پروردگارِ عالم نے اپنے پاک حبیب پر جب پہلی وحی کا نزول فرمایا تو کہا کہ”اقراء” ،پڑھیے اپنے رب کے نام سے کہ جس نے آپ کی تخلیق فرمائی، کائنات میں علم اور تعلیم وہ افضل ترین عمل ہیں کہ جن کا موازنہ اور مقابلہ کسی دوسرے عمل سے ممکن ہی نہیں ہے، انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ علمیت کی بنیاد پر بخشا گیا اور بے شک یہ علم ہی ہے جو انسان کو احترام آدمیت کے سانچے میں ڈھال کر اسے اچھے بُرے، صحیح غلط کی تمیز سکھاتا ہے، اور واقعتاً انسان کو انسان بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے
دنیا کے تمام مذاہب میں علم کو بہت عظیم مرتبہ حاصل ہے مگر دین اسلام نے تو اسے مومن کی میراث کہا گیا ہے اور بار بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ پڑھے لکھے اور اَن پڑھ کبھی برابری پر نہیں آسکتے، وطن ِ عزیز پاکستان ترقی پذیر ملک ہے، پاکستان کو روزِ اول سے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا ہے، پاکستان وسائل کی کمی کا شکار تو غیر منصفانہ تقسیم ہند سے ہو گیا تھا، مگر پھر بھی وقت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حد تک ترقی کے حصول کا سفر سست روی کے ساتھ ہی سہی مگر چلتا رہا۔
حتیٰ کہ 1998 میں پاکستان ایٹمی قوت بھی بن گیا، پاکستان میں آج بھی بہت سے بنیادی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں، بنیادی صحت، تعلیم، روزگار، مہنگائی، کمزور معیشت، انتظامی امور میں ناقص منصوبہ بندی، افسر شاہی کا انگریز دور کا چھوڑا ہوا نظام،لیکن شعبہ تعلیم کے حالات تو ناگفتہ بہ ہیں، انتخابات سے قبل عوام کو بہترین صحت و تعلیم کی فراہمی کے خواب دکھائے جاتے ہیں مگر طاقت کے حصول کے بعد ترجیحات کا رخ ذاتی مفادات کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
مگر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شعبہ تعلیم ہر دور کے حکمرانوں کے لیے تجربہ گاہ بنا رہا، اس کے باوجود بھی پاکستان دنیا میں نائجیریا کے بعد دوسرا ملک ہے کہ جہاں قابل داخلہ بچے جو ابھی تک سکول نہیں داخل نہیں ہوئے، سوا دو کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ کیا یہ پوری قوم اور ارباب ِ اختیار کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟بنیادی تعلیم قوم کے بچوں کے لیے پہلی سیڑھی ہوتی ہے،۔
ایک اندازے کے مطابق پہلی جماعت میں اگر 50 بچے داخل ہوتے ہیں تو دسویں جماعت تک مشکل سے 8 بچے پہنچ پاتے ہیں، اور اس کا اثر ثانوی اور اعلیٰ تعلیم تک جاتا ہے، پاکستان کو ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے تعلیمی معیار کی بہتری پر بہت محنت کرنی پڑے گی کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں حالات کوئی خاص اچھے نہیں ہیں، دنیا کی 1000 بہترین یونیورسٹیز میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی کا نام نہیں آتا، ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی بہتات ہے مگر اس ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ماسٹرز کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم کا حصول زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ کرتے ہیں مگر پچھلے چند سالوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی فیسوں میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے، عام آدمی کو تو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اکثر لوگ بہت ساری مشکلات میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں، مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ رویہ ان کے ریسرچ سپروائزر کا ہوتا ہے، وہ اپنے شاگردوں کا بدترین استحصال کرتے ہیں، کئی کئی ماہ تو ان کو وقت ہی نہیں دیتے، اور اگر بادلِ نخواستہ وقت دے بھی دیں، تو بے جااعتراضات لگا کر ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، اساتذہ کی جانب سے اس تکلیف دہ رویے کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ جاتے ہیں۔
دیگر ممالک میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا دورانیہ 4 سال تک کا ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں آٹھ آٹھ سال لگ جاتے ہیں مگر ڈگریاں اٹکی رہتی ہیں، HEC کو ہنگامی بنیادوں پر اعلیٰ تعلیم کے آسان حصول کے لیے کوئی بہتر جامع اور قابل عمل نظام وضع کرنا چاہیے تاکہ اعلیٰ تعلیم کے متلاشی طلباء و طالبات کا استحصال ہونے سے بچایا جاسکے، پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے سب سے زیادہ استحصال کا شکار جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے عوام ہیں، جنوبی پنجاب میں کل 3 یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سہولت موجود ہے جو کہ 11 اضلاع کے نوجوانوں کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، پاکستان کی ترقی کا راز بہتر اور معیاری تعلیم میں پنہاں ہے، اربابِ اختیار کو چاہیے کہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کریں، اور بجائے نت نئے تجربات کرنے کے موجودہ نظام میں بہتری لائی جائے، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بنیادی سہولیات کو مؤثر طریقے سے پہنچایا جائے۔
سب سے بڑھ کر اعلیٰ تعلیم کے حصول کو عام آدمی کی دسترس میں لایا جائے،HEC کی جانب سے پسماندہ علاقوں میں آباد لوگوں کے لیے فری ہائیر ایجوکیشن (ایم فل اور پی ایچ ڈی) کا کوٹہ ہونا چاہیے جس میں عمر کی حد اور دیگر قابل عمل رعایتیں دی جانی چاہئیں ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں مزید یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ ان علاقوں کی محرومیوں کا ازالہ ہوپائے، اور یہاں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں