• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ناموس صحابہ و اہلبیت بل پر شیعہ فرقے کو اعتراض کیوں؟ – صدیق اکبر نقوی

ناموس صحابہ و اہلبیت بل پر شیعہ فرقے کو اعتراض کیوں؟ – صدیق اکبر نقوی

توہین صحابہ و اہلبیت بل  کیا ہے؟

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 کا تعلق توہین مذہب سے ہے۔ دفعہ 298 کے مطابق کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر کوئی لفظ کہنا، آواز نکالنا یا کوئی چیز سامنے لانا جرم ہے اور اس جرم کی سزا ایک سال قید، جرمانہ یا دونوں قرار دی گئی ہیں۔ 1980 میں ضیاء الحق دور میں دفعہ 298 میں آرٹیکل اے کا اضافہ کیا گیا، جس کے تحت مقدس شخصیات منجملہ امہات المومنینؓ، اہل بیتؑ، صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدینؓ کے بارے میں توہین کا اظہار کرنے پر 3 سال قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں ہی 1984 میں اسی دفعہ 298 میں مزید ترمیم کی گئی اور شق نمبر 298 بی شامل تعزیرات کی گئی۔ اس شق کے مطابق اسلام کی سر برآوردہ شخصیات کے لیے استعمال ہونے والے القابات، خصوصیات یا اوصاف کو احمدی استعمال نہیں کر سکتے۔ اس جرم کی سزا 3 سال قید یا جرمانہ رکھی گئی ہے۔ واضح ہے کہ یہ سزا حضرت عبداللہ، بی بی آمنہ اور حضرت ابو طالب کی تکفیر کرنے والوں کیلئے نہیں ہے کیوں کہ ایسا کرنے والے  علما   اکثریتی مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی جرات کون سا جج کر سکتا ہے؟

298اے میں موجودہ ترمیم جو 2023 میں پارلیمان میں پیش کی گئی اس میں آیا ہے کہ سزا جو 3 برس کی ہے، اس کو بڑھا کر کم سے کم 10 برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ ایکٹ نمبر 5 بابت 1898، جدول دوم میں درج ذیل ترامیم کی جائیں:

قابلِ ضمانت کو ناقابل ضمانت کیا جائے، سمن کو وارنٹ کیا جائے، 3 برس سزا کو عمر قید کیا جائے، اور درجہ اوّل یا درجہ دوم مجسٹریٹ کو سیشن عدالت سے بدلا جائے۔ یہ تجویز جب اسلامی نظریاتی کونسل میں پیش کی گئی تو شیعہ نمائندے نے اعتراض کیا، جس پر اسے دھمکیاں دی گئیں۔

شیعہ مکتبہ فکر کو اس ترمیم پر کیا اعتراض ہے؟

1۔ توہین و تنقیص کی تعریف معین نہیں کی گئی۔

2۔ صحابیت اور اہلبیت کے مصادیق واضح نہیں، ہر مسلک کی اپنی تشریح ہے جس کے سبب آج جناب ابو سفیان کی توہین پر بھی مقدمات ہو رہے ہیں۔

3۔ اس جرم کی ایسی سزا قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ بطور مثال ملاحظہ ہو سنن نسائی حدیث 4076، مسند احمد بن حنبل حدیث 9622، وغیرہ۔

4۔ بل کو پاس کروانے کے لیے تمام مراحل کی پاسداری نہیں کی گئی۔ قومی اسمبلی ممبران میں سے 8 اور سینیٹ سے 20 ممبران نے بل کو پاس کیا۔

5۔ ایک دن میں 122 بل پیش کیے گئے۔ سینیٹرز کہتے ہیں ہم کون کون سا بل پڑھتے۔ محترمہ شیریں رحمان صاحبہ نے اس پر احتجاج بھی کیا کہ اس بل کو متعلقہ کمیٹی میں بحث کے لیے نہیں لے جایا گیا حالانکہ یقین دلوایا گیا تھا کہ بل کمیٹی میں جائے گا۔

6۔ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی نہیں بھیجا گیا۔

7۔ پاکستان میں فقہ جعفریہ کے ماننے والوں پر کسی دوسری فقہ کے علما  کا بنایا قانون مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر زکوٰۃ کے مسئلے اور وراثت کے مسئلے میں جداگانہ قانون سازی کی گئی ہے۔

8۔ اس قانون کا سب سے خطرناک پہلو اس کا نادان نوجوانوں پر اطلاق ہے۔ 15 سے 20 سال کا شیعہ بچہ سُنی بچوں اور اسلامیات کے متعصب استادوں کے طعنوں کے جواب میں کچھ کہہ دے تو ساری جوانی جیل میں مجرموں کے ساتھ رہے گا۔ اس سے ملک کا انسانی سرمایہ ضائع ہو گا۔ وہ کوئی تعلیم حاصل نہ کر کے کچھ کمانے اور ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے کے قابل نہیں رہے گا۔

9۔ آئین ہر شہری کو اپنے مذہب و مسلک کی تبلیغ کا حق دیتا ہے۔ اس قانون سے شیعوں کا یہ بنیادی انسانی حق معطل ہو جائے گا۔

10۔ یہ قانون پاکستان کے مذہبی تنوع کو ختم کر دے گا جو پاکستان کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے۔

11۔ کسی کی توہین سے لوگوں کو روکنا ایک اخلاقی معاملہ ہے جسے تعلیم و تربیت کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بتوں کی توہین سے بھی روکا گیا ہے (سورہ الانعام، آیت 108) لیکن اس کی بنیاد پر اگر ہندوستانی سرکار توہینِ اصنام بل بنا کر مسلمانوں کو اخلاقی پولیس کی مدد سے جیلوں میں ڈالنے لگے تو کیا یہ مناسب عمل ہو گا؟

قائد اعظم کی سوچ کیا تھی؟

8 اپریل 1940 کو راج کمار امیر حیدر خان کے خط کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح، جو خود بھی شیعہ اثنا عشری تھے، نے یقین دلایا کہ شیعوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا تھا:

مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ شیعوں کو منتخب اداروں اور سرکاری اداروں میں کسی بھی ایسے معاملے میں آواز اٹھانے سے روکا جائے جس سے شیعہ متاثر ہوں۔ ہمیں مسلم لیگ کو ایسے منظم کرنا چاہیے کہ اس کے اندر موجود ہر فرقے اور طبقے کے ساتھ انصاف ہو۔ پھر جہاں تک شیعوں کے لیے مذہبی رسومات اور عقائد کی آزادی کا تعلق ہے، یقیناً یہ بات بالکل بنیادی ہے اور مسلم لیگ کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یہ آزادی چھن نہ سکے، ورنہ یہ تنظیم کسی کام کی نہیں… جہاں تک شیعہ اوقاف کا تعلق ہے، تو ان کے صرف شیعوں کے کنٹرول میں  ہونے پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ … اگر کوئی قانون مسلم حنفی قانون کے مطابق منظور کیا جائے تو شیعوں کیلئے ان کی فقہ کو مدنظر رکھا جائے گا۔ (1)

اسی طرح قائد اعظم کے 14 نکات میں بھی یہ اصول شامل ہے کہ مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے منافی قرار دیں۔

ملے جو دین سیاست سے

اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی اور ہندو مہا سبھا برصغیر میں اصلی مسائل سے ہٹ کر مذہبی جذبات کی سیاست کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ بھارت میں آزادی کے بعد کانگریس نے ریاست کو سیکولر رکھا تو سائنس اور علم کی بنیادیں مضبوط ہوئیں جس کا نتیجہ آج بھارت کے چاند پر جانے اور معاشی حالات میں پائیدار بہتری کی شکل میں نکل رہا ہے۔ البتہ چونکہ معاشرے میں    برداشت اور سیکولر ازم کمزور ہونے لگا ہے لہٰذا وہاں ہندو مہا سبھا کی سوچ بڑھ رہی ہے اور  لو جہاد جیسے عنوانات سے مسلمانوں کے خلاف قانون سازی ہونے لگی ہے۔ چنانچہ اترپردیش میں یہ ہو رہا ہے کہ اگر مسلمان لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرے تو اس کے خلاف لو جہاد کا مقدمہ ہو گا لیکن جب ہندو لڑکا مسلمان لڑکی سے شادی کرے تو بھلے مسلمان اسے بھگوا لو ٹریپ (bhagwalovetrap#) قرار دیں، سرکار کوئی کاروائی نہیں کرتی۔ جس سے لگتا ہے کہ بھارت بھی ہندوؤں کا پاکستان بنتا جا رہا ہے۔ بہر حال اترپردیش کے مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سوچ وہیں کے علما  نے پاکستان پر پہلے سے مسلط کر رکھی ہے۔

پاکستان کے قیام سے پہلے ہی جماعت اسلامی کی سوچ کے تحت معاشرے کو پوتر کرنے کی مہم چل پڑی تھی اور دسمبر 1946 میں مردان، مانسہرہ اور ایبٹ آباد میں ہندو اور سکھ شہریوں پر حملے کر کے  فسادات کا آغاز کیا گیا جن کے نتیجے میں پنجاب سے ہندو اور سکھ ختم ہو گئے۔ اس کے رد عمل میں 16 اگست 1947 میں مشرقی پنجاب میں سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، جو بہت بڑا ظلم تھا۔ پاکستان میں 1949 میں قرارداد مقاصد پاس ہوئی جس نے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا تو اترپردیش کے مولانا مودودی نے نو زائیدہ ریاست کے ختنے ہو جانے کی خوشخبری ان الفاظ میں سنائی کہ آج پاکستان مسلمان ہو گیا ہے۔ اب یہ سلسلہ شیعوں کا گلہ گھونٹنے تک آ پہنچا ہے۔

دینی مدارس میں طلاب کی تعداد 40 لاکھ ہو چکی ہے جو کُل آبادی کا دو فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر یونیورسٹی اور کالج میں اسلامیات کے شعبے کے نام پر ایک مدرسہ قائم ہے۔ جہاں ہر سو افراد پر دو مولوی تعینات ہوں، وہاں معاشی ترقی ایک دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔ آئے دن یہ دو فیصد لوگ سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کر کے کسی نہ کسی مذہب و مسلک کی آزادی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ دیکھیے  لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ؟

حوالہ:

Advertisements
julia rana solicitors london

1. Andreas Rieck, “The Shias of Pakistan”, page 43, 2015.

Facebook Comments

صدیق اکبر نقوی
عن عباد بن عبداللہ قال علی انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر (سنن ابن ماجہ، ١٢٠)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply