زوال،زوال،زوال/ڈاکٹر اظہر وحید

مسلم امہ کے زوال کے اسباب ایک ایسا موضوع ہے جس پر برسوں سے نہیں، صدیوں سے لکھا جا رہا ہے۔ ایک نوجوان جب مسلم معاشرے میں شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اسے دائیں بائیں سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے آباء بہت عظیم تھے، ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہم مومن ہیں، اس لیے ہمارا حق ہے کہ ہم اقوامِ عالم پر غالب آئیں۔ دین کے حوالے سے وہ جو کچھ سنتا ہے، اسے ایک عقیدے کے طرح اپنے خانہِ شعور میں محفوظ کر لیتا ہے، لیکن عملی دنیا میں جب قدم رکھتا ہے تو اس کا مشاہدہ اس کے عقیدے کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اقوامِ عالم میں وہ قومیں ترقی یافتہ ہیں جو مذہب سے برملا لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ انصاف، قانون کی حکمرانی اور ایک عام شہری کے حقوق ان معاشروں میں رائج العمل ہیں جنہیں عرفِ عام میں لادینی معاشرے کہتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ انفرادی طور پر اگرچہ ایک عام مسلمان کسی بھی سیکولر آدمی کی نسبت خدمتِ خلق میں زیادہ مصروف نظر آتا ہے، لیکن اجتماعی طور پر مسلمان تاحال کوئی ایسی ریاست قائم نہیں کر سکے جہاں اس عدل و انصاف کا دور دورہ ہو، جو نظریاتی طور پر اسے اسلامیات کے نصاب میں پڑھایا گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں وہ عجب فکری اشکال کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ عقیدہ بچاتا ہے تو سائنسی، معروضی اور تحقیقی سوچ سے دور ہو جاتا ہے، وہ حریتِ فکر کی راہ پر چلتا ہے تو روایتی عقیدے سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ فی الوقت دنیائے عالم میں کوئی ایسی مسلم ریاست نہیں جہاں حریتِ فکر رکھنے والا انسان بلاخوف و خطر زندگی بسر کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی خوشحالی کے باوجود ایک عام مسلمان گھرانہ یورپی شہریت کا خواہاں نظر آئے گا۔

اصل عروج فکر کا عروج ہے اور اصل زوال فکری زوال ہے۔ معاشی عروج و زوال اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ مسلم ممالک جو تیل اور سیاحت کی دولت سے مالا مال ہیں، وہ بھی حریتِ فکر ایسی عام فہم دولت سے تہی دست نظر آتے ہیں۔ وہ اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، خوبصورت یونیورسٹیوں کی عمارات کھڑی کرتے ہیں، بھاری مشاہروں پر بدیسی پروفیسر بھی ملازم رکھ لیتے ہیں، لیکن مجال ہے کہ وہاں سے ایک بھی ایسی ریسرچ برآمد کر سکیں جو دنیائے عالم کی توجہ حاصل کر سکے۔ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ تحقیق دراصل ایک محققانہ کلچر مانگتی ہے اور اس کلچر کی اساس حریتِ فکر ہوتی ہے۔ ملوکیت، آمریت اور شہنشاہیت میں سب سے پہلے جس چیز کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے، وہ یہی حریتِ فکر ہے۔ حریتِ فکر پر سمجھوتا کر لینا بدترین فکری زوال ہے اور حریتِ فکر کا عَلَم ہر حال میں بلند رکھنا، فکر کا عروج ہے۔ فکری زوال اور پامالی میں دولت اور طاقت کام نہیں آتی، کیونکہ دولت اور طاقت اخلاقی فتح عطا نہیں کر سکتیں۔ دنیا کی امامت کا فریضہ ان قوموں کو دیا جاتا ہے جو دنیائے عالم میں پہلے اخلاقی فتح حاصل کر چکی ہوں۔ اگر ایک قوم اپنے لوگوں کو حریتِ فکر سے محروم رکھتی ہے، انہیں پابندِ سلاسل رکھتی ہے تو اقوامِ عالم میں وہ کسی مجبور و مقہور قوم کا مقدمہ لڑنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھتی ہے۔ زبان کے محاورے صدیوں کی حکمت و دانش کے مقولے ہوتے ہیں۔ اردو میں کہتے ہیں: چھاج بولے تو بولے، چَھلنی بھی بولی جِس میں سَتَّر چھید۔

معلوم نہیں، امت مسلمہ کے زوال کے اسباب گنوانے والے محققین اس فقیر سے کس حد تک اتفاق کریں، لیکن فقیر کا فرض ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی گواہی پیش کر دے۔ اس فقیر کی دانست میں مسلم امہ کے زوال کا آغاز اس وقت ہو چکا تھا جب مسلمانوں نے ٹھنڈے پیٹوں ملوکیت کو قبول کر لیا۔ کربلا میں صرف 72 نفوس کا رہ جانا اس بات کی گواہی ہے کہ داعیانِ اسلام ملوکیت کو بطور طرزِ حکومت قبول کر چکے تھے۔ چنانچہ بعد کا منظر کچھ یوں نظر آتا ہے کہ مسجدوں میں عبادت بھی جاری رہی اور بادشاہوں کی طرف داری بھی جاری رہی۔ بادشاہوں نے شاہی محلات کے ساتھ ساتھ شاہی مسجدیں بھی تعمیر کرائیں تا کہ اپنے وظیفہ خوار شاہی خطیبوں سے اپنی حکومت کی درازیئ عمر کی دعائیں کرائی جا سکیں۔ یہ بلند آہنگ سیاسی دعائیں خالق کو نہیں بلکہ مخلوق کو سنانے کے لیے کرائی جاتی رہیں۔ ظاہر پرست عوام دینِ فطرت کی اس شاہی تشریح پر راضی ہو گئے جو بادشاہوں کو ظلِ الٰہی کہنے اور پھر سمجھنے پر مجبور کرتی ہے۔ یوں وہ دینِ فطرت جو انسان کو غلامی کی بیڑیوں سے نجات دینے کے لیے آیا تھا، وہ غلاموں کا دین بن کر رہ گیا۔ دینِ حریت، حریت پسندوں کے کام آتا ہے۔ لالچ اور خوف کا شکار کہیں نہ کہیں غلامی قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دراصل آزاد وہی ہیں جو زمرہِ لایحزنون ہیں۔ خوف اور حزن سے آزاد لوگوں کا نصاب مرتب کرنے والی شخصیت حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش اپنی شہرہ آفاق تصنیف میں ایک ہزار برس قبل لکھ چکے ہیں: تصوف حریت ہے۔ تصورِ حریت سمجھنے کے لیے ایک مثال پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ مثال بھی کشف المحجوب میں یوں درج ہے: ایک درویش کی بادشاہ سے ملاقات ہوئی۔ بادشاہ نے کہا: ”مجھ سے کوئی چیز مانگ لو!“ درویش نے کہا: ”میں اپنے غلاموں کے غلاموں سے کچھ نہیں مانگتا“۔ بادشاہ نے کہا: ”یہ کیسے؟“ درویش نے کہا: ”میرے دو غلام ہیں اور یہ دونوں ہی تیرے آقا ہیں: ایک حرص اور دوسرا خواہش!“

قصہ مختصر جہادِ اکبر اور بہترین جہاد کا راستہ چھوڑ کر ہم عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں پناہ گزیں ہوتے چلے گئے اور دنیا اور دنیا والے ہم غالب آتے گئے۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر امت کو یہی سبق دیا گیا کہ نفس کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اکبر ہے، سرحدوں کی طرف جہاد، جہادِ اصغر کہلایا۔ نفس کے خلاف جہاد میں فتح کی صورت میں انسان لالچ اور خوف سے آزاد ہو جاتا ہے، اور ایک آزاد شخص کو کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ غلام کو غلامی پسند نہ ہو تو کوئی اس کا آقا نہیں بن سکتا۔ بہترین جہاد، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا تھا۔ ہم اس جہاد کے بھی تارک ہو گئے۔ مقامی جابر کے سامنے سرنگوں ہونے والی قوم بین الاقوامی جبارین کے سامنے بھی ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو جائے گی۔ جو قومیں مقامی سطح پر حریت برقرار رکھتی ہیں اسے کوئی بیرونی حملہ آور قوت غلام نہیں بنا سکتی۔ شومئی قسمت کہ ہم جابر سلطانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والا بہترین جہاد کرنے کے بجائے انہی کے زیرِ سایہ جہاد بالسیف میں مصروف رہے، یہاں تک کہ جہاد اور فساد کا فرق بھول گئے۔

یہی وجہ ہے کہ انفرادی طور پر عظیم ہونے کے باوصف ہم اپنی قوم کو عظیم نہ بنا سکے۔ ہماری عظمتیں ہماری اپنی ذات کے گرد طواف کرتی رہیں۔ ہم اپنی عظمتوں کا دان خود ہی وصول کرتے رہے اور قوم ایک بے ہنگم ہجوم میں تبدیل ہو گئی جسے کوئی بھی آمر لاٹھی گولی کے زور پر ہنکا کر لے جاتا ہے۔ کربلا والوں کا راستہ، عزیمت کا راستہ تھا۔ پیچھے رہ جانے والوں کا، خاموش رہنے والوں کا، اپنی جان بچانے والوں کا راستہ، رخصت کا راستہ تھا۔ ہم بحیثیتِ قوم تاحال رخصت پر ہیں۔ ہم رخصت کے راستے پر ہوتے ہوئے عزیمت اور عظمت کے خواب دیکھتے ہیں۔ عظمت تو عزیمت کے راستے پر چلنے والوں کا حصہ ہے۔ رخصت کے راستے پر چلنے والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے حصے کا دانہ دنکا چنتے رہیں اور اپنے مقرر شدہ وظیفے اور سانس پورے کرنے کے بعد خاموشی سے رخصت ہو جائیں۔ ظلم پر خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف اور مظلوم سے بے وفائی کی علامت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

راستہ بھول جانے والا جب راستہ دریافت کرنا چاہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اسی موڑ پر واپس چلے جاؤ، جہاں سے راستہ گم ہوا تھا۔ کربلا ہماری تاریخ کا اہم موڑ ہے، یہیں سے ہم راستہ بھولے تھے، یہیں سے راستہ ملے گا۔ یہاں نام و نسب نہیں، بلکہ کردار سے کام ہے۔ کردار ہی ہماری باطنی پہچان ہے۔ اس باب میں مسلم شریف کی ایک حدیثِ مبارک سند ہے: ”جس کا عمل اسے پیچھے کر دے، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا“۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply