چراغِ اُمید/ڈاکٹر اظہر وحید

اُمّید ایک چراغ کی مانند ہے اور مایوسی ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے۔ اُمّید کا ننھا سا دیا بھی اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ مایوسی کے گھپ اندھیروں میں یقین کے خورشید کی خبر دیتا ہے۔ اُمّید عجب چیز ہے۔ اس مادّی دنیا میں غیر مادّی دنیا کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ سبب اور نتیجے کی ماّدی دنیا میں ایک پُراُمّید شخص روحانی دنیا کا سفیر ہوتا ہے۔
مایوس ہونے والا کفر میں داخل ہو جاتا ہے۔ مایوسی کو کفر کہا گیا ہے۔ اس اعتبار سے امید ایک درجہِ ایمان کہلائے گی۔ جس کا ایمان جتنا قوی ہے، اُس کی اُمّید کی شمع اتنی ہی زیادہ روشن ہے۔ اُمّید کے دیے میں روشنی کا سبب بننے والا زیتون، ایمان کے شجرِ طیبّہ سے حاصل ہوتا ہے…… یہ شرقی ہے نہ غربی! یہ چراغ جس فانوس میں جلتا ہے، اسے سینہ و صدر کہا جا سکتا ہے۔
اُمید کا پیام بر دراصل اس خدائے واحد پر ایمان لانے کا پیغام دیتا ہے جو اسباب پیدا کرتا ہے لیکن کسی سبب کا محتاج نہیں۔ سبب خلق ہے اور خالق اپنی تخلیق کا محتاج نہیں ہوا کرتا۔ خلق اپنے خالق کو عاجز نہیں کر سکتی۔ وہ قانونِ فطرت بناتا ہے لیکن وہ قوانین ِ فطرت اس کی مجبوری نہیں۔ قانونِ فطرت بنانے والے فاطر نے ایک اور قانون بھی بنا رکھا ہے…… اور وہ ہے قانونِ مشیّت۔ قانونِ مشیت، قانونِ فطرت پر حاوی رہتا ہے۔ مشّیت اس کی منشا اور ارادہ ہے۔ وہ جو چاہتا کر تا ہے…… کر سکتا ہے…… فعاّلْ لِّلما یْرید۔ اُس کا ارادہ، کوئی ایسی فانی و متغیر شے نہیں جو دنیائے فانی میں رونما ہونے والے کسی سبب کے زیرِ اثر بدل جائے۔ ہمارے اعمال بھی اس کے ارادے کو نہیں بدل سکتے ہیں۔ رحمت ہمارے اعمال پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے اعمال اس کی رحمت کے محتاج ہیں …… اچھے اعمال اس کی دی ہوئی توفیق کے محتاج ہیں۔
امید کا دامن تھامنے والا دراصل اس کا دامانِ رحمت تھامتا ہے۔ یہ ذات کا تعلق ہے، ذات کے ساتھ! ذاتی تعلق میں صفات اور صفات کی دنیا کی حیثیت ثانوی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسباب و نتائج کی دنیا صفات کی دنیا ہے۔ صفت ذات سے ہے، ذات صفت سے نہیں۔ صفات تعارف کی دنیا ہے…… ذات معرفت کا جہان ہے۔ صفات کی دنیا تعلیم و تعلم کی دنیا ہے۔ صفات کا علم ہوتا ہے…… ذات کی پہچان ہوتی ہے۔ معرفت پہچان ہے…… اور پہچان چہرے کی ہوتی ہے۔ چہرہ ذات کا نمائندہ ہے۔ چہرے کا تاثر ہی تاثیر بنا کرتا ہے۔ جنبشِ ابرو ہی جزا و سزا کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مسکراتا ہوا چہرہ ہی رضامندی کی دلیل ہوتا ہے۔ جنت کی حقیقت ایسی ہے۔ ایک حدیثِ پاک کے مطابق ”…… جنت کیا ہے؟ تمہارے رب کا مسکراتا ہوا چہرہ!“ اصحابِ صفہ کی شان قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ صبح شام اپنے رب کے چہرے کے طلبگار ہیں۔
ایمان کا تقاضا ہے کہ اُمّید کا دیا روشن رکھا جائے۔ اُمّید کا ایک روشن چراغ بہت سے چراغوں کو روشن کر دیتا ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے اورچراغاں ہو جاتا ہے۔ یقین دھمال ڈالتا ہے۔ اندھیرے کافور ہو جاتے ہیں اور مایوسی کے اندھیروں میں محوِ رقص ابلیسی شتنگڑے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
مایوسی ابلیس کا ہتھیار ہے۔ ڈر اور خوف پیدا کرنا بھی طاغوتی طاقتوں کے ہتھکنڈے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔ بخیل مفلس ہونے کے ڈر سے خرچ نہیں کرتا…… اس لیے بخیل اللہ سے دورہے۔ سخی کم ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا…… وہ بے دریغ خرچ کرتا ہے…… اس لیے سخی اللہ کے قریب ہے۔ پس! مایوس کرنے والا، غریبی سے ڈرانے والا ابلیس کا پیروکار ہے…… وہ مخلوق کو اللہ کی رحمت سے دور کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے شفا اور شفاعت کی امید چھینتا ہے۔ وہ خوش خبری نہیں دیتا بلکہ بُری خبر پھیلاتا ہے…… کسی ممکنہ بُرے مستقبل کی خبر۔ اصلاح کی غرض سے مکافات ِ عمل سے ڈرنا اور ڈرانا الگ نوعیت کی حکمتِ عملی ہے۔ اس ڈرانے کے ساتھ بشارات بھی دی جاتی ہیں۔ نذیر کی نمائندگی کرنے والا بشیر سے بشارت بھی وصول کرتا ہے اور اپنے حلقہ تاثیر میں اس کی ترسیل بھی کرتا ہے۔
مایوسی ابلیس کی آماجگاہ ہے۔ ابلیس کا کام ہی یہ ہے کہ کسی طور بندوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کر دیا جائے۔ ابلیس کے کارندے اِسی اندازِ فکر کی ڈفلی بجاتے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ مابعد پر یقین رکھنے والا زندگی کے ختم ہو جانے کے بعد بھی پُراُمید ہے، کہ وہ شفاعت کا منتظر ہے۔ توحید اور رسالتؐ پر ایمان کا لازمی جزو یومِ آخرت پر ایمان لانا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ بے شک اللہ ہی مومنوں کو ولی ہے جو انہیں ظلمات سے نکال کر نور میں لے آتا ہے۔ ظلمتیں بہت سی ہیں، نور ایک ہے۔ ظلمتوں کا تعلق عالمِ کثرت سے ہے۔ نور کا تعلق وحدت سے۔ یہاں مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید اور یقین کی روشنی تک لے جانا، اللہ کی صفتِ ولایت کا اظہار ہے۔ اس کی کوئی صفت کبھی موقوف و معطل نہیں ہوتی۔ اس لیے اللہ پر ایمان رکھنے والے کے لیے قطعی جائز نہیں کہ وہ ظلمات میں پناہ ڈھونڈے۔ اس کے لیے وصفِ ولایت سے تمسک ہی وہ عروۃ الوثقیٰ، نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی، ہے جو اسے ظلمات سے نکال دے گی۔
رب کی رحمت سے مایوس کر دینے والی ایک چیز معصیت بھی ہے۔ لیکن معصیت پر بھی مایوس ہونے کی گنجائش نہیں رکھی گئی…… کہ ہزارہا معصیت کو صرف ایک توبہ ختم کر دیتی ہے۔ توبہ کے ہوتے ہوئے مایوس ہونا حیران کن حد تک بیوقوفی ہے۔ توبہ شکنی بھی ایک مایوس کن عمل ہے۔ لیکن توبہ شکنی کا بھی ایک حل موجود ہے…… اور وہ ہے، دوبارہ توبہ کر لینا۔ توبہ نیت کا وضو ہے۔ وضو اگر ٹوٹ جائے تو دوبارہ کر لیا جاتا ہے…… اور یوں دوبارہ پاکیزگی کی مسجد میں داخل ہونے کا اذن مل جاتا ہے۔
اندھیرا جتنا گہرا ہوتا جاتا ہے، اُمّید کا دیا اتنا ہی اہم ہو جاتا ہے۔ اُمّید زندگی ہے، مایوسی موت! زندگی کی ایک رمق موت کے اندھیروں کو شکست دے دیتی ہے۔ جب تک کسی وجود میں زندگی کی ایک رمق بھی باقی ہوتی ہے، مردار خود گدھ اس سے دُور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اُمّید پاکیزگی ہے۔ مایوسی ناپاکی ہے! اُمّید ایمان ہے، مایوسی کفر! اعمال کے باب میں اگر تہی دامانی کا اندیشہ ہے تو یہ اندیشہ ایک توبہ سے دور ہو جاتا ہے۔
کیا خوبصورت کلام کیا ہے، رب نے اپنے بندوں کے ساتھ…… رب کا کلام تو ہے ہی خوب سے خوب تر…… مگر جب رب اپنے حبیبؐ کے ذریعے کلام کرتا ہے تو اِس کلام کی خوبصورتی دو چند ہو جاتی ہے۔ حسن کہیں بھی ہو، اسے دوبالا کرنا محبوب ہی کا کام ہوتا ہے۔ ربِ کریم قرآن کریم میں فرما رہا ہے: اے حبیبؐ! میرے بندوں سے کہہ دو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ گویا رحمت کا خطاب رحمت للعالمینؐ ہی کی وسیلے سے براہِ راست سنایا جا رہا ہے۔ یعنی مجسم رحمت ہی بندوں سے ہم کلام ہے کہ مایوس نہ ہونا۔ مایوس ہونا رحمت سے منقطع ہونا ہے…… بلکہ رحمت للعالمینؐ کے دامنِ شفاعت سے خود کو منقطع کرنا ہے۔ باالفاظِ دگر یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اپنے حالات و واقعات کی سنگینی اور اعمال کی کوتاہی دیکھ کر خود کو دامانِ رحمتِ مصطفیٰﷺ سے دور نہ کرنا۔ وہ اپنے امتیوں سے ہرگز دور نہیں۔ شفاعت ہو جائے گی، گناہ بخش دیے جائیں گے۔ سیّاٰت حسنات میں تبدیل ہو سکتی ہیں …… کسی بھی وقت…… کسی بھی لمحے! اس لمحے کا انتظار کرنا چاہیے۔ انتظار کے آسن بیٹھنے کا اذن صرف اُمّید کے پاس ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply