• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا صرف سعودی عرب میں بہترین نظام انصاف کا انحصار تیل کی دریافت ہے؟-تحریر/منصور ندیم

کیا صرف سعودی عرب میں بہترین نظام انصاف کا انحصار تیل کی دریافت ہے؟-تحریر/منصور ندیم

کل سعودی عرب میں جرائم کی کمی پر ایک پوسٹ لکھی تو اکثریت نے جرائم کی کمی یا معاشی ترقی کو صرف سعودی عرب کے تیل کی دریافت سے جوڑ دیا، بلاشبہ تیل کی دریافت سے پہلے سعودی عرب دولت مند ملک نہیں تھا۔ درحقیقت اس کی آبادی آج بھی کم ہے اور ماضی میں بھی انتہائی کم ہی تھی، سعودی عرب ریاست بننے کے بعد بھی بہت معمولی سالانہ بجٹ رکھتا تھا، سعودی عرب کے بجٹ کا زیادہ تر انحصار کھجور اور دوسری کاشتکاری کے کھیتوں اور باغات پر تھا، اس کے علاوہ ساحلی شہروں میں تجارت، ماہی گیری، اور سمندر سے موتیوں کی تلاش اور مقامی ہنر مندیوں اور دستکاری پر کام کرنے والوں کی بدولت تھا، اس کے علاوہ کسی درجہ مقدس مقامات پر پوری دنیا کے مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے بھی کچھ بجٹ کو سہارا ملتا تھا۔ لیکن عمومی طور پر قبائلی زندگی کے علاوہ بھی مقامی شہروں میں لوگ کچے مکانوں میں ہی خاندانوں کے ساتھ رہتے تھے۔

تاہم یہ ضرور ہوا کہ جب سنہء 1938 میں تیل دریافت ہوا تو سعودی عرب نے دولت اور معیار زندگی میں زبردست ترقی کی۔ لیکن نظام قانون اور مقامی طور پر مساوات و اقدار پہلے کی طرح ہی رہی جو آج تک قائم ہیں، بنیادی طور پر پچھلی پوسٹ اسی ضمن میں لکھی تھی، جس پر یہ اعتراض آیا کہ وہاں اگر تیل نہ دریافت ہوتا تو قانون انصاف ایسے قائم نہیں رہتا، بہرحال آج یہ عالم ہے کہ سعودی عرب دنیا کی 21 ویں سب سے بڑی خوشحال قوموں کی درجہ بندی میں شامل ہوچکا ہے، اور جی 20 ممالک کا رکن ہے، جو دنیا کی 20 مضبوط ترین معیشتوں کا گروپ ہے۔ پچھلے برس سعودی عرب نے جی 20 ممالک کی پوری دنیا میں نمائندگی بھی کی تھی۔ اس وقت خلیجی ممالک میں سب سے بڑی مضبوط حیثیت کے علاوہ پوری دنیا میں غریب ممالک کو سب سے زیادہ امداد دینے والے، اقوام متحدہ کے ہر دنیاوی ترقی کی معاونت میں ترقی پذیر ممالک کی ہر شعبے میں سب سے زیادہ امداد سعودی عرب کرتا ہے، داخلی انتظامی و سماجی نظام و قوانین پر تو میں بات کرتا ہی رہتا ہوں .
مگر اس پوسٹ کا مقصود ان کے لئے ہے ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف تیل نکلنے سے ہی سعودی عرب خوشحال ہوا ہے؟

صرف تیل کسی ملک کو امیر نہیں بنا سکتا۔ تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک کی فہرست دیکھ لیں وہ یا تو برباد ہو چکے ہیں یا ناکام ریاستیں بن گئی ہیں، یا کسی درجہ جدوجہد میں ہی ہیں، جیسے لیبیا، عراق، ایران اور وینزویلا جیسی ریاستیں جو آج بھی معاشی طور جدوجہد کرنے والی معیشتوں میں سے ہیں۔ صرف تیل کی دریافت اہم نہیں تھی، بلکہ تیل کے وسائل کو بہترین طرز حکمرانی، بہترین تعلیم اور سماجی اتحاد کی ضرورت ہے، یہ سب سعودی عرب کامیابی سے حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ورنہ افریقی ممالک میں نائیجیریا تیل پیدا کرنے والے ملک کے طور پر ایک بہترین ملک تھا مگر وہاں بہترین گورننس کی ضرورت بھی تھی، نائجیریا کے پاس گیس، تیل اور کوئلہ ہے، اس سے کہیں بڑے ملک برطانیہ کے مقابلے میں اتنی ہی مقدار میں اس کے پاس یہ وسائل ہیں ہے۔ لیکن اچھی حکمرانی نہیں تھی، جبکہ اس کے مقابل روس، آسٹریلیا، سعودی عرب اور قطر جیسے ملک قدرتی وسائل میں تیر رہے ہیں۔ کسی ملک کے لیے دستیاب قدرتی وسائل کی مقدار اس کی معیشت کے استحکام یا بہتری کو ظاہر نہیں کرتے، بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے دستیاب کم وسائل کو کس طرح منظم کرتے ہیں۔ دراصل وسائل کو اپنے فائدے کے لیے منظم کرنے کی صلاحیت ہی استحکام اور خوشحالی کی کلید ہے۔

وینزویلا کی مثال لے لیں جہاں تیل کے بڑے ذخائر اور معدنیات سے مالا مال ملک تھا، لیکن افسوس کہ کوئی حکومت قابل ذکر نہیں رہی۔ ٹرینیڈاڈ وینزویلا سے دور ایک چھوٹا جزیرہ ہے جو سونے کی کان پر بیٹھا ہے، صرف چند دہائیاں پہلے تک ان کی معاشی حالت دبئی کے برابر تھی۔ لیکن وہاں کی ناقص گورننس اور بدعنوانی نے انہیں معاشی طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن اس کے مقابل آج دبئی کو دیکھ لیں وہاں کیسی ترقی ہے، یہ بھی سچ ہے کہ بیرونی طاقتوں نے افریقی ممالک کا فائدہ اٹھایا، یہ بھی سچ ہے کہ عراق و لیبیا کو امریکا نے برباد کردیا، مگر ایک وجہ تو بہت ظاہری سی ہے کہ یہ ممالک اچھی طرح سے حکومت نہیں کر رہے تھے اور سماجی طور پر عوام کے ساتھ جڑے ہوئے نہیں تھے۔ یقین کرلیں کوئی بھی غیر ملکی طاقت کسی ایسے ملک کو تباہ نہیں کر سکتی جو اچھی طرح سے حکومت کرتا ہو اور سماجی طور پر اپنی عوام کے ساتھ سماجی معاملات میں متحد ہو۔ سعودیوں کی مثال بھی ان میں سے ایک ہے جنہوں نے دولت کو اپنے قبیلوں میں، شہریوں میں یکساں طور پر تقسیم کرنے کا، ان کی مراعات کا شہریوں کی زندگی کے معاملات کو حل کرنے کا بہترین انتظامی اسٹرکچر وضع کیا۔ ویسے بھی آج بھی سعودیوں، قطریوں اور اماراتیوں کا صحرائی طرز زندگی کا پس منظر ہے، جسے پچھلی نسل کبھی نہیں بھولی، جہاں پر وسائل کی تقسیم کی روایت تھی تاکہ قبائلی اختلافات کے باوجود سب زندہ رہیں۔ شیخ زید ہوں یا سعودی حکمران ہر سال ذاتی طور پر اپنے قبیلوں سے ملنے جاتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ تیل کی دریافت کو ایک بہترین حکمرانی، بہترین تعلیم اور سماجی اتحاد کی ضرورت ہے، سعودی عرب نے ماضی کے اور حال کے دشمنوں کو کم کرنا سیکھ لیا ہے، اس کی بہترین مثال ماضی کے دشمن ملک ایران سے حالیہ مفاہمت ہے، یہ سب سعودی عرب کامیابی سے حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے، اور سعودی عرب یہاں نہیں رکا بلکہ سیاحت، مقامی پروڈکشن، کاشتکاری کے نئے وسائل کے جہاں آباد کرچکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : یہ سعودی عرب میں تیل نکلنے سے پہلے دارلحکومت ریاض کی گلیوں کا منظر ہوتا تھا، جس وقت کم ازکم پاکستان کے بڑے شہر کراچی میں ٹرام چلتی تھی۔ کیا صرف تیل کی وجہ سے وہاں ایک نہ رکنے والی حیرت انگیز اور انقلابی ترقی ہوتی رہی اور ہم تنزلی کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply