حکمتِ عملی کے اصول

کسی بھی ملک کے دستور اور آئین میں حکمتِ عملی کے اصول (principles of policy) وضع کیے جاتے ہیں جن کا مقصد آئین اور دستور بنانے والوں کے ذہن میں موجود اہداف (goals) اور مقاصد (objectives) کا حصول ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے دساتیر میں اِن اصولوں کو مختلف نام دیا گیا ہے، جیسا کہ آئینِ پاکستان میں انہیں “حکمتِ عملی کے اصول (principles of policy)” کا نام دیا گیا ہے۔ بھارت کے آئین میں انہیں “ہدایتی اصول (directive principles) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے دستور میں یہ “ریاستی حکمتِ عملی کے بنیادی اصول (fundamental principles of state policy)” کہلاتے ہیں جبکہ کچھ ممالک جیسا کہ فلپائن وغیرہ میں انہیں “ریاستی حکمتِ عملی اور اصول (principles and state policies)” کہا جاتا ہے۔ پرنسپلز آف پالیسی بنیادی طور پر کسی ریاست اور اس کے دستور کی سمت کا تعین کرتے ہیں اور ان اصولوں کی روشنی میں ریاست اور اس کے ادارے اپنی ترجیحات طے کرتے ہیں۔ 1973 کے آئین کے حصہ دوئم (part 2) کے دوسرے باب (chapter) میں آرٹیکل 29 سے 40 تک یہ اصول وضع کیے گئے ہیں۔
آرٹیکل 29 اور 30 میں ان اصولوں کا تعارف دیا گیا ہے جس کے مطابق ریاست، ریاستی ادارے اور ان اداروں کی جانب سے کارہائے منصبی ادا کرنے والے اشحاص کو ان اصولوں پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور وفاق کی سطح پر صدرِمملکت اور صوبوں کی سطح پر متعلقہ گورنرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر سال قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان اصولوں پر عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں گے۔ نیز یہ کہ اگر ریاست اور ریاستی اداروں کا کوئی فعل (act) یا قانون ان اصولوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 31 کے مطابق ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات اور سہولتیں مہیا کرے گی جس سے مسلمانانِ پاکستان انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے قابل ہو سکیں اور اس ضمن میں مملکت قرآنِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دے گی، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی اور قرآنِ پاک کی طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرے گی۔ اسلامی اخلاقی معیارات کو فروغ اور زکوٰۃ، عشر اور مساجد کا نظام قائم کرے گی۔
آرٹیکل 32 کے مطابق مملکت بلدیاتی ادارے قائم کرے گی اور ان اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین کو خصوصی نمائندگی دے گی۔ آرٹیکل 33 کے مطابق ریاست شہریوں کی درمیان علاقائی، نسلی، قبائلی، فرقہ وارانہ اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی کی ذمہ دار ہو گی۔
آرٹیکل 34 ریاست کو قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کیلیے اقدامات کرنے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ آرٹیکل 35 کے مطابق مملکت شادی، خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کی ذمہ دار ہو گی۔
آرٹیکل 36 ریاست کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے ساتھ سرکاری ملازمتوں میں ان کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنائے گی۔
آرٹیکل 37 کے مطابق ریاست پسماندہ علاقوں اور طبقات کے تعلیمی اور معاشی مفادات پر خصوصی توجہ دے گی۔ نیز کم سے کم مدت میں ناخواندگی (illiteracy) کا خاتمہ اور میٹرک تک مفت تعلیم کا انتظام کرے گی۔ فنی (technical) اور پیشہ وارانہ (professional) تعلیم کا حصول ممکن اور اعلیٰ تعلیم کو میرٹ پر ہر شہری کی دسترس میں لائے گی۔ سستے اور آسان انصاف کو یقینی بنائے گی۔ اس بات کی ضمانت دے گی کہ عورتوں اور بچوں سے صرف ان پیشوں میں کام لیا جائے گا جو ان کی عمر اور جنس کے لحاظ سے مناسب ہوں۔ مختلف علاقوں کے افراد کو مختلف طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر طرح کی قومی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ عصمت فروشی (prostitution)، قماربازی (gambling)، اور مضرِ صحت ادویات کے استعمال اور فحش (obscene) لٹریچر کے فروغ اور اشاعت کو روکے گی۔ شراب اور دیگر نشہ آور مشروبات کا استعمال روکے گی۔
آرٹیکل 38 کے مطابق ریاست عام آدمی کے معیارِزندگی کو بلند کرنے کیلیے اقدامات کرے گی، اس ضمن میں دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گی اور دولت کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے روکے گی۔ تمام شہریوں کیلیے مناسب روزگار مہیا کرے گی۔ ملازمت کے اندر یا باہر شہریوں کے معاشرتی تحفظ فراہم کرے گی۔ ان تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد کرے گی جو بیماری، معذوری یا بےروزگاری کی وجہ سے کام سے محروم ہوں۔ لوگوں کی کمائی اور آمدنی کے فرق کو کم سے کم کرے گی۔ رباء کا جلدازجلد خاتمہ کرے گی۔
آرٹیکل 39 کے تحت ریاست پاکستان کے تمام علاقوں سے لوگوں کی مسلح افواج میں شرکت کو یقینی بنائے گی۔ اور آرٹیکل 40 کے تحت ریاست مسلم ممالک کے مابین تعلقات اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کو فروغ دے گی، تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرے گی اور بین الاقوامی تنازعات کو پُرامن طریقوں سے حل کروانے میں کردار ادا کرے گی۔
یہ تمام اصول ریاست اور ریاستی اداروں کیلیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ریاست یا تو اِن اصولوں پر عمل ہی نہیں کرتی اور اگر کرتی بھی ہے تو دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کے مصداق عمل کرتی ہے۔ مثلاً ریاست نے اسلامیات کی تعلیم کو لازمی تو قرار دے رکھا ہے لیکن نصاب میں شامل اسلامیات کی کتب کو پڑھ کر شاید ہی کوئی اسلام کو اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے کے قابل ہو سکتا ہو۔ اسی طرح ریاست بلدیاتی اداروں کو قائم کرنے کی ذمہ دار تو ہے لیکن ‘جمہوری’ حکومتیں اول تو بلدیاتی ادارے قائم کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتیں اور اگر سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت ایسا کرنے پر مجبور ہو بھی جائیں تو اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔ مفت تعلیم، روزگار اور فوری انصاف مہیا کرنا تو ریاست کی ترجیحات میں نظر ہی نہیں آتا۔ عورتوں اور بچوں کو معاشرتی تحفظ دینے میں بھی ریاست مکمل طور پر ناکام ہے۔ شراب کی فروخت پر ابھی حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے پابندی لگائی لیکن صوبائی حکومت اس پر عملدرآمد کے راستے میں حائل ہو گئی۔ سود کے خاتمے کیلیے مسلم لیگ کے پہلے یا دوسرے دورِحکومت میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک فیصلہ دیا جس کے خلاف جناب نوازشریف جو اُس وقت بھی وزیرِاعظم تھے، اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے اور وہ معاملہ برسوں سے کہیں فائلوں میں بند پڑا ہے۔ لیکن ان سارے اقدامات پر ریاست یا مجاز اداروں اور شخصیات کے خلاف عدالتی کاروائی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ ان سارے ‘سنہری’ اصولوں کو بیان کرنے سے قبل ہی آرٹیکل 30 میں یہ لکھ دیا گیا کہ کسی بھی اقدام یا قانون جو ان اصولوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس پر کوئی عدالتی کاروائی ہو سکتی ہے۔
میری نظر میں ان اصولوں کو ناقابلِ دادرسی (non justiciable) رکھنا مینوفیکچرنگ فالٹ ہے جس نے ریاست، ریاستی اداروں اور مجاز افراد کو خود آئین کے تحت یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ بیشک ان اصولوں کے مطابق ریاست کو نہ چلائیں۔ بنیادی طور پر وہ ان اصولوں پر عمل کرنے کے پابند ہی نہیں ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کسی نے گھر کے اندر مہنگی اور شاندار کراکری شوکیس میں سجا کر رکھی ہو لیکن وہ اس کو استعمال کرنے کا مجاز نہ ہو اور مٹی کے برتن ہی استعمال کرنے پر مجبور ہو۔ اربابِ اختیار اور ہنرمندانِ آئین و سیاست کو کوئی بتائے کہ یہ اصول بہت شاندار سہی لیکن ان کو چاٹنے سے عوام کا معیارِزندگی بلند نہیں ہو گا بلکہ اِن پر عملدرآمد سے لوگوں کی قسمتیں بدلیں گی۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply