کچھ ریاضی کے بارے میں /ڈاکٹر مختیار ملغانی

لامحدود پر سائنس بحث کرنے سے جہاں ایک طرف قاصر ہے وہیں دوسری جانب لامحدود کا انکار بھی اسے مشکل میں ڈال دیتا ہے، اگر اس کائنات میں  جو کچھ بھی ہے وہ محدود ہے اور لامحدود نامی کوئی چیز موجود نہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کائنات بطور وجود اپنی حدود رکھتی ہے، ایک مقام پر جا کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کائنات کی آخری حد ہے، تو یہاں منطقی سوال اٹھے گا کہ یہ حد محدود کائنات کو کس وجود سے جدا کر رہی ہے؟ یہ گورکھ دھندا کسی گول چکر کی مانند بحث کو اسی ابتدائی سرے پر لے آئے گا جہاں سے بحث شروع ہوئی تھی۔

سائنس کی تمام شاخیں لامحدود کی بحث سے کلی طور پر قاصر ہیں، کیونکہ لامحدود کی بحث کا دارومدار تخیل کی پرواز پر ہے نہ کہ مشاہدے اور تجربات پر، اس نکتۂ نظر سے ریاضی وہ واحد مضمون ہے جو لامحدود پر بحث کی اہلیت رکھتا ہے، ریاضی مشاہدے یا تجربے کی بجائے اعداد پر یقین رکھتی ہے اور اعداد اپنی ساخت میں لامحدود ہیں۔

جرمن ریاضی دان گلبرٹ کہتے ہیں کہ لامحدود کی دریافت سائنسی مضامین کی دلچسپی سے باہر کی بات ہے، ان کے مطابق انسانی تخیل کی بلند ترین پرواز لامحدود کی دریافت ہے اور ہونا چاہیے، ریاضی سے متعلقہ دریافتیں اپنی اصل میں کسی مادی فائدے سے اوپر کی چیزیں ہیں، یہ اعلی اذہان کیلئے ایسے ہی پرلطف و اطمینان بخش ہیں جیسے کوئی حقیقی مصور اپنی تخلیق کو تجارتی نکتۂ نظر سے بلند دیکھتا ہے، ریاضی دان جمع منفی اور برابر کی ترتیب و بے ترتیبی میں ذہنی سکون پاتا ہے، ایسے ماہرین فیثا غورث کی وراثت کے امین ہیں، تجربات، مشاہدے یا درست نتائج سے بلند ہوکر سوچنے والے یہ افراد بس اعداد کے عاشق ہوتے ہیں، چاہے یہ اعداد انہیں کوئی عملی فائدہ پہنچانے سے قاصر ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ بات عیاں تر ہوتی گئی اور ہوتی جا رہی ہے کہ ہر مادی وجود اپنی ساخت میں اعداد کی ترتیب و ترکیب کا پیراہن اوڑھے ہوئے ہے، اگر ریاضی کا مضمون ہر جزوی و سالم وجود پر اپنی موجودگی کا احساس نہ دلاتا تو ریاضی دان اس ملا یا پادری کی جگہ لے لیتا جو جنت یا جہنم کے حدود اربعہ و کلائیمیٹ بارے بتاتے رہتے ہیں، ریاضی ہی واحد مضمون ہے جس نے تاریخ میں فرد کو گاہے مزہبی اقدار سے بلند یقین پر قائل کیا، مذاہب کے ایقان و ایمان پر افراد شکوک پال سکتے ہیں لیکن ریاضی میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔

ایک کا ہندسہ اپنے جیسے دوسرے “ایک” جیسا ہی ہے، اسی لئے ایک جمع ایک دو ہوگا کہ ایک جیسے ہی دو ہندسے مل کو دوگنی مقدار دیتے ہیں، یہی معاملہ دو تین چار و دیگر ہندسوں کا ہے کہ ایک جیسے ہندسے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، لیکن ہندوستانی فرد کا دریافت کردہ ہندسہ، صفر، ہر لحاظ سے دوسرے ہندسوں سے جدا ہے، صفر کو صفر سےمنفی کرتے وقت یہ دوسرا صفر پہلے کے متضاد ہوتا ہے، اسی لئے نتیجہ صفر ہوگا، جبکہ صفر کو صفر کے ساتھ جمع کرتے وقت ان دو میں سے ایک صفر اپنے وجود کی نفی کرے گا تو ہی نتیجہ صفر آئے گا، اس صفر اور ایک کے درمیان پوری لامحدود کائنات ہے، صفر سے ایک تا کا سفر لامحدود کا سفر ہے، صفر سے آگے اعشاریہ کے بعد جتنے لامحدود ہندسے آپ ڈالتے جائیں، ڈال سکتے ہیں اور تمام عمر کی کوشش کے بعد بھی ایک کے ہندسے تک پہنچنا ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ کم ترین عددِ واقعی کا حصول انسان کیلئے ممکن نہیں، صفر کے علاوہ کسی بھی ہندسے کو آپ تقسیم در تقسیم کرتے جائیں لیکن صفر تک پہنچنا ممکن نہیں بلکہ صفر سے ایک درجہ بلند عددِ واقعی تک رسائی سعئ لاحاصل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صفر اور اس سے آگے کے کم ترین عدد میں وہی لامحدود حائل ہے جو بگ بینگ اور اس سے قبل کے لامحدود میں تھا ، محدود اور لامحدود کے درمیان کوئی پل موجود نہیں، آپ ایک ہی قدم کی مدد سے ایک سے دوسرے میں وارد ہوتے ہیں، بگ بینگ ایک ہی ساعت میں برپا ہوئی اور محدود و لامحدود کے درمیان لکیر کھینچ ڈالی، صفر اور اس سے آگے کے کم ترین ہندسہ اپنی اصل میں لامحدود کا سفر ہے لیکن یہ سفر ایک ہی ساعت کا ہے۔ بگ بینگ سے پہلے یہی صفر تھا جو بظاہر کچھ نہ ہو لیکن یہ سب کچھ تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply