اگر عید نہ ہوتی۔۔مرزا یاسین بیگ

عید کے دن ہم ان سے بھی گلے ملتے ہیں،جن سے سال بھر گِلے ملتے ہیں۔ عید نئے کپڑے پہننے اور نئی جگہ جاکر نماز پڑھنے کا نام ہے۔ اس دن وہ بھی نماز پڑھتے ہیں جو بقیہ 364 دن صرف اذان سنتے ہیں۔ عید روزےدار کیلئے ہوتی ہےاور مفت میں بےروزےداروں کے بھی گلے لگ جاتی ہے۔ عید سے پہلے چاند پر اور عید کے دن جوتوں اور چپلوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے ، نوجوان اس میں لڑکیوں کا بھی اضافہ کرلیتےہیں۔

عید کی نماز کے دوران سر پر ٹوپی اور اطراف میں مسلح پہرا نہ ہو تو دل بےچین سا رہتا ہے۔ عید کے دن پیسہ بھی پانی کی طرح بہتا ہے۔ نہاتے ہی اپنے اور غیروں کے بچے یکساں آواز میں عیدی مانگتے ہیں۔ عیدی بانٹتےاور گلےملتےملتےشام تک آدمی چڑچڑا ہوکر چیف جسٹس جیسا لگنے لگتا ہے۔ عید کا دن واحد دن ہوتا ہےجب بیویاں بلاسبب نہاتی اور اچھےکپڑےپہن کر اچھے اچھےکھانےپکاتی ہیں۔

عید کے دن گھر میں اپنے بچےکم اور غیروں کے بچے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔اس دن بڑوں کو بچوں پر نہیں بلکہ بچوں کو ہر بڑے پر پیار آتا ہےجو عیدی دینے پر ہی ختم ہوتاہے۔

درزی ہر عید کا اہم ستون ہوتا ہے۔ آپ کا عید کا جوڑابتادیتاہےکہ آپ کا درزی آپ سے کتنی محبت کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا عیدبازار عید کارڈوں سے بھرے رہتےتھے، اب ان کی جگہ بھتہ خوروں نے لےلی ہے۔ بھتہ خور اور روزہ خور میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک غنڈوں کا دوسراشیطان کا چیلا ہوتاہے۔ بہت سے اسے فرق نہیں مانتے۔ روزہ خور چھپ کر کھاتا ہے اور بھتہ خور علی الاعلان۔

عید کے دن جو لفظ سب سے زیادہ بولا جاتا ہے وہ ہے ’عیدمبارک‘۔اس دو لفظ کی خاطر انسان مقروض ہونا بھی قبول کرلیتاہے۔ عید میٹھی ہو تو جانور شکراداکرتے ہیں۔ عید کے دن سویاں اتنی کھائی جاتی ہیں جتنی کہ  سارا سال چینی نوڈلز کھاتےہیں۔

عید کیلئے چاند کا نظرآنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کیلئے سرکاری رجسٹرڈ مولانا وہی طریقہ اختیار کرتے ہیں جو چھتوں پر بالغان کا روزانہ کا معمول ہوتاہے۔

عید کی شاپنگ ہر مرد کا امتحان ہوتی ہے۔ کھلے ہاتھ،کھلےگریبان اور کھلے منہہ والی بیویاں عید شاپنگ کیلئے ممنوعہ آئیٹم ہوتی ہیں۔ ان کی ذراسی بدپرہیزی سے شوہروں کی حلال کمائی منٹوں میں ’بازاریوں‘ کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ عید کے منہہ سے چوٹ کھائے بغیر نکل آنا ہر مرد کی قسمت میں نہیں ہوتا۔
عید وہ خوشی ہے جو تنخواہ لٹاکر ہی ملتی ہے۔

عید کی تین چھٹیاں ہوتی ہیں جو عیدی دےدےکر انسان اپنے ہاتھوں خود برباد کرلیتا ہے۔ عید کا اصلی مزہ بچے،لڑکے اور لڑکیاں اٹھاتی ہیں۔ شادی شدہ عید کے دن چپکے چپکے اپنی ناکام محبت کو یاد کرتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ محبت میں کامیاب نہیں ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر عید نہ ہوتی تو نئے کپڑے اور جوتے خریدنے کا کوئی بہانہ نہ ہوتا۔ شکر ہے عید سالانہ ہوتی ہے،اگر ششماہی یا سہ ماہی ہوتی تو ہمیں چاند دیکھنے والے مولوی کو سال میں دو یا چار بار دیکھنا پڑتا۔ پھر عید خوشی نہیں سزا کہلاتی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply