طرفہ تماشا انشاء پرداز/عامر حسینی

جب کوئی شخص (یہاں میڈیا و سوشل میڈیا پر چھوٹا یا بڑا ایسا سلیبرٹی مراد ہے جو ‘سماجی علوم’ پر مقدمات پیش کرتا ہو اور اس سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد متاثر ہوتی ہو) تاریخ کو ریشنلسٹ بنیادوں پر دیکھنے کا دعوے دار ہو اور وہ ‘غیر معقول طرز سخن’ اپنائے تو اسے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
اسے اس کے یا اس کے دفاع کرنے والوں کے بقول اس کی ‘غیر معقولیت’ کا سبب فلاں زید یا بکر کی اشتعال انگیزی ہے تو اگر ہم بہت رعایت برتیں تو پھر بھی سوال یہ پیدا ہوگا کہ ‘غیرمعقولیت’ اگر مبینہ اشتعال انگیزی کرنے والے شخص کے باب میں کی گئی ہوتی تو نظر انداز کردی جاتی ، یہ کیا کہ آپ کے آباء و اجداد کا جو فرقہ ہے اور آپ کی جو نسلی شناخت ہے آپ اس کے مقابلے میں دوسرے فرقے اور دوسری نسلی شناختوں پر کلمہ عموم کے ساتھ حملہ آور ہوجائیں – اور اس نظریہ اور فرقے کی دلیل سے حملہ آور ہوں جس کی بنیاد یعنی مذھب پر ایمان ہی آپ ترک کرچکے ہوں بلکہ آپ اعلان کرچکے ہوں کہ آپ ملحد ہیں (ملحد کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ مابعدالطبعیات، مادیت سے ماوراء کسی شئے کے موجود ہونے کے قائل ہی نہیں ہیں) تو ایسا کرنا منافقت کہلائے گا – اور اس صورت میں بے وقوفی کہلائے گا جس کو آپ اپنے تئیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے دعوے دار ہو وہ اعلانیہ اور عملا ملحد ہو اور اسے رگیدنے کے لیے آپ جس مذھبی شناخت کو لیکر کوسنے دے رہے ہوں وہ اس کے ساتھ بھی وہی رویہ رکھے ہوئے ہو جو آپ کے آباء کی مذھبی و نسلی شناخت کو لیکر کررہا ہو –
کیا اس سے بڑا تضاد کوئی اور ہوسکتا ہے کہ آپ سائنس کو عقیدے کی حد تک جاکر پوجا رہے ہوں اور شعوری یا لاشعوری طور پر پوسٹ ماڈرن ازم کے سب سے بڑے مظہر منطقی اثباتیت کی فکری پیروی کررہے ہوں اور اسے خود بڑے بے رحمی کے ساتھ اپنے آباء کے عقیدے اور مذھبی ثقافت پر آزما رہے ہوں اور پھر اسے رد کرنے کے دوران گہرے طنز کے لیے جگہ فراہم کررہے ہوں اور اس کے مطابق اگر کوئی ایک یا بہت سارے آپ کا طرز اپناکر وہی کچھ کریں جو آپ نے کیا جبکہ وہ نہ تو آپ کی طرح ایسے آباء رکھتے ہوں جن کا مذھب وہ ہو جو آپ کے آباء کا تھا اور نہ ہی اس نسل سے ہوں جو بقول آپ کے آپ کے آباء کی تھی تو آپ کا جو ردعمل آئے اس سے یہ لگے کہ ایسی تنقید یا طنز کرنے کا حق اسی کا ہوسکتا ہے جو آپ کے آباء جیسی مذھبی و نسلی شناخت رکھتا ہو-
جب خود کوئی شخص کسی مذھبی تیوہار کی ثقافت کے اندر غیر معقولیت تلاش کرتے وقت خالص عقلیت کے استعمال پر زور دیتے اور یہاں تک کہ ایک کہانی میں مہنگے اور سستے خدا اور مہنگے اور سستے امام کی منظر نگاری کرنے کا حق استعمال کرے تو پھر وہ اسی طرح کے طریق استدلال کو استعمال کرنے سے دوسروں کو کیسے روک سکتا ہے؟
ویسے بھی ایک لبرل سرمایہ دارانہ دانش پر ایمان رکھنے والا شخص جب کلچر کے سوال کو لیکر یوٹوپیائی سوشلسٹ لائن یا کفایت شعاری یا اجتماعی افادیت کی لائن کے تحت مذھبی تیوہار کے رسوم و رواج و شعائر’ پر حملہ آور ہوگا تو یہ بذات خود ایک بڑا تضاد ہے، اسے واضح کرنا ہوگا کہ جس نظام کو وہ قابل عمل ہی نہیں سمجھتا ، اس نظام کے استدلال کو لیکر وہ کیسے کسی کلچر، رسم یا رواج پر حملہ آور ہوسکتا ہے؟
دوسرا جب کوئی اور جو نہ تو اس کی نسلی شناخت میں اشتراک رکھتا نا ہی اس کے آبا و،اجداد کے مذھب پر ہے جب وہ ایسے ہی استدلال کے ساتھ مذھبی تیوہار کی ثقافت کو رد کرتا ہے تو ایک دم سے ‘عصبیت اور شاونسٹ اور فرقہ وارانہ خطوط’ پر چلنے لگ جانا کیا کسی کو برہم نہیں کرے گا؟
انشائیہ پردازی ،عبارت سازی میں کمال ہونے کا مطلب اس سے جنم لینے والے انشائیہ یا عبارت کا تضاد سے بالکل خالی ہونا نہیں ہوتا –
پہلے ایسا آدمی یہ فیصلہ تو کرلے کہ مذھب، مذاہب کی تاریخ ، نسل ، جات پات ،کلچر ان سب کو لیکر اس کا بنیادی طریق تحقیق ہے کیا؟
اور وہ ان سب کی طرف کس کس طرح کی حسیت رکھتا ہے؟
جب آپ پٹھے پر ہاتھ ہی نہ رکھنے دیں تو حرکات و سکنات اضطراری ہوجاتی ہیں، اختیاری نہیں –
مقصد آپ کا ہر طرف سے تعریف سمیٹنا ہو تب لائن بھی مبہم رکھنا پڑتی ہے اور اس کے لیے اردو کی ایک کہاوت ہے:
“جیسا دیس ویسا بھیس”

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply