علامہ نائینی کی حیات و خدمات(تمہید)/تحریر;اعجاز نقوی

شیخ الاسلام علامہ میرزا محمد حسین نائینی ایران کے صوبہ اصفہان کے شہر نائین میں 1860ء میں ایک معروف مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی مذہبی تعلیم اپنے آبائی شہر ہی میں حاصل کی۔ 1877ء میں مزید تعلیم کے لئے اصفہان چلے گئے جہاں آپ نے آیت اللہ باقر اصفہانی کی شاگردی میں 7 سال تک فقہ و اصول فقہ اوردیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔ اس کے بعد عراق کا سفر کیا۔ نجف اشرف کی زیارات کے بعد سامراء شہر میں حصول ِ علم میں مشغول ہوگئے۔ سامراء میں میرزا نے سید محمد طباطبائی فشارکی اور سید اسماعیل صدر کی شاگردی اختیار کی۔ اس کے بعد 9  سال تک میرزا محمد حسن شیرازی کے درس خارج میں شریک ہوتے رہے۔ میرزا محمد حسن شیرازی وہی مشہور شیعہ مرجع ہیں جنہوں نے اس وقت تمباکو نوشی کے حرام ہونے کا فتویٰ  دیا جب شاہ ایران نے تمباکو کا ٹھیکہ ایک برطانوی کمپنی کو دے دیا تھا۔ میرزا شیرازی کا یہ فتویٰ  اتنا موثر واقع ہوا کہ شاہ ایران کو برطانوی کمپنی کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کرنا پڑا۔ میرزا شیرازی کی وفات کے بعد میرزا نائینی اپنے استاد سید اسماعیل صدر کے ہمراہ کربلا چلے گئے اور وہاں دو سال تک حصولِ علم میں مشغول رہے۔ اس کے بعد میرزا نجف اشرف منتقل ہوگئے اور مشہور مرجع آخوند ملا محمد کاظم خراسانی کے درس خارج میں شریک ہوئے۔

اگرچہ میرزا نائینی اس وقت اپنی تعلیم مکمل کرکے اجتہاد کی سند حاصل کرچکے تھے لیکن آخوند خراسانی کے احترام میں ان کے دروس میں شریک ہوتے تھے۔ جلد ہی وہ آخوند خراسانی کے محرمِ راز شاگردوں میں شامل ہوگئے اور آخوند خراسانی کے تمام دفتری امور کو سنبھال لیا۔ علامہ مرتضیٰ  مطہری “خدمات متقابل اسلام و ایران” میں میرزا نائینی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
“حاجی میرزا محمد حسین نائینی کا شمار چودھویں صدی کے عظیم فقہا و علما  میں ہوتا ہے۔ انہوں نے علمِ اصولِ فقہ میں زیادہ شہرت پائی اور آخوند خراسانی کے بعض علمی نظریات کے مقابل اپنے جدید نظریات پیش کیے ۔ آپ نے فارسی میں “تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ” نامی کتاب لکھی جو ایران میں آئینی جمہوریت کے دفاع میں لکھی گئی۔”

میرزا نائینی کی خاص بات ان کے سیاسی نظریات ہیں۔ ایران میں جب شہنشاہی نظام کے خلاف تحریک اُٹھی  اور آمرِمطلق شاہ کے اختیارات کو آئین کے ذریعہ محدود کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں تو جن علما  نے آئینی جمہوریت کی تائید میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں میرزا نائینی ایک اہم شخصیت ہیں۔
اس تحریک کو معاصر ایران کی سیاسی تاریخ میں “انقلابِ مشروطہ (Constitutional Revolution)”کہا جاتا ہے۔ اُردو میں اسے آئینی جمہوریت کی تحریک کہہ سکتے ہیں۔ اس تحریک کے دوران علامہ آخوند محمد کاظم خراسانی نے بہت اہم اور متحرک کردار ادا کیا تھا اور اس دوران ان کے دفتر کے تقریباً  تمام امور میرزا نائینی کے سپرد تھے۔ اس دفتر سے آخوند خراسانی کی ہدایات کے عین مطابق آئینی جمہوری تحریک کی حمایت میں ہر موقع پر بیانات جاری کیے  جاتے تھے۔

میرزا نائینی 1905ء کے انقلابِ روس کو بھی آمریت کے خلاف ایک اہم قدم سمجھتے تھے۔ میرزا نائینی بڑی ذہانت سے برطانوی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو! برطانیہ نے اپنے ملک کے لوگوں کے لئے آئینی جمہوریت قائم کرلی ہے اور وہ اپنے ملک کے شہریوں کو سیاسی مشاورت میں شریک کرتا ہے۔ لیکن وہ اپنے مقبوضہ ممالک، جیسے ہندوستان اور دیگر ممالک  میں آمرانہ طرز روا رکھے ہوئے ہے۔ وہ ان ممالک کے انسانوں کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے۔ یہ لوگ گویا اس کے قیدی ہیں۔ برطانیہ کی دوغلی پالیسیوں سے پردہ اٹھانا میرزا کی فکری جرات کا ثبوت ہے۔

علامہ میرزا نائینی تمام انسانوں کو قانون کے سامنے برابر سمجھتے ہیں۔ میرزا نائینی اصولِ مساوات کو عدالت کی روح و بنیاد مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ افضل ترین قانون ہے جو اسلامی سیاست سے ہی ماخوذ ہے۔
وہ انسانی حریت و آزادی کو انسانیت کا جوہر سمجھتے ہیں اور امام حسین (ع) کے قیام کو استبداد و آمریت کے خلاف ایک عظیم تحریک قرار دیتے ہیں۔
وہ جمہوریت کو ایسی میراث سمجھتے ہیں جو دراصل اسلامی میراث ہے۔ اگرچہ اس کو اہل یورپ نے اپنایا ہے لیکن اس کو واپس لے کر دوبارہ اپنانا گویا اپنی اصل کی طرف ہی لوٹنا ہے۔

1908ء میں ایران کے قاچاری بادشاہ “محمدعلی شاہ” نے مجلس شورا (یعنی قومی اسمبلی) کی عمارت پر روس کی قزاق بریگیڈ کی مدد سے حملہ کیا اور انقلابِ مشروطہ یعنی آئینی جمہوری انقلاب کے تمام لیڈروں کو گرفتار کرلیا۔

اس واقعہ نے ایران میں آئینی جمہوری تحریک کو شدید نقصان پہنچایا لیکن عوامی تحریک کو مکمل طور پر دبانا ناممکن ٹھہرا۔ تحریک جاری رہی اور علما  نجف کی طرف سے تحریک کی پشت پناہی بھی جاری رہی۔

1909 ء  میں علامہ نائینی نے جمہوریت کی حمایت میں ایک کتاب “تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ” لکھی جو اس وقت کے سیاسی وسماجی ماحول میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی تالیف کا سبب یہ تھا کہ کچھ مذہبی علما  نے دربار سے تعلق رکھنے والے شیخ فضل اللہ نوری کی قیادت میں جمہوریت کو رَد  کرتے ہوئے مطلق العنانیت کی حمایت میں تقریر و تحریر کے ذریعہ کام شروع کردیا تھا۔
میرزا نے اپنی کتاب میں اس طبقے بالخصوص شیخ فضل اللہ نوری کے خیالات کو نقد کیا اور ان کے اعتراضات کے شافی جواب بھی دئیے ہیں۔

میرزا نائینی کی اس کتاب پر آخوند خراسانی اور شیخ عبداللہ مازندرانی نے تقریظ لکھی۔ آخوند خراسانی اور شیخ عبداللہ مازندرانی آئینی جمہوریت کی تحریک کے سرخیل شمار ہوتے ہیں۔
علامہ نائینی نے جمہوریت کے حق میں روایتی فقہی دلیلوں سے بھی مدد لی اور یورپ میں چلنے والی تحریکِ خردافروزی سے بھی استفادہ کیا۔ بعض اہل تحقیق کا خیال ہے کہ میرزا نائینی نے شامی عالِم علامہ عبدالرحمان کواکبی کی کتاب “طبائع الاستبداد ومصارع الاستعباد ” سے بھی استفادہ کیا۔
لیکن علامہ نائینی صرف خوشہ چین نہیں تھے۔ وہ اجتہادی فکر کے مالک تھے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ نائینی نے قرآن و سنت سے اور خاص طور پر حضرت علی(ع) کے خطبوں کی کتاب “نہج البلاغہ” سے جمہوریت کے حق میں بھرپور دلائل دئیے ہیں۔ اس کے ساتھ میرزا نائینی تشیع کے بنیادی اور اصولی عقیدہ یعنی “عقیدہ امامت” کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

ان کے نزدیک حکومت و حاکمیت دراصل خدا کا حق ہے جو خالقِ کل ہے اور وہی انسانوں کے لئے امام و حاکم نصب کرتا ہے۔ امام کی غیبت کے زمانے میں فقہاء (مذہبی علماء) ان کے نائب عام ہیں۔
لیکن یہ ضروری نہیں کہ فقہاء براہ راست حکومت کریں۔
میرزا کے خیال میں فقہاء کی طرف سے عادل اہل ایمان کو اذنِ عام دینا بھی کافی ہے۔

میرزا نائینی کی نظر میں شخصی و آمرانہ حکومت سماج کے لئے بہت سی خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ وہ آمرانہ حکومت کے سخت ناقد ہیں۔ چاہے وہ مذہبی آمریت ہو چاہے سیاسی آمریت۔ وہ حکومت کو قانون کا پابند بنانا چاہتے ہیں۔

نائینی یہاں تک کہتے ہیں کہ نبی مکرم (ص) اور امام معصوم (ع) کو بھی خدا کا حکم تھا کہ وہ لوگوں سے مشاورت کرکے سیاسی فیصلے کریں۔

میرزا نائینی جنگ احد کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ حضرت محمد مصطفی (ص) مدینہ سے باہر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن اپنے ساتھیوں کی اکثریت کی رائے کو ترجیح دی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول گرامی (ص) منصبِ رسالت رکھنے کے باوجود حکومتی امور میں اکثریت کی رائے کو ترجیح دیتے اور اپنے فیصلے آمرانہ انداز میں جبراً نافذ نہیں کرتے تھے، اسی کا نام جمہوریت ہے۔ علامہ نائینی قرآنی حکم “وشاورھم فی الامر” سے دلیل لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ نبی (ص) و امام (ع) معصوم تھے لیکن انہیں بھی لوگوں سے مشاورت کا حکم تھا۔ اور یہ حکم اس لئے دیا گیا تاکہ ان کے بعد آنے والے غیر معصوم لوگ خود کو مشاورت سے بے نیاز نہ سمجھ لیں۔

میرزا نائینی نے نہج البلاغہ سے امام علی بن ابی طالب(ع) کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ “میرے ساتھ اس انداز سے مت بات کرو جیسے تم جابر بادشاہوں سے کرتے ہو، اورجیسے لوگ خود کو ظالم حکمرانوں سے محفوظ رکھنے کے لئے منافقت سے کام لیتے ہیں، تم میرے سامنے ایسا مت کرو”۔
یہ قول نقل کرکے میرزا نائینی کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی(ع) کے ماننے والوں کو سزاوار نہیں کہ ہم جابر وآمر بادشاہوں کا ساتھ دیں۔ میرزا کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) جیسے امام لوگوں کے ساتھ جمہوری رویہ رکھتے تھے تو حضرت علی(ع) کے ماننے والوں کے ملک ایران کے بادشاہ کے پاس جمہوریت کا راستہ روکنے کا حق کہاں سے آیا؟ یہ بادشاہ کیوں مطلق العنانی کرتے اور خود کو عوام الناس سے بے نیاز سمجھتے ہیں؟
میرزا کے نزدیک مساوات اور آزادی صدر اسلام کی حکومتوں کے دو بنیادی اصول تھے۔ وہ بنوامیہ کو اسلامی تاریخ میں آمریت کا بانی قرار دیتے ہیں۔ جنہوں نے مساوات اور انسانی آزادی کا خاتمہ کیا۔
امام مہدی (ع) کی غیبت کے زمانے میں میرزا نائینی کے نزدیک بہترین حکومت وہی ہے جو قانون کی پابند ہو اور قانون سازی کے عمل میں علما کو شریک ہونا چاہیے۔
وہ آئینی جمہوریت کو ہی اسلام کےاصولوں کے مطابق قرار دیتے ہیں۔
میرزا نائینی نے اپنی کتاب ” تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ” میں شاہی اختیارات کو محدود کرنے اور ایک مجلس شوری (قومی اسمبلی) قائم کرنے کی ضرورت کو اسلام اور تشیع کی مذہبی اصولوں کی رو سے ثابت کیا ہے۔
نامور ایرانی سکالر “حمید عنایت” نے اس کتاب کو آئینی جمہوریت کی تحریک کا ایک اہم منشور قرار دیا ہے۔ حمید عنایت لکھتے ہیں “یہ واحد منظم اور جامع کتاب ہے جو اُس دور میں ایک مذہبی عالم نے پارلیمانی جمہوریت کے حق میں لکھی تھی”۔

سابق ایرانی صدر سید محمد خاتمی کہتے ہیں ” یہ کتاب ایران میں سول سوسائٹی کا پہلا جامع منشور ہے جس کو آیت اللہ نائینی نے پیش کیا”۔

علامہ میرزا نائینی نہ صرف آمریت دشمن تھے بلکہ سامراج دشمن بھی تھے۔ پہلی جنگ عظیم(1914ءتا 1919ء) کے دوران جب عراق پہ برطانیہ کا قبضہ ہوا تو آپ نے برطانیہ کے خلاف جہاد کا فتویٰ  دینے میں میرزا تقی شیرازی اور آیت اللہ مہدی خالصی کا ساتھ دیا اور اس جہاد میں پیش پیش رہے۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے عراق میں نمائشی الیکشن کا اعلان کیا، جس میں کسی انگریز حاکم کو چنا جانا تھا۔ علامہ میرزا نائینی، شیخ مہدی خالصی، آیت اللہ تقی شیرازی اور دیگر مجتہدین نے ان انتخابات کو حرام قرار دے دیا۔ ان کے فتویٰ  کا اثر اس قدرشدید تھا کہ الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا۔
لیکن برطانوی حکومت اپنی مرضی کا حاکم عراق پر مسلط رکھنا چاہتی تھی۔ اس لئے اس نے ایک معاہدے کے تحت شریف حسین (حجاز کے سابق گورنر) کے بیٹے “ملک فیصل” کو عراق پر مسلط کردیا۔ چونکہ ملک فیصل کو برطانیہ نے عراق کی شاہی کا تاج پہنایا تھا۔ اس لئے اس نے ہمیشہ برطانوی مفادات کو مقدم رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا ۔

ملک فیصل کی پالیسیوں کے خلاف سامراج دشمن عالِم “علامہ مہدی خالصی” نے ملک فیصل کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور بغداد میں بادشاہ کے خلاف ایک بڑے احتجاجی جلوس کی قیادت کی۔ ملک فیصل نے آیت اللہ مہدی خالصی کو پہلے بصرہ اور بعد ازاں جدہ (سعودی عرب) جلاوطن کردیا۔ مشہور یہ ہے کہ اس جلاوطنی کے خلاف اور ملک فیصل کی پالیسیوں کے خلاف میرزا نائینی اور علامہ ابوالحسن اصفہانی نے احتجاجاً جلاوطنی اختیار کی اور اپنے آبائی وطن ایران واپس آگئے۔ لیکن عبدالہادی حائری صاحب نے “تشیع و مشروطیت” میں لکھا ہے کہ ملک فیصل نے ان کو جلاوطن کیا تھا۔ یعنی یہ جلاوطنی اختیاری نہیں تھی۔

تاہم جب علامہ میرزا نائینی ایران تشریف لائے تو ایران کے مختلف شہروں میں آپ کا شاندار استقبال ہوا۔ تقریباً ایک سال تک آپ ایران میں مقیم رہے۔ اس کے بعد ملک فیصل نے عوام اور مذہبی علماء کے دباو سے مجبور ہوکر میرزا نائینی اور ابوالحسن اصفہانی سے معذرت کی اور ان سے عراق واپسی کا مطالبہ کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: اس آرٹیکل کی تیاری میں درج ذیل عربی اور فارسی کتب سے مدد لی گئی ہے:
1: تنبیه الامة و تنزیه الملة، از علامہ شیخ میرزا حسین نائینی۔
2؛۔ اعیان الشیعہ، از شیخ محسن امین عاملی، جلد 6(حالات میرزا نائینی)۔
3؛۔ تشیع و مشروطیت، از عبدالہادی حائری۔
4؛۔ تفکر نوین سیاسی، از حمید عنایت۔
5؛۔ نہضت ہائی  اسلامی در صد سالہ اخیر، از علامہ مرتضی مطہری۔
6؛۔ خدمات متقابل اسلام و ایران، از علامہ مرتضی مطہری۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”علامہ نائینی کی حیات و خدمات(تمہید)/تحریر;اعجاز نقوی

  1. زبردست انتخاب زبردست تحریر خداوند متعال آپ کو اور اسی معلوماتی مضامین لکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Leave a Reply