گڑیا سازی کی صنعت ، ایک تہذیبی مظاہر۔۔منصور ندیم

ہم میں سے کون ہوگا جس نے بچپن میں کھلونوں کی خواہش نہ کی ہوگی، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بچپن میں اتنے ہمہ اقسام کے کھلونے نہیں تھے، مجھے تو ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ اندازہ ہوا کہ کھلونے بھی ایک کارپوریٹ انڈسٹری بن گئی ہے بلکہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ آج کے کھلونے، صرف کھلونے نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب اور ثقافت کا مظہر بن گئے ہیں۔ آج کا کھلونا ایک مسلسل لوازمات کا ہی تقاضا نہیں کرتا ہے، بلکہ ایک کھلونا پوری تہذیبی اقدار کا تقاضا کررہا ہے ۔

پہلے عام اشیاء کی موافقت سے کھلونے بنتے تھے، پھر وقت کی تبدیلیوں نے اسے کمرشلائز بنیادوں پر طے کرنا شروع کردیا۔ پہلے عام سی گڑیا ملتی تھی ، پھر کوئی آج سے 61 برس قبل پہلی بار 9 مارچ سنہء 1959میں نیویارک میں منعقد ہونے والے ایک ٹوائے فیئر (کھلونوں کے میلے) میں ایک گڑیا “باربی ڈول” ( Barbie Doll) متعارف کرائی گئی تھی، تب سے یہ گڑیا نہ صرف دنیا بھر کی پسندیدہ گڑیا بن گئی بلکہ متنازعہ ترین گڑیا بھی ہے۔ باربی ڈول کی شکل میں جس طرح نوجوان لڑکیوں کو پہلی بار گڑیا کا روپ دیا گیا اس پر دنیا میں بہت لے دے بھی ہوئی اور اب تک ہو رہی ہے۔ تاہم باربی ڈول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی دنیا میں ہر ایک منٹ میں 100باربی ڈولز فروخت ہو رہی ہیں۔ ان کی سالانہ فروخت اوسطاً 5 کروڑ 80 لاکھ سے زائد ہے۔ تب سے آج تک یہ دنیا بھرکی لڑکیوں کی اولین پسند ہے۔

باربی ڈول بنانے والی کمپنی میٹل انکارپوریٹ نے اپنی اس شہرہ آفاق پراڈکٹ کو اپنے قیام سے اب تک تقریبا 200 سے زائد کرداروں میں مارکیٹ میں پیش کیا ہے، جن میں سرجن سے لے کر ویڈیو گیم ڈیویلپر شامل ہیں۔ باربی کو ماضی میں اس کی جسمانی ساخت اور کپڑوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا کہ یہ ایک مخصوص ہئیت کی خواتین کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے بعد باربی نے مختلف طرح کی ڈولز متعارف کرائیں ، جن میں افریقی ، ایشیائی، حجاب پہننے والی باربی ڈولز سے لے کر سائنسداں ڈولز بھی شامل ہیں۔ آج باربی صرف ایک گڑیا نہیں ہے بلکہ اس کا ایک پورا تخیلاتی خاندان ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک شہر بھی جہاں وہ رہتی ہے ، اس گڑیا پر ناول بھی لکھے گئے ہیں اور گانے بھی بنائے گئے ہیں۔

باربی ڈولز پوری دنیا میں جہاں جہاں گئی، وہاں اپنے تہذیبی مظاہر بھی ساتھ لے کر گئی، بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس تہذیبی مظاہر کے خلاف بات تو کی جاتی ہے، مگر عملا ہم نے اس تہذیبی مظاہر کا رد نہیں کیا، ہم نے خود اپنی تہذیب اور ثقافت کے مطابق اپنے بچوں کے لئے کھلونوں کو پروموٹ نہیں کیا۔

کویت کی غدیر الشیرازی:

اس وقت گڑیوں کی صنعت میں عرب ملک سے تعلق رکھنے والی کویتی خاتون “غدیر الشیرازی” نے اپنے مخصوص تہذیبی مظاہر کی بنیاد پر گڑیا پیش کی ہے اور ان کی شہرت عرب ممالک سے نکل کر یورپ، امریکہ اور ایشیائی ممالک تک پہنچ گئی ہے۔ غدیر الشیرازی کی بنائی ہوئی گڑیاں دیکھنے میں اصل معلوم ہوتی ہیں۔ پچھلے سال دبئی میں منعقدہ عرب ممالک کی خواتین صنعت کاروں کی نمائش میں غدیر الشیرازی کو اس مخصوص فن سازی میں تیسری پوزیشن ملی ہے۔ غدیر الشیرازی نے سات برس قبل اس فن کا باقاعدہ آغاز کیا تھا، ان کی پہلی گڑیا کی نمائش پانچ برس قبل برطانیہ میں ایک نمائش میں ہوئی۔ برطانیہ میں گڑیا کو غیر معمولی طور پر پسند کیا گیا۔ اس کے بعد مزید گڑیاں بنانا شروع کر دیں۔

غدیر الشیرازی کو ابتدا میں ایک گڑیا بنانے میں ایک ماہ کا عرصہ لگتا تھا مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فن میں اتنی ماہر ہو چکی ہیں کہ ایک گڑیا یا گڈا 48 گھنٹے میں بنا لیتی ہیں ۔گڑیا کے وزن اور نومولود کی مخصوص بو کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ نو مولود بچوں کی جلد اور چہرے کے رنگ کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ موم اور دیگر مواد سے تیار کی جانے والی گڑیوں کی جزئیات کے حوالے سے باریک سے باریک امور کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ ہاتھوں کی لیکروں سے لیکر پاؤں کے تلوں پر ابھرنے والی لکیروں اور ناخنوں تک کو نمایاں انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ دیکھنے والے کو حقیقی بچے کا گمان ہو۔ گڑیوں کے بال بھی ایک ایک کرکے لگائے جاتے ہیں کیونکہ نومولود کے بال کہیں ہوتے ہیں، کہیں نہیں۔ اسی حساب سے بال لگائے جاتے ہیں تاکہ حقیقت کا گمان ہو۔

یہ کسی عرب ملک سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو قدرتی صلاحیتوں کی مالک ہیں جس کا اندازہ ان کے فن کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ غدیر الشیرازی کا اپنا گڑیا بنانے کا ورکشاپ ہے۔ غدیر الشیرازی فنکارہ ہونے کے ساتھ ایک فلاحی کارکن بھی ہیں۔ نرم دل کی مالکہ غدیر الشیرازی پسماندہ افریقی ممالک میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی کافی کام کرتی رہتی ہیں۔ کئی افریقی ممالک میں انہوں نے سکول تعمیر کروائے اور ضرورت مندوں کے لیے گھر بھی بنوائے۔

سعودی عرب کی ام عبداللہ:

اس کے علاوہ گزشتہ چند دہائیوں کے بعد سعودی عرب میں بھی فنون لطیفہ پر خصوصی توجہ دی ہے، اس امر میں سعودی عرب میں بھی بچوں اور بچیوں کو اپنے اس قدیم خوبصورت ورثے سے جوڑنے کے لیے گڑیوں کی شادی کا رواج زندہ کیا جارہا ہے۔جنوبی سعودی عرب کے صوبے جازان میں گڑیوں کو ہو بہو دلہنوں کی طرح سجایا جاتا اور گڈوں سے ان کی شادی کی جاتی تھی- طویل عرصے بعد اس رواج کا احیا کردیا گیا ہے۔

 

سعودی عرب کے صوبہ جازان کی عائشہ عبداللہ جو ’ام عبداللہ ‘ کے نام سے معروف ہیں اپنی دکان کے گوشے میں گڑیوں کا سیکشن قائم کیا ہے- یہ گڑیاں معروف تاریخی ملبوسات اور زرق برق لباس سے آراستہ ہیں- مملکت کے ساحلی علاقوں تہامہ کے کوہستانی مقامات کے لوگ گڑیوں کے کھیل کے لیے مشہور مانے جاتے ہیں۔ ان مقامات پر گڑیاں بنانے اور انہیں زرق برق لباس پہنا کر نمائش میں رکھنے کا رواج رہا ہے۔

 

ام عبداللّہ نے اپنے بچپن کے شوق کو جو گڑیا بنانے اور اسے دلہن کے لباس پہنانے کا شوق رہا تھا، آج اسے اپنا پروفیشن بنا لیا ہے وہ ہر عمر کے ہر حصے میں مختلف سائز اور رنگ و شکل کی گڑیا بنارہی ہیں ، ام عبداللہ جازان کے تاریخی گاؤں کے گھریلو مصنوعات تیار کرنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں، اور انہیں اپنی تہذیب کے قدیم طرز کے زنانہ ملبوسات بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ اپنی بنائی گئی گڑیا کو جازانی لباس پہنانا ان کی اپنی تخلیق ہے۔

جازان میں رخصتی کے وقت دلہن کو جو جوڑا پہنایا جاتا ہے اسے “المیل” کہا جاتا ہے- یہی جوڑا تیار کرکے وہ گڑیا دلہن کو پہناتی ہیں۔ ام عبداللہ اپنی گڑیوں کو موتیوں کے گجرے سے بھی سجاتی ہیں۔ قدیم مقامی عوامی ملبوسات کے حوالے سے جازان صوبہ پورے سعودی عرب میں اپنی ایک خاص شہرت رکھتا ہے۔ اہل جازان نے عصری ملبوسات اختیار کرنے کے باوجود قدیم ملبوسات کو ترک نہیں کیا- ان کے یہاں آج بھی تیز رنگ والے زرق برق ملبوسات پہنے اور پسند کیے جاتے ہیں۔ ام عبداللہ نے گڑیا سازی کے اس فن کو اپنی تہذیبی مظاہر کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا ہے جس کی مقبولیت پورے سعودی عرب میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : پاکستان کی وہ خواتین جو آپ نے اپنے گھروں سے سے کچھ کام کرنا چاہیں وہ بھی فن سازی سے ایسے کھلونے جو ہمارے تہذیبی مظاہر کا نشان ہوں انہیں پروموٹ کرنے کے علاوہ سے اپنی آمدنی کا ذریعہ بھی بنا سکتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply