پشاور میٹرو منصوبہ۔۔۔۔۔۔امجد اسلام

چلیں جی مان لیا کہ سیاست کی ہمیں الف، با، تا تو کیا زیر، زبر، پیش کی بھی معلومات  نہیں، لیکن اِقتدار کی کرسی پر براجمان اس پارٹی کو ہم نے سپورٹ بھی اِسی نا سمجھی والی کیفیت میں کیا تھا، زندہ باد، مردہ باد کے نعرے الیکشن سے پہلے جب ہم سے لگوائے جاتے، تب ہم باشعور بھی تھے اور ہماری عزت بھی بہت تھی، اب جب کرسی کا مزہ چکھ  چُکے، تو ہمارے اُوپر ایک”فوجِ بے شرما” کو مُسلط کیا گیا ہے، تاکہ جب کوئی پارٹی رکن پارٹی کے غلط امور پر اعتراض کرےتو یہ فوج جو سوشل میڈیا کے خود ساختہ دانشور ہیں، بےشرم گالیاں دے کر”انہیں” زبردستی چپ کرواسکے۔

صاحب ہم نے تو الیکشن سے پہلے والے منشور کی وجہ سے ہی پارٹی کو سپورٹ کیا تھا۔۔

اُس منشور میں چیخ چیخ کر کہاجاتاتھا کہ ملک کو نہ ہی موٹرویز کی ضرورت ہے نہ میٹرو کی اور نہ  اورنج ٹرین کی، اس پر لگنے والے بجٹ کو سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں پر خرچ کر لینا چاہیے، یا پھر انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے ہسپتالوں پر ،تب ہم نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔

پنجاب کے میٹرو کو حقارت  دیکھا  گیا سے اور سیاسی بغض  میں  میٹرو کے بجائے جنگلہ بس کا نام دیا۔

پھر اچانک الیکشن سے پہلے مشورے دئیے گئے کہ پشاور کو بھی میٹرو المعروف جنگلہ بس کی بہت اشد ضرورت ہے، یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ پشاور کو میٹرو کی نہیں، بلکہ مشورہ دینے والوں کو اس کی ضرورت ہے، آج کل مشورہ دینے والے موصوف  کروڑوں میں میٹرو ہی کی وجہ سے کھیل رہے ہیں، تو ایک حد تک وہ لوگ صحیح بھی تھے۔

تب گِنے چُنے لوگوں نے اعتراض کیا، کہ صاحب پارٹی تو میٹرو کے خلاف تھی، تو کیوں اب میٹرو میٹرو کی  گردان.۔۔۔۔.

مشورہ دینے والے لیکن اتنے تگڑے تھے، کہ ان گِنے چُنے اعتراض کرنے والے لوگوں کی آواز خود اُن کے  سوا کسی نے بھی نہیں سنی۔

یہاں ایک  تجویز دی  گئی ، کہ محترم ہم نے میٹرو کے خلاف اتنے بیانات دئیے ہیں کہ اب اگر ہم میٹرو کی شروعات کریں گے تو لوگ کو جواب دینا مشکل ہو جائے گا، اس سے بہتر ہے کہ جی ٹی روڈ پے تجاوزات کو ختم کر کے روڈ کو نسبتاً چوڑا کر دیا جائے ، پھر اس چوڑے روڈ کے ایک سائیڈ پے الگ ٹریک بنا کر اس کے لیئے خصوصی میٹرو طرز کی چند نئی بسیں منگوائی جائیں ، الگ سے سٹیشن د یا جائے، اِس سے نا صرف ٹریفک جام کا مسئلہ کم ہو جائے گا، بلکہ پشاور کی خوبصورتی اور لوگوں کا روزگار بھی متاثر نہیں ہوگا، اور قلیل مدت میں اور کم بجٹ میں تکمیل پانے والا منصوبہ ہوگا۔

یہ تجویز بھی ان سُنی کر دی گئی۔

ہاں کچھ سوجھ بوجھ والوں نے تسّلی دی کہ حوصلہ رکھو، یہ میٹرو چھ ماہ کی  قلیل مدت میں مکمل ہو جائے گی اور پنجاب میٹرو سے کئی گنا کم بجٹ کھائے گی ۔۔۔

تب شروعات ہوئی میٹرو کی، پشاور کو کئی سالوں بعد خوبصورت کیا گیا تھا، جگہ جگہ گلشن بنے تھے، تب دشمن کی طرح ان خوبصورت گلشنوں  کو مسمار کیا گیا۔دہشتگردی کی وجہ سے روزگار جو رُک چُکا تھا، وہ ابھی شروع  ہوا تھا،رکشہ والے سے لیکر تاجر برادری تک نے سُکھ کا سانس لیا، کہ ہم بھی اب اچھے دِن دیکھیں  گے، لیکن یہ اچھے دِن بس چند روز کے مہمان ٹھہرے، یا پھر کسی کی بُری نظر پشاور کو لگ چُکی تھی، پھر کیا ہوا، ہر وہ  ذی نفس جِن کا پشاور سے روزگار وابستہ تھا، وہ پریشان ہوتا گیا۔

اندازہ لگانے والے کہتے ہیں کہ پشاور کی تاجر برادری کو اب تک بیس ارب  روپے سے زیادہ نقصان کا دھچکا لگا ہے، جو مزید بڑھنے کاخطرہ ہے۔

یہاں پر پارٹی کے  ایک اور اصول نے دم توڑ دیا ، سِکھایا گیاتھاکہ گر پارٹی کا لیڈر ہی کیوں نہ ہو غلط فیصلہ کرے، تو ورکر بلاخوف اعتراض کر سکتا ہے، لیکن یہاں بھی وہی گمنام فیس بُکی مجاہدین اپنا کام بخوبی انجام دے رہے تھے،جن کاکام میٹرو میں کی گئی ہر غلطی پر نا صرف پردہ ڈالنا ہے ، بلکہ فلمی انداز میں ڈیفینڈ بھی کرنا ہے۔

اور پھر “بنا کر گرانا، گرا کر بنانے”۔۔۔کا ایک سلسلہ شروع ہوا،جس سےنا صرف میٹرو پے لگنے والے بجٹ میں کئی گنا اضافہ ہوا، بلکہ مقررہ وقت کے بعد بھی ابھی تک میٹرو اِلتواء کا شکار ہے۔

روزِ اوّل سے متنازعہ میٹرو آج بھی متنازعہ ہی ہے، اگر خفیہ عوامی رائے لی جائے ریفرنڈم ٹائپ کی، تو  شرط  لگا لیجئے کہ نوّے فیصد لوگ میٹرو نہ  بنانے کے حق میں ووٹ دیں گے،(اگر ووٹ کا ٹرن آؤٹ اکانوے فیصد رہا تو)۔

مولا سے بی آر ٹی کی کامیابی کی دعا ہے، کیونکہ اس پہ  نا صرف عوام کا بہت سارا پیسہ لگ چکا ہے، بلکہ بہت سارے لوگوں نے اس کے بدلے اپنے بچوں کو سُہانے مستقبل سے میلو ں دور کیا ہے۔

خود کو اوروں کی نسبت شعور والا تصّور کرکے پارٹی کے ہر اچھے بُرے فیصلوں پے واہ واہ کرنے والوں۔۔۔۔

کرتے رہو واہ واہ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سانُوں کیا۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply