عدم برداشت کا حل کوئی نہیں بتاتا۔۔ذیشان محمود

میں پہلے بھی عدم برداشت  کے موضوع پر قلم اٹھا چکا ہوں۔ گزشتہ دنوں گوگل پر عدم برداشت کے موضوع پر سرچ کی اور کئی مصنفین کی تحاریر اورویب سائیٹس پر موجود مواد کو پڑھنا چاہا کہ ہمارے سکالرز اس بارے  میں کیا کہتے ہیں۔ ہر ایک نے معاشرے کے بڑھتے ہوئے دباؤ، معاشرے میں عدم تحفظ،عدم برداشت کی ایک وجہ معاشی بدحالی، مہنگائی ، بیروزگاری، تشدد کے واقعات ، بڑھتے ہوئے جرائم ، فرقہ واریت، انصاف کی عدم فراہمی جیسے عوامل کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اکثر مصنفین صرف موضوع کی اہمیت یا وجوہات کو بیان کرتے نظر آئے لیکن بہت کم مصنفین نے ان وجوہات کا حل بھی پیش کیا۔ کچھ مصنفین کی آراء اور تحاریر ہدیۂ قارئین ہیں:
عدم برداشت اور شدت پسندی سے متعلق سکندر خان بلوچ صاحب اپنے کالم ضربِ سکندری اخبار نوائے وقت 08جنوری 2016ء میں رقمطراز ہیں:
’’سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ عدم برداشت اور شدت پسندی کیا چیزیں ہیں۔یہ ایک ایسی دما غی کیفیت ہے جہاں کوئی انسان ہر چیز، ہر انسان اور ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہے اور صرف اپنے آپ کو ہی درست سمجھتا ہے ۔ یہ کیفیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس مرض کے شکار انسان اپنے خلاف یا اپنے خیالات یا عقائد کے خلاف ہر آدمی کو کافر سمجھ کر اسے قتل کرناعین عبادت سمجھتے ہیں۔ 1980کی دہائی تک پاکستان ایک پر امن ملک تھا پھر آہستہ آہستہ عدم برداشت اس حد تک پروان چڑھی کہ اب پورا ملک سولی پر ٹنگا ہے۔ امن و امان مخدوش ہو چکا ہے۔نہ کسی کی زندگی محفوظ ہے نہ عزت اور نہ پراپرٹی۔اس عدم برداشت کے کلچر نے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری ،لوٹ مار اور ڈاکہ زنی جیسی برائیوں کو جنم دیا ہے جو اب کسی صورت کنٹرول میں نہیں آرہیں ۔عدم برداشت شدت پسندی کو جنم دیتی ہے اور اسکی کئی وجوہات ہیں مثلاً جہالت،علم کی کمی ،ہمیشہ خود ہی کو درست سمجھنا،کم فہمی۔معاشرتی نا انصافی وزیادتی،تشدد،رنگ و نسل یا جنسی امتیاز۔کسی کو کم تر سمجھنا ،ڈاؤن گریڈ کرنا وغیرہ وہ باتیں ہیں جن سے عدم برداشت کا کلچر جنم لیتا ہے اور پھر حالات کے تحت پروان چڑھ کر شدت پسندی میں بدل جاتا ہے۔‘‘
پھر لکھتے ہیں :
’’ان مندرجہ بالا عوامل کے علاوہ مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشتگردی پروان چڑھانے میں ہمارے کچھ مدارس بھی شامل ہیں۔بہت سے مدارس تو بہت نیک نیتی سے کام کرتے ہیں۔ غریب اور بے سہارا بچوں کو سنبھالتے ہیں۔ انہیں مفت تعلیم،کتب ،کھانا اور کپڑے تک مہیا کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم بھی دیتے ہیں اور ایسے مدارس قابل تحسین ہیں لیکن کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جنہیں بیرونی ممالک سے فنڈنگ ملتی ہے اور وہ بچوں کو فرقہ وارانہ طور پر تیار کرتے ہیں۔ حال ہی میں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سرکاری طور پر بیان دیا گیا ہے کہ پنجاب میں 13ہزار سے زائد مدارس میں سے 306مدارس شدت پسندی میں براہ راست یا سہولت کار کے طور پر ملوث ہیں۔بہر حال امریکہ نے ایسے مدارس کی تعداد 600بتائی ہے جنہیں بند کرنے کے لئے زور دیا گیا ہے۔ ملا لہ یوسف زئی نے بھی کچھ مدارس پر اسی قسم کا الزام لگایا ہے ۔ویسے نفرت کا عمل صرف پاکستان میں ہی نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی موجود ہے۔ بلکہ کچھ یورپی ممالک کی حجاب پر پابندی عائد کرنا ۔فرانس کے طنزومزاح کے رسالہ چارلی ہیبڈو کا مسلمانوں کے خلاف کارٹون شائع کرنا اور امریکہ کے حالیہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا مسلمانوں کے خلاف بیان چند ایک ایسی مثالیں ہیں۔
شدت پسندی اور عدم برداشت کا کلچر ختم کرنے کے لئے حکومت کو نہ صرف سخت قوانین بنانے پڑیں گے بلکہ ان پر سختی سے عمل بھی کرنا پڑے گا۔قائد اعظم نے11اگست 1947کو مجلس قانون ساز کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ :’’ہم آج اس اصول کے ساتھ شروعات کر رہے ہیں کہ ہم تمام مذاہب کے لوگ ایک ہی ملک کے اور سب برابر کے شہری ہیں‘‘۔ اس اصول کو اپنائے بغیر ہم عدم برداشت اور شدت پسندی سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
(بحوالہ: https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Jan-2016/443053)
احمد جمال نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ
’’عدم برداشت کسی بھی جرم کی سب سے بنیادی وجہ ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق اگر صرف برداشت کی صلاحیت کو مضبوط کر لیا جائے تو کسی بھی معاشرے سے 90فیصد جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات حقیقت کے بالکل قریب ہے کیونکہ ہر جرم کی داستان کے پیچھے عدم برداشت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں بہت سارے ماہرین کی طرف سے تجویز کیا جاتا ہے کہ جس طرح جاپان میں پرائمری کی سطح تک تعلیمی نصاب میں اچھائی، برائی اور کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے تربیت کی جاتی ہے اسی طرح ترقی پذیر ممالک اور بالخصوص پاکستان جیسے ملک جہاں عوام کی اکثریت جذبات کی لہر میں بہہ کر بہت سارے جرائم کا ارتکاب بھی کر جاتی ہے اس کو مدارس، تعلیمی درس گاہوں، ماں کی آغوش، گھر کے ماحول اور مختلف دفاتر میں برداشت کی قوت کو مضبوط کرنے کا درس دینے اور اس کی عملی بنیادوں پر پریکٹس کروانے کی ضرورت ہے۔‘‘
(بحوالہ: https://www.nawaiwaqt.com.pk/31-Oct-2017/690922)
ثنا بتول صاحبہ ’معاشرہ،احترام اور عدم برداشت‘ کے عنوان سے عدم برداشت میں تربیت کی کمی اور اس پر اساتذہ کو کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہوئی لکھتی ہیں:
’’سوال یہ ہے کہ کیا اساتذہ کی تقرری کرتے ہوئے انٹرویو کے دوران کوئی ماہر نفسیات موجود ہوتا ہے جس کی موجودگی ہر اہم تقرری کے انٹرویو کے دوران لازم ہوتی ہے؟ صرف امتحان میں اور این ٹی ایس میں لیے گئے نمبروں کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے کہ جس کی بنا پہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ جن ہاتھوں میں قوم کا مستقبل سونپا جا رہا ہے وہ محفوظ اور متوازن سوچ کے حامل ہیں۔ ایک استاد کا براہ راست تعلق انسانوں سے ہے وہ انسانوں کی کھیپ تیار کرتا ہے ،اس مقام پہ ہوتا ہے کہ چاہے تو انہیں اچھا انسان بنا دے چاہے تو انتہا پسندی کی طرف جھونک دے۔ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ نسلوں کو بگاڑنے یا سنوارنے کا معاملہ۔ پھر اس کی جانب اتنی غفلت کیوں۔کیوں کم آمدن کا بدلہ ان معصوموں کی غلط تربیت سے لیا جائے جو ان کے رحم و کرم پہ ہیں کہ چاہو تو سنوار دو چاہو تو بگاڑ دو۔ مانا کہ یہ ہماری تہذب کا تقاضا ہے کہ استاد کا احترام کرو لیکن کیا احترام وہی ہوتا ہے جو ڈر پہ قائم ہو؟ احترام حاصل کرنے کے لیے خود کو اس مقام پہ لے جانا ضروری ہے جہاں احترام خود بخود حاصل ہوتا ہے۔ورنہ اندھا دھند تقلید سے ایسے واقعات ہی جنم لے سکتے ہیں۔ جس ملک کے تعلیمی اداروں میں اس طرح کی اخلاقیات اور روایات موجود ہوں اس کی نئی نسل سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ روشن خیال اور معتدل مزاج ہو گی؟جن اداروں میں گونگے، اندھے اور بہرے تیار کیے جاتے ہیں جو نہ خود دیکھ سکتے ہیں ،نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں بلکہ انہیں سوچنے ،سننے ،بولنے ،دیکھنے کے لیے مستعار لیے گئے خیالات آنکھیں ،کان اور زبان درکار ہے وہ دنیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کیا وہ خود سوچ سکتے ہیں اور ان میں وہ حوصلہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کا اظہار کر سکیں؟ تو جواب نہیں میں ہے۔احترام روایت ضرور ی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اپنا مقام بلند رکھنے کے لیے تمام ذہنوں کو غلام کر لیا جائے۔اس پہ قابو نہیں پائیں گے تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے نفرتیں پنپتی رہیں گی۔‘‘
(بحوالہ: http://www.humsub.com.pk/65368/sana-batool-28/)
محترم بشیر واثق صاحب ’عدم برداشت‘ کے عنوان تلے روزنامہ ایکسپریس23 فروری 2014ء میں اس موضوع پر اپنے مفصل مضمون میں لکھتے ہیں۔
’’میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہو تی ہے وہاں بے چینی ، شدت پسندی، جارحانہ پن ، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں، معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے، یہ نفسانفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے ۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے، بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
پھر لکھتے ہیں :
’’روحانی سکالر میاں مشتاق عظیمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’ہمارے معاشرے کا عجیب ہی چلن ہو گیا ہے، بچہ والدین کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسی طرح والدین بچے کی بات نہیں مانتے ، معاشرے میں افراد کی اکثریت اپنا موقف درست تسلیم کئے جانے پر مصر ہے چاہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کے لئے انھوں نے طرح طرح کے دلائل گھڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معاشرے میں عدم تحفظ بہت زیادہ پایا جاتا ہے کوئی فرد جو گھر سے نکلتا ہے اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ گھر کو واپس لوٹے گا بھی کہ نہیں۔ عدم برداشت کی ایک وجہ معاشی بدحالی بھی ہے ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے وسیع مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بھی افراد کی اکثریت ذہنی دباؤ میں رہتی ہے جس سے انسانی رویے میں غصہ پیدا ہوتا ہے ، جیسے ایک خاتون اگر بازار میں خریداری کرنے جاتی ہے تو اس میں اس وجہ سے غصہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔یہ غصہ پورے معاشرے میں ہے اور جس کا اظہار کبھی احتجاج کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں ، جرائم بڑھ رہے ہیں ، فرقہ واریت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام رواداری کا درس دیتا ہے، اگر ہم لوگ حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ حکومت ہر فورم پر رواداری کو اجاگر کرنے کے لئے کوشش کرے ، مذہبی و سماجی رہنما اس حوالے سے خاص طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ عوام میں پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں اس سے عوام کو ذہنی سکون ملے گا۔ اس سے بھی عوام میں پایا جانے والا خوف یا غصہ کم ہو گا‘ ۔‘‘
(بحوالہ: https://www.express.pk/story/229887)
حال ہی میں صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین صاحب نے بھی اس موضوع پر گفتگو کی۔
صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہےکہ عدم برداشت کا رجحان ملک کو تباہی کی جانب گامزن کردیگا،عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر دکھی ہوں۔ عدم برداشت کےسدباب کےلیے قوم یکجا ہوجائے، اختلاف شائستگی کی حدود سےنکل جائےتومعاشرہ فساد فی الارض کاشکارہوجاتاہے۔ان کا کہنا تھا کہ عدم برداشت کاخاتمہ نہ ہواتونہ کسی فردکی عزت محفوظ رہے گی نہ ادارے کی،قوم میثاق اخلاق پر متحد ہوجائے، اختلاف کو نفرت میں بدلنےوالا رویہ قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
(روزنامہ جنگ 11 مارچ 2018ء بحوالہ https://jang.com.pk/news/461462)
جہانزیب بٹ صاحب 7 جون 2017ء کو مکالمہ پر لکھتے ہیں کہ
’’اب اس سب کا حل کیا ہے ۔ کیسے اس عدم برداشت کی صورت حال سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات جان لینی چایئے کے معاشرے کی بنیادی اکائی فرد ہے ۔فرد نے ہی معاشرے کی تشکیل کرنی ہے ۔ معاشرے میں موجود ہر فرد معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔وہ بذات خود اسکی تعمیر و ترقی یا تباہی کا باعث بنتا ہے ۔اپنے معاشرے کو کیسے چلانا ہے اس کافیصلہ خود اسے کرنا ہوتا ہے ۔ اکنامکس کا ایک اصول ہے کی بہترین نتائج اس صورت میں حاصل ہونگے جب فرد اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد کے نفع کو بھی سامنے رکھ کر فیصلہ کرے ۔ اب چونکہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کوٹ کوٹ کر بھری ہے تو اس کا کیا حل ہونا چاہیئے ۔ اسکے لئے فرد کو بذات خود بہتر ہونا پڑے گا۔ لیکن ہم اس کے حل کی تلاش میں بھی اپنی عقل کو محدود کر لیتے ہیں ۔
ہمیں یہ بات تو معلوم ہے کہ کسی بھی فن کو ایک دن میں حاصل نہیں کیا جاسکتا یا اس کو برقرار رکھنے کیلئے مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے لیکن ہم یہاں یہ کلیہ بھول جاتے ہیں اور فورا ًاس صورت حال سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ نتیجہ اسی کی صورت میں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ اب چونکہ ہم نے اس بات کو تسلیم کر ہی لیا ہے کہ یہ بیماری ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور اس کے وائرس ہر انسان میں منتقل ہوتے ہیں توہم کیوں اس بیماری سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ یا کرتے بھی ہیں تو ایک یا دو دن، اس کے بعد پھر پہلے جیسے ۔ موٹاپا ایک بیماری ہے ۔ جو لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں وہ روزانہ صبح و شام کو ورزش کرتے ہیں اور اس کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں ۔
اب انہیں شروعاتی کچھ عرصہ تو دقت ہوتی ہے اور ان کا ورزش کا دورانیہ کم ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ ان کا معمول بنتی جاتی ہے اور وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں ان کے ورزش کے دورانیہ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ پہلے سے مزید فاصلہ طے کرتے جاتے ہیں ۔جو ان کی صحت کا باعث بنتی ہے ۔اسی طرح عدم برداشت سے چھٹکارا بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ایک دم نہیں روز بہ روز تھوڑا تھوڑا اپنی توقعات اور خود غرضی کو مار کر اس کی شروعات کر سکتے ہیں اور اس کو اپنا معمول بناسکتے ہیں تب ہی ہمیں برداشت کی عادت ہوسکے گی اور ہم آہستہ آہستہ اس میں اضافہ کر کے اس بیماری کو ختم کرکے ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کرسکیں گے ۔‘‘
(بحوالہ: https://www.mukaalma.com/3473)
اور یہی حقیقت ہے کہ ہم سب کو انفرادی طور پر بنیادی اکائی بن کر ان معاشرتی مسائل اور عدم برداشت کے عوامل کی بیخ کنی کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے اخلاقی معیار بلند کرنے ہوں گے تاکہ ہم آئندہ نسلیں ایسے معاشرے کے سپرد نہ کرنے والے ہوں جن میں پیدائشی طور پر عدم برداشت کا مادہ جنم لے یا ان کو گھٹی میں عدم برداشت شامل  ہو جائے۔ اللہ ہمیں انفرادی طور پر اور بحیثیت قوم اپنی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کرنے والا بنائے۔ آمین

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply