• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دھاندلی، دھاندلی ،دھاندلی ۔۔۔۔۔سید عارف مصطفٰی

دھاندلی، دھاندلی ،دھاندلی ۔۔۔۔۔سید عارف مصطفٰی

اس الیکشن کے نتیجے میں اہم ترین سوال جو ابھرا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کب بڑے ہونگے کیونکہ ان الیکشنز میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانے کے باوجود انکی جانب سے دھاندلی کا سیاپا ہماری اجتماعی بصیرت کو مسخ کرکے پیش کررہا ہے ۔۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان الیکشنوں میں کچھ بے ضابطگیاں بھی ہوئی ہیں لیکن انکی مقدار اتنی زیادہ ہرگز نہیں کہ قوم کے فیصلے کو ہی بدل کے رکھ دے ۔۔۔ بالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں 1977 کی پی این اے کی جانب سے بھٹو کی انتخابی دھاندلیوں کے بعد جو تحریک چلائی گئی تھی اسکا نقد نقصان یہ ہوا تھا کہ جنرل ضیاء نے اسکی پیدا کردہ افراتفری اور ہنگامے سے فائدہ اٹھا کے اقتدار پہ قبضہ کرلیا تھا اور بہت بعد میں پی این اے کے جنرل سیکریٹری پرو فیسر عبدالغفور اپنے کئی انٹرویوز میں یہ اعتراف کرتے سنے گئے تھے کے دھاندلی کی چند شکایات کے باوجود درحقیقت بھٹو ہی فتحیاب ہورہا تھا ۔۔۔ لیکن اس سے قوم کو کیا فائدہ ملا ۔۔؟

بعد میں اس قسم کے فراخدلانہ اعترافات اس بدقسمت جمہوری نظام کے لیے ایک ستم ظریفانہ مذاق سے یادہ کچھ بھی نہ تھے کیونکہ اس کا خمیازہ تادیر ہمارے جمہوری نظام کو بھگتنا پڑگیا تھا اور اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ۔۔۔ خدا کا شکر یہ ہے کہ نون لیگ نے اس معاملے میں ذرا فراست اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اور پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے ، باقی رہی پیپلز پارٹی تو اسے اس فیصلے تک اس کا اندرونی خوف لے آیا ہے کہ شاید اس “تعاون” کے باعث پی ٹی آئی حکومت اسے کچھ ریلف دیدے اور اسکی کرپشن کے  خلاف پی ٹی آئی کا جوش احتساب کچھ ٹھنڈا پڑجائے کیونکہ اب اگلی باری اسی کی ہے اور اس حشر سے بچنے کے لیے  پی پی پی کے پاس دوسرا کوئی آپشن بھی نہیں ہے اور بھان متی کے کنبے کی تمامتر کوششوں کو حکومت بنانے سے روکنے کی راہ میں آزاد امیدوار بڑی رکاوٹ بنے صاف نظر آتے ہیں کہ جن کا ہمیشہ فطری رجحان اکثریتی پارٹی کی جانب ہی ہوا کرتا ہے۔

یہاں یہ عرض کرنا بھی بیجا نہیں کہ ان الیکشنز کے نتیجے میں گو کہ  تحریک انصاف کوخاطرخواہ کامیابی ملی ہے لیکن قابل ذکر بات یہ بھی ہے کے نواز شریف کا بیانیہ یکسر مسترد نہیں ہوا کیونکہ وہ جن انتہائی مساعد حالات سے دوچار چلے آ رہے تھے اس تناظر میں انکی 63 سیٹوں کا وزن درحقیقت 263 کے برابر ہے ۔۔۔ لیکن اس بات پہ ہم بعد میں آتے ہیں اور پہلے اسی غیرمعمولی پن کے نکتے کو ہم مزید آگے بڑھاتے ہیں کہ اس پہلو سے بتانے کو بہت کچھ ہے مثلاً یہ کہ لچکتی کمر والے کمانڈو اب مسلسل ٹھمکے لگانے کے لیے  پوری طرح فارغ ہیں کیونکہ ان انتخابات میں انکی آل پاکستان مسلم لیگ کا صفایا ہوگیا ہے اور یوں یہ قبل از ولادت سیاسی موت کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔۔ ورنہ انکے آن لائن خطابات سے تو خود انہی کے دیئے تاثر کے مطابق ایسا لگتا تھا کہ جیسےموصوف ہی ملک کے وہ مسیحا ہیں کہ جنکی راہیں  تمام  قوم بڑی بیتابی سے تک رہی ہے ۔

یہ بات بھی بہت قابل ذکر رہی کہ کراچی کے سیاسی تالاب میں بڑی اتھل پتھل مچانے والی نومولود ڈولفن پہلے ہی بڑے غوطے میں ڈوب گئی اور اب کسی ستم ظریف کے ٹوئیٹر کے مطابق پاک سرزمین پارٹی نے کراچی سے 13 سیٹیں حاصل کرلی ہیں لیکن وہ ‘فلائی دبئی’ کی ہیں – مصطفیٰ کمال کو ایک نہیں کئی وجوہ سے یہاں کے بسنے والے اردو اسپیکنگ لوگوں کی حمیات میسر نہیں آسکی جن میں پہلی بڑی وجہ تو متحدہ کا وہ سب  سے نمایاں کریمنل کچرہ اپنی پارٹی میں جمع کرلینے اور انکی معافی پہ اصرار کرنے کا اقدام تھا کہ  جسکے باعث ایم کیوایم نےبہت شدید بدنامی سمیٹی اور یوں دہشتگردی ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے عاجزآچکے اہل کراچی کے لیے  انہیں مارک کرکے الگ پھینک دینا بہت آسان ہوگیا تھا ۔۔۔ دوسرے مہاجر کے نعرے کو دفن کردینے کے عزم پہ مبنی انکے پرجوش خطابات نے بھی ان لوگوں کو بہت بیزار کیا جو کہ  اب اسے ایک مجبوری کا سودا سمجھتے ہیں لیکن انکے خیال میں یہ سودا اب قابل واپسی نہیں رہا ۔۔۔ یا کم از کم اس وقت تو اسی کے ساتھ چلنے میں ہی کچھ وزن اور سیاسی حیثیت برقرار رکھنا ممکن ہے۔

2018 ہی کے الیکشن میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی نوزائیدہ پارٹی کی بھی وہی حالت تھی کہ بقول کسی شاعر ” آکے بیٹھے بھی نہ تھے کہ  نکالے بھی گئے”۔۔ بیشک غفلت کے ایک لمحے کی سزا بھی بہت طویل ہوجاتی ہے ۔۔ کیونکہ اگرانکا انصاف کا ترازو اپنے بیٹے کی کرپشن کے بوجھ اور اسے بچانے کی بھاگ دوڑ سے نہ ٹوٹ جاتا تو  اسی کے ایک پلڑے میں ملک کی سیاسی قیادت جمع ہوجاتی تب بھی دوسرے پلڑے میں وہ اکیلے ہی بھاری رہتے کیونکہ اس سے ذرا قبل تک وہ اپنے تابڑ توڑ انقلابی انصاف کے سبب عوام کی اکثریت کے آئیڈیل بن چکے تھے۔۔۔ لیکن آزمائش کی اک پھونک پڑتے ہی انکا انصافی بلبلہ آن کی آن  میں ہی پھٹ گیا جس نے سبھی کو بہت ششدر اور انتہائی مایوس کردیا۔۔۔ اور اب انہی افتخار چوہدری کو اس الیکشن نے   بالکل ہی بے چارہ و بے چہرہ کرکے رکھ دیا ہے اور وہ جن کے ساتھ ایک خلقت چلتی تھی اب اکیلے پھر رہے ہیں یوسف بے کارواں ہو کر۔۔۔

رہے جسٹس وجیہ الدین تو وہ پی ٹی آئی کے الیکشن ٹریبونل کے سربراہ کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد اپنا ایک الگ سیاسی کنواں کھود چکے ہیں جس کی تہوں میں ہنوز پانی کے ایک قطرے کی موجودگی کا سراغ بھی نہیں مل سکا۔۔۔۔ اور ویسے بھی یہ عام، لوگ اتحاد پارٹی نامی کنواں کھدنے کے دوران کتنی ہی بار انکے ہاتھ سے کدال چھیننے کی متعدد سازشیں بھی انکے اپنے ساتھیوں ہی نے کی ہیں ۔۔۔ ا  ب  اس پارٹی میں نہ لیڈر ہیں اور نہ ہی کارکن ۔۔۔ لے دے کے بس ایک ہی قابل ذکر شخصیت بس جسٹس صاحب ہی کی رہ گئی ہے، اور اسی برس کے لگ بھگ عمر میں وہی شمع بھی خود ہیں اور پروانہ بھی ۔

جہا  ں تک معاملہ ہے متحدہ مجلس عمل کا ۔۔۔۔ تو سب سے زیادہ برا اثر بھی اسی پہ ہوا ہے کیونکہ 25 جولائی کو آئے سونامی نے اسے خوش فہمیوں کے کوہ مراد سے اتار کے بدترین ناکامی کے نامراد پاتال میں پھینک دیا ہے اور اب اسکے دونوں یاجوج و ماجوج بری طرح بوکھلا کے ‘ دھاندلی دھاندلی ‘ کا شور مچاکے نئے سرے سے الیکشن کرانے کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن انکی قابل رحم ذہنی حالت کی وجہ سے عوام اور اہل فکر و نظر دونوں ہی صدمے کا مارجن دیئے جارہے ہیں ۔۔۔ بلا شبہ یہ اتحاد جماعت اسلامی کے لیے  ڈیتھ وارنٹ ثابت ہوا ہے کہ جس کے لیے  یہ نتائج اس قدر شرمناک ہیں کہ اسکا اب ایک وفاقی جماعت کا رتبہ ہی داؤ پہ لگ گیا ہے اور یہ درحقیقت اس بات کی سزا ہے کہ سراج الحق ۔نے قاضی حسین احمد کے اس عبرت آموز سبق کو کیوں فرموش کردیا جو انہوں نے ماضی میں ایم ایم اے کا حصہ بننے کی بدنامی سے حاصل کیا تھا کہ جس میں انہیں مولانا فضل الرحمان کی مکاریوں اور قلابازیوں کی خوب سمجھ آگئی تھی کہ  جن کے تحت مولانا نے مشرف کے اقتدار کو برقرار رکھنے کی خاطر مکرو فریب کے شرمناک ریکارڈ قائم کیے  تھے اور جزاء میں دیگر مفادات کے ساتھ ساتھ6 ہزار کینال فوجی اراضی کوڑیوں کے مول لیز پہ حاصل کرلی تھی اور اس بار تو ایک اور گھناؤنی واردات انکے کھاتے میں درج تھی جس کے مطابق انکی جماعت کے ایک سرکردہ رہنما و سینیٹر عبدالغفور حیدری نے گزشتہ برس یہ جھوٹا تردیدی بیان جاری کردیا تھا کہ جسکی رو سے انہوں نے گزشتہ برس الیکشن بل میں ترامیم کے موقع پہ آگے بڑھ چڑھ کے تحفظ ختم نبوت کے حلف نامے کو بدل دینے کی  حکومتی سازش کا دفاع یہ کہہ  کر کیا تھا کہ ‘ اپوزیشن جھوٹ بول رہی ہےاور حکومت نے اس بل میں کوئی بھی ایسی قابل اعتراض تبدیلی نہیں کی ہے ۔۔۔

لیکن اسکے دو تین دن بعد ہی  سب حقیقت سامنے آگئی تھی کہ حکومت نے اس معاملے میں بہت گھناؤنی سازش کرکے اس بل کو قادیانیوں کو بطور مسلمان انتخابی عمل میں گھسیڑنے کا رستہ کھولنے کی بھیانک واردات کی تھی اسی طرز عمل کا نتیجہ تھا کہ تحریک لبیک کوآگے آکر اپنا تاریخی کردر ادا کرنے کا موقع ملا اور وہ حقیقی طور پہ تحفظ ختم نبؤت کے بڑے محافظ کا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی اور حکومت کو گھٹنوں کے بل جھک کر اسکی سفارشات کو تسلیم کرنا پڑا اور پھر عوام نے اسکے اسی جرات مندانہ کردار پہ اس الیکشن میں 22 لاکھ ووٹوں سے نواز دیا کہ  جس سے نون لیگ کو 13 اور پی ٹی آئی میں 6 جگہوں پہ اپنی نشستوں کے جیتنے کا مسئلہ پیدا ہوگیا اور اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ عوام نے منافقت کی سیاست کو یکسر مسترد کردیا ہے اور وہ ایسے منافق  دینداروں پہ ایسے لوگوں کو ترجیح دینے پہ مجبور ہوگئے کہ جو ویسے تو جانے مانے متقی نہیں ہیں لیکن شان رسالت کے معاملے کو اپنی سیاسی اغراض کا ایندھن بھی نہیں سمجھتے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ایک کھلا اور واضح پیغام ہے تمام گندم  نما جو فروشوں کے لیے  اور دین کو مال تجارت سمجھ کے سات دہائیوں سے اپنی دکان سجانے والوں کے لیے ۔۔۔ دھاندلی دھاندلی کا واویلا ترک کرکے اب اس پیغام کو دین کے یہ بیوپاری جتنی جلد سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے ورنہ یہ ہوگا کہ ” تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply