چند جٹکی آلاتِ ضروریہ (2)-کبیر خان

پہلی قسط کا لنک

 ۳۔ موہلا

گھریلو آلاتِ کشاورزی میں’موہلا‘نام کا ایک بد لحاظ آلہ بھی نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ یہ آلہ اُکھلی میں دئیے سر اور اناج کو کوُٹ کر برابر کردیتا ہے۔ چنانچہ چھوٹے بڑے سب ہی اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے اُردوُ کے اُستاد مولینا علی شیرخان مرحوم ہمیں دیکھ کر ہمیشہ کفِ افسوس ملا کرتے تھےکہ ’’کاش تمہارے بجائے جننے والی موہلہ جن لیتی تو کم ازکم دھبلہ باٹ بنانے کے لئے دانے تو کوُٹ پاتی‘‘۔ (اس کا قلق اب جا کرہمیں بھی ہوا ہے) ۔ اہلِ زبان اسی قلق کو موسل کہتے ہیں ۔۔۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

لیکن جو بات موہلے میں ہے، وہ موسل میں کہاں ۔ موسل زیادہ سے زیادہ لِسّا ماڑا سا’’کِلّا‘‘ یا کھونٹا لگتا ہے ۔ جب کہ موہلا ’’مونگلے‘‘ کا دادا سجھائی دیتا ہے۔ آپ نے کبھی پارے ڈھاکے والی ’’چائی‘‘ کا ’’بوگریاڑ‘‘ قریب سے دیکھا ہے؟ اگر ہاں تو یوں سمجھ لیں آپ نے موہلے کا دیدار کر لیا ہے۔ خدا ہونی کہیں ،آپ اُسے کِس منہ سے پِدّی کہیں گے؟۔ ہمارے ہاں موہلا صرف اُکھلی میں دیئے سر چھڑنے کے کام ہی نہیں آتا ، ژالہ باری اور انگریزی میں’’کُتّوں اور بِلیوں کی برسات‘‘کو روکنے کے کام بھی آتا ہے۔ آج کل سندھ میں آسمان سے کُتے بلیاں برس رہے ہیں ،لیکن پورے قصبے میں ایک چھوٹا سا موہلا بھی دستیاب نہیں ۔ ہم برفوں کے پالے ہوئے ہیں ،بیگم کا مومی دوپٹہ اوڑھ کر لتیڑنے کے لئے ننگے پیر اپنی ذاتی چھت پرگئے۔ ہمیں کیا خبر کہ پڑوسیوں کے بھی چوُا لگا پڑا ہے۔ ترس کھا کر اپنی چھت سے پڑوسیوں کوخدمات پیش کیں تو صاحبہ خانہ زبانِ غیر سے جو بولیں اُس کا مطلب یہی تھا کہ

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو

جی میں آئی کہ اگلی بار جب بھی راولاکوٹ جانا ہوا ، اپنے سخیئے سے اچھا سائیدار سا موہلہ ضرور گھڑوا لائیں گے۔اور پھر جب بھی ایسی برسات ہوئی، تاک کر اپنی چھت پرمولہ وگائیں گے، اپنی چھت پر کُرسی بچھا مزے سے پرائی چھتوں کو ٹپکتا دیکھیں گے۔ موہلے کا ایک اور سائنسی فائدہ یہ بھی ہے کہ ایمرجنسی میں آدھی رات کو بندہ دوڑ کر چھت پر جائے اور موہلے سے ہولے سے سیڑھی یا پانی کے پائپ کو کھڑکائے تو حالات جھٹ معمول پرآجاتے ہیں (کبھی کبھارچائے کی پیالی بھی آ جاتی ہے)۔

اللہ بخشے ترِنگل چاچا بڑے بیبے بندے تھے۔ لیکن اُن کی پیش بندیاں دیکھنے لائق ہوتی تھیں ۔ مثلاً کل بخیر و خوبی شب برات گُذری ہے تو وہ آج ہی آئیندہ کے لئے مشعلوں کی ’’دھنیاں‘‘ہی نہیں ، ڈالے بھی گھڑ کررکھ چھوڑیں گے۔ ’’کہالی کمائی‘‘ کا موسم سات ماہ بعد شروع ہو گا،اُن کا ہل جوتا آج ہی تیار ملے گا۔ اِدھر سوُکھا پڑا ہے ، خلقت پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے۔ بارش کی دعائیں مانگی جا رہی ہیں ، استسقا ٗ کی نمازیں ادا کی جا رہی ہیں ، بستیوں سے باہر جنگلوں میں جا چادریں بچھائی جا رہی ہیں ۔ اُدھر چاچا ترِنگل وہیڑے میں ’’رُہڑا وگانا‘‘کافی نہیں جانتے،اُسے ’’لہنے‘‘والے پاسے رکھنا ’’لہا یروری‘‘سمجھتے ہیں۔۔۔۔ ’’رُہڑا اس رخ پر نہ ہو تو اللہ قہرمان ہوتا ہے ۔ پھر برسات کے ساتھ انیاری(اندھکاری؟) بھی جھُلتی ہے۔ چڑکیں کڑکتی ہیں ، بدلیاں پھڑکتی ہیں ۔ مُٹھ مُٹھ گولے پڑتے ہیں ،پھول پتّے اور میوے جھڑتے ہیں ۔ فیر ہیٹھ کی مٹّٗی اُپّرہوتی ہے۔ اِسّے مارے ،جد وی رُوہڑا وہیڑے میں وگاہیں ،اُس کا قبلہ کعبہ سچّے سُچّے رُخ بٹھائیں ‘‘۔

۴۔ دراٹولہ

صاحبو! عید کے چاند سمان ایک اور انتہائی مفید آلہ جسے ’’دراٹولہ‘‘ کہتے ہیں ، اپنا گھاس اور پڑوسیوں کی ہری شاخیں کاٹنے کے کام آتا ہے۔ اس کے علاوہ زچہ کے سرہانے رکھا ہو تو بلائیں جفائیں زچہ و بچّہ کے قریب نہیں پھٹکتیں۔ دراٹولہ درانتی کا لاڈلا پوُت ہوتا ہے ، چنانچہ ہمہ وقت دندانِ آزار تیز رکھتا ہے۔ ایک پریکٹیکل ٹپ گانٹھ میں باندھ رکھیں،کہ حالیہ موسم میں اگر آپ نے کسی کے کچّے’’آرواڑے‘‘ یا سیب چھیل کر کھانا ہیں تو دراٹولے کو ہمہ وقت اپنی دسترس میں یعنی اپنے کالر سے پُشت پر لٹکائے رکھیں ۔ باقی آپ خود سیانے ہیں ۔

۵۔ سِکلی

یہ سوکھی اور سخت لکڑی سے بنایا گیا وہ گیجٹ ہے جو چھلیوں کو چھیل کرالف ننگا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ کچّی پنسل کی صورت ہوتا ہے۔ چنانچہ اسکول کے علاوہ کھیت کھلیان میں بھی ’’جھونکو ٹُمّی‘‘(نوک جھونک؟) کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ سِکلی یا سیخلی ہمیں ’’سیخ‘‘ کی تصغیرو تانیث لگتی ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ آپ کو بھی وہی لگے جو ہمیں لگتا پھبتا ہے۔ ہم ویسے بھی صلح کُل مزاج رکھتے ہیں ،چنانچہ نوکدار اشیاٗ سے پنگے نہیں لیتے۔ بزرگوں نے بھی یہی فرمایا ہے کہ سِکلی سمیت ہر وہ شے جو کُھُب چُبھ سکتی ہو،اس سے پنگا نہیں لینا چاہیئے۔ باقی مرضی آپ کی۔

۶۔ ترنگلی

ہماری نئی پِیڑھی نے تو کِھیڑا بِنڈا بھی نہیں دیکھا ہو گا ۔۔۔ بچاری پنگھوڑے سے نکل سوزوکی میں بستوں اور فلاسکوں کے ساتھ لٹک کر، ٹاٹوں والے مدرسے کی بجائے کُرسیوں ، بینچوں اور ڈسکوں والی نرسرسیوں میں جا بیٹھی۔ اپنی دھول مٹّی سے واقفیت ہی پیدا نہیں ہوئی۔ اُنہیں کیا خبر کہ جس فورک سے روٹی کی جگہ بریڈ بِین بِین کر کھاتے ہیں ،وہ گوروں اور انگلش میڈیم نرسریوں کی ایجاد نہیں، ہماری ترنگلی کی نقل ہے۔ ترنگلی رشتے میں سہ اُنگلے / ’’سلاہنگے‘‘ کی ماں لگتی ہے۔ سلاہنگا جب پیدا ہوتا ہے تو ٹھیک ٹھاک یعنی’’بندے دا پُتر‘‘ ہوتا ہے۔ جب کھیلنے کودنے یعنی شیطانیاں کرنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو اپنی بے کرتوتیوں کی وجہ سے ا ایک یا کبھی کبھی دواُنگلیاں کٹوا بیٹھتا ہے۔ اور یوں ’’ہیک انگلا‘‘ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ہانی ثانی اُس بوڑے کو سہ اُنگلا یعنی سلاہنگا کہتے رہتے ہیں ۔ (ہمارے گھر میں جو جدّی پشُتی سلاہنگا ہے، اُس کےدو دانت کبھی کے جھڑ چکے ہیں ، تیسرا تنے تک گھِسا پڑا ہے۔ پھر بھی آباٗ کی سنت پوری کرنے کے لئے کبھی کبھار بھوسہ پُننے(چھاننے) کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) ۔ دبستانی فارسی میں اسی فورک یا کانٹے کو ’’سہ اُنگلی‘‘اور ہماری مادری بولی میں ترنگلی کہتے ہیں ۔ اب چونکہ ہمارے ہاں کھیتی باڑی کا رواج رہا نہ بھوسہ پلالی کا چلن، اس لئے ترنگلی کو ہوا کے رُخ پرافواہیں اُڑانے اور سکھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ ترنگلی آج بھی اتہائی کارآمد گیجٹ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

******

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply