پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات ایک لمبی چوڑی اور دلچسپ تاریخ رکھتے ہیں۔بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات زیادہ تر کشیدگی کا شکار رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ بھارت کی منافقت پر مبنی پالیسیاں ہیں۔بھارتی سفارتکار اور دیگر حکام اکثر آپ کو اس بات کی گردان کرتے نظر آئیں گے کہ ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں مگر بھارتی حکومت کے اقدامات سے کبھی ایسا نہیں لگا وہ پاکستان کے ساتھ پر امن تعلقات کے خواہاں ہوں۔
گزشتہ دنوں بھی بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے لاہور میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے دورے کے دوران چیمبر کے اعلیٰ عہدیداران اور ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک گفتگو کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو ماضی کا بوجھ اتار کر باہمی تعلقات کو از سرِ نو تجارت و معیشت کے اصولوں پر استوار کرنا چاہیے ، جو لڑائی جھگڑوں سے پاک ہوں، ہم میڈیکل اور تجارتی ویزے فوری فراہم کرنے کے عمل کو بہتر بنا رہے ہیں اور کرکٹ کے متعلق بھی گفتگو کی ، کہا کہ حالات سازگار ہوتے ہی کرکٹ پھر بحال ہو جائے گی۔دونوں ممالک کو ٹرانزٹ اور روابط کو بہتر کرنا چاہیے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے پر زور دیا ۔اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اچھے تعلقات ہونے چاہییں کیونکہ ان دونوں ممالک کے درمیان چپقلش اور کشیدگی کے شکار تعلقات کا فائدہ بیرونی قوتیں مسلسل اٹھا رہی ہیں جس سے خطے کا امن متاثر ہو رہا ہے۔لیکن بھارت یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے، اس معاملے کی وجوہات اور پسِ منظر ایک علیحدہ موضوع ہے۔بھارت پاکستان کے ساتھ ساتھ منافقانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ بھارتی سفارتکار آپ کو کچھ اور کہتے نظر آئیں گے جبکہ دہلی سرکار اور بھارتی فوج اس کے برعکس ہی کسی پالیسی پر نظر آئیں گے، 1947 سے لے کر آج تک ایسی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔
اگرانتہاء پسند مودی حکومت اور بھارتی فوج کی پالیسی دیکھیں تو اس میں دور دور تک دو طرفہ تعلقات کی کوئی سعی نظر نہیں آتی ہے۔بھارت مسلسل پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائے ہوئے ، ہمارے صبر کو آزما رہا ہے۔ اجے بساریہ صاحب نے جب بوجھ کو اتار کر تعلقات بڑھانے کی کوشش کی وہ شاید ان کے ضمیر کا بوجھ ہے کہ وہ کس طرح گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر پر قابض ہیں اور معصوموں پر بے جا ظلم کے پہار توڑ رہے ہیں، کہ وحشت اور درندگی کی ایسی داستانیں رقم کر رہے ہیں کہ چنگیز کی چنگیزیت بھی شرما جائے۔ دراصل یہ ان جرائم اور مظالم کا بوجھ ہے مگر ضد اور ڈھٹائی میں یہ اسے اتارنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ تادمِ تحریر، ابھی تک چوبیس گھنٹے مکمل نہیں ہوئے کہ 300 لوگوں کو شدید زخمی کر دیا گیا وہ ہسپتالوں میں پڑے ہیں اور 20 لوگوں کو شہید کر دیا گیا وہ ابدی نیند سو گئے ہیں۔ کشمیر پر تو بھارت کی دوغلی پالیسیوں سے دنیا بخوبی واقف ہے ۔ اس کے بعد لائن پر بھارت کا رویہ دیکھیے کہ کس طرح مسلسل بھارت پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کرتا آرہا ہے۔ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر(آئی ایس پی آر کے مطابق) “آر پی جی7 “، مارٹر گولے آٹومیٹک گرینیڈ لانچرز تک استعمال کیے ہیں۔اور اس کے بھارت سرجیکل سٹرائیکس کا دعویٰ بھی کر چکا ہے، اگرچہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں مگراس سے بھارت کی عزائم ضرور واضح ہو گئے ہیں۔
بھارت افغانستان میں بیٹھ پاکستان کے اندر مسلسل بغاوتوں کو ہوا دینے کی کوششیں کر رہا ہے، اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کے اندر امن کی صورتحال کو بگاڑا جائے۔تاکہ پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا جائے اور اس کی ایٹمی قوت کو غیر محفوظ قرار دلوا کر دنیا کے اندر اچھالا جائے۔اسی بھارت کی دوغلی پالیسی ملاحظہ کیجیے کہ ایک طرف تو بھارت سفارتی تعلقات کو بڑھانے، دو طرفہ تعاون اور کشیدگی کو کم کرنے کی بات کرتا ہے مگر دوستی جانب دیکھیے کہ ہندوستان میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر و دیگر سفارتی عملے کس طرح ہراساں کرکے غیرسفارتی رویے کا اظہار کیا ہے۔اندازہ کیجیے کہ 7 مارچ سے لے کر 23 مارچ تک 50 مرتبہ پاکستانی ہائی کمشنر اور ان کے بچوں کو ہرساں کرنے کی نیچ حرکت کی گئی ہے۔لیکن عین اس وقت جب بھارت یہ حرکتیں کر رہا تھا اجے بساریہ صاحب عزت و تکریم کے ساتھ بیٹھے23 مارچ کی تقریب سے محظوظ ہو رہے تھے۔ اس کے علاوہ بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے نا صرف وہاں کے مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے بلکہ پاکستان کے پانی کو بھی روک رہا ہے۔ اندرا گاندھی نہر کے ذریعے وہ پاکستان کا پانی موڑ کر اپنے راجستھان کو سیراب کر رہے ہیں ۔ وہ پاکستان کا پانی موڑ کر اپنے ریگستان کو نخلستان میں بدل رہیں جب پاکستان کی زمینوں کو بنجر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن پاکستان کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ پاکستان پھر بھی مسئلہ کشمیر کو مذاکرات اور اقوامِ متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی بنیاد پر حل کرنا چاہتا ہے۔یہ تمام باتیں بخوبی واضح کرتی ہیں کہ کون صحیح معنوں پر امن تعلقات کا حامی ہے اور اس خطے کے امن کے لیے مسلسل خطرہ بن کر کھڑا ہے۔اگر بھارت پاکستان کے ساتھ پرامن اور خوشگوار تعلقات کا حامی ہے تو بھارت کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کا احترام کرتے ہوئے کشمیر مظالم بند کرنا ہوں گے۔ لائن آف کنٹرول کے معاہدے کا احترام کرنا ہو گا۔ پاکستان کی سرزمین پر کلبھوشنں کو بھیجنا بند کرنا ہو گا۔ اگر نہیں تو ہمیں اجے بساریہ صاحب کے ان بھاشنوں کی ضرورت نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں