٹوٹنے کا خدشہ تھا ۔
کچن میں کہیں تھی مگر عوام کی دسترس سے دور تھی ۔
لسی پینے والے لیٹر بھر کے دو اسٹیل کے ڈونگے مل گئے ۔
کوک اسی میں ڈال کر لے آیا ۔
سلیم صاحب ڈونگے دیکھ کر چونک گئے ۔
کوک دیکھ کر کہنے لگے میں نہیں پیتا
“دن میں تو میں بھی نہیں پیتا ”
اب جو گفتگو شروع ہوئی تو مجھے یقین تھا کہ مجھے کولیسٹرول لیول سے ملکی معیشت بلند کرنے کا طریقہ بتائیں گے ۔
لیکن میری بے سروسامانی کا “ڈونگا پن “دیکھ کر چپ چاپ کوک کو لسی سمجھ کر پیتے رہے ۔
لہذا آپ بھی لکھیے ۔
چاہے ڈونگے میں کوک ڈال کر لکھنا پڑے ۔مزاح تحریر میں نہیں تقدیر میں ہوتا ہے ۔
یقین نہ آئے تو خود پہ غور کرلیں ۔
کہ آپ کے اہل خانہ کے ساتھ آپ سے بڑا مذاق اور کیا ہوگا؟
نوٹ۔
یہ۔تحریر کچن میں کھانا پکانے کے دوران نہیں لکھی گئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply