قربانی:ایک تحقیقی مطالعہ (2)-انور مختار

مذہبی تاریخ کے مطابق روئے زمین پر قربانی تمام مذاہب میں عبادت اور شعائر کی حیثیت سے ہزاروں سالوں سے رائج ھے بارگاہ الہی میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے ہی چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے سورت المائدہ میں سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل و قابیل کا قصہ ذکر فرمایا ہے تمام مفسرین نے فرزندان آدم کی قربانی کی تفصیل لکھی ہے کہ دونوں نے اللہ تعالی کے حضور قربانی پیش کی ،ہابیل نے عمدہ دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار یعنی غلہ پیش کیا ۔اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آ کر قربانی کو کھا لیتی، چنانچہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھا کیا اور قابیل کی قربانی وہیں پڑھی رہ گئی،یوں وہ قبولیت سے محروم ہو گئی تفاسیر کے مطابق قربانی کی قبولیت کا آگ سے جلانے کا یہ طریقہ عہدبنی اسرائیل تک باقی رہا ہابیل کے قتل کے بعد حضرتِ سَیِّدُنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے شدید غضب ناک ہو کرقابیل کو اپنے دربار سے نکال دیا،تو وہ بدنصیب اِقْلِیْمَا کو ساتھ لے کر یمن کی سرزمین ’’عدن‘‘ میں چلا گیا۔ وہاں ابلیس لعین اس کے پاس آیااور کہاکہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھالیا کہ وہ آگ کی پوجا کیا کرتا تھا، لہٰذا تو بھی ایک مَندَر بناکر آگ کی پوجاشروع کردے ۔ چنانچہ،اس نے ایسا ہی کیا اوریہی وہ شخص ہے جس نے آگ کی سب سے پہلے پوجاشروع کی۔
( روح البیان، پ۶، المائدۃ تحت الایۃ:۲۷۔۳۰، ۲/۳۸۲)
جبکہ اِبن کثیر نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوایت نقل کی ہے کہ “ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا”
روایتی اسلام کے مولانا مجیب الرحمن انقلابی “عید الضحٰی اور قربانی “کے عنوان سے “روزنامہ نوائے وقت “میں اپنے ایک شائع شدہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ “جب آنحضرت مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ نیروز اور مہرجان کے نام سے خوشی کے دو تہوار مناتے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آپ سے پوچھا کہ کیا ہم ان تہواروں میں شرکت کریں؟ آپ نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عید الفطر کا دن ، دوسرا عیدالاضحی کا“۔عید الفطر اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک میں فرض روزوں کی تکمیل کر لیتے ہیں۔جبکہ فرض حج کی ادائیگی کا حصہ ہونے کے علاوہ عید الاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے۔حضور اکرم نے یہاں تک فرمایا کہ ”جو شخص استطاعت رکھنے (صاحبِ نصاب ہونے) کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ نہ آئے“ ۔آپ نے فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)۔
قربانی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں دیکھا وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔انہوں نے اپنے بیٹے سے اس خواب کا ذکر کیا اور رائے طلب کی؟ بیٹے نے جواب دیا!ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے اس پر عمل کر لیجئے آپ مجھے انشاءاللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورة صٰفٰت رکوع:3)
چناچہ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو مکہ مکرمہ سے لے کر چلے اور منیٰ پہنچے جہاں بیٹے کو قربان کرنے کی غرض سے حضرت ابراہیم ؑ نے اسے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ ابھی ذبح کرنے نہ پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ندا آئی۔ ”یا ابراہیم قد صدّقت الرو¿یا“ یعنی اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا حضرت اسماعیل ؑ کی بجائے قربانی کے لئے بھیجا جسے حضرت ابراہیم ؑ نے ذبح کر دیا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیمؑ کا یہ جذبہ قربانی اور عمل اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک ان کے اس عمل اور جذبہ کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کر دی گئی۔ حضور اکرم کا ارشادہے کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑکی سنت ہے۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی، انہوں نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (جن جانوروں کے بدن پر اون ہے اس) اون کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلہ میں بھی ایک نیکی ملے گی۔ (مشکوٰة)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فرمائی۔(مشکوٰة)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)
قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں گائے، بھینس، بیل، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ مذکر و مو¿نث، دنبہ ، دنبی ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی درست نہیں اگرچہ وہ کتنا ہی زیادہ قیمتی ہو اور کھانے میں بھی جس قدر مرغوب ہو لہٰذا ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی اس طرح دوسرے حلال جانور قربانی میں ذبح نہیں کئے جاسکتے۔
گائے، بیل، بھینس، بھینسہ کی عمر کم از کم دو سال اور اونٹ ، اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال اور باقی جانوروں کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر بھیڑ یا دنبہ سال بھر سے کم کا ہو لیکن موٹا تازہ اتنا ہو کہ سال بھر والے جانوروں میں چھوڑ دیا جائے تو فرق محسوس نہ ہو تو اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ چھ مہینے سے کم کا نہ ہوا۔
حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ حضور اقدس نے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے آنکھ، کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان چرا ہوا ہو یا جس کے کان میں سوراخ ہو(رواہ الترمذی) اور حضرت براءبن عازب ؓ کا بیان ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایا کہ (خصوصیت کے ساتھ) چار طرح کے جانوروں سے پرہیز کرو (۱) ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ (۲) ایسا کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ (۳) ایسا بیمار جانور جس کا مرض ظاہر ہو (۴) ایسا دُبلا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ (مو¿طا امام مالک، ترمذی، ابوداو¿د)
قربانی کا وقت بقرہ عید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارھویں تاریخ کی شام تک کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کرنے کا سب سے افضل دن بقرہ عید کا پہلا دن ہے پھر گیارھویں تاریخ پھر بارھویں تاریخ۔ بقرہ عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے نماز عید پڑھ چکیں تب قربانی کریں۔ البتہ اگر کوئی دیہات میں یا گاو¿ں میں ہو جہاں عید کی نماز واجب نہیں تو وہاں دسویں تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد قربانی کر دینا درست ہے۔دسویں سے بارھویں تک جب جی چاہے قربانی کرے چاہے دن میں چاہے رات میں لیکن رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں کہ شاید کوئی رگ نہ کٹے اور قربانی نہ ہو اگر خوب زیادہ روشنی ہوتو رات کو قربانی کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد ، مقیم ،مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰة فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت سے زائد سامان پڑا ہو۔ زکوٰة اور قربانی میں ایک فرق لازم ہے ،وہ یہ کہ زکوٰة کا ادا کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے جب صاحب ِنصاب پرچاند کے اعتبار سے بارہ مہینے یعنی سال گذر جائے اورقربانی واجب ہونے کے لئے قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گذرنا بھی ضروری نہیں ہے اگر کسی کے پاس ایک آدھ دن پہلے یا قربانی کے ان تین ایام میںہی ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔ فرضیت زکوٰة اور وجوب قربانی و صدقہ فطر کے بارے میں ہر ایک کی ملکیت علیحدہ علیحدہ دیکھی جائے گی اگر کسی گھر میں باپ بیٹے بہو اور بیٹوں کی ماں ہر ایک کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس پر قربانی واجب ہوتی ہے تو ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہوگی۔
قربانی کا مقصد گوشت کھانا ، دکھلاوا یا ریاءکاری نہیں بلکہ ایک شرعی حکم کی تعمیل اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہے ، تاکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے
جب کہ قربانی کے دوسرے غیر روایتی اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ابراہیم ساغر اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ قرآن میں قربانی کے بارے میں حکم۔ ارشاد ہوتا ہےکہ”وَاَذِّنْ فِى النَّاسِ بِالْحَـجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَـجٍّ عَمِيْقٍ (22:27)۔ لِّـيَشْهَدُوْا مَنَافِــعَ لَـهُـمْ وَيَذْكُرُوا اسْـمَ اللّـٰهِ فِىٓ اَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُـمْ مِّنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۖ فَكُلُوْا مِنْـهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِيْـرَ (22:28)۔
ترجمہ: اور اعلان کرو لوگوں میں حج کے لئے کہ آئیں لوگ پیدل چل کر اور دبلے پتلے اونٹوں پر دور دراز کے راستوں سے (22:27)۔ تاکہ مشاہدہ کریں وہ ان فوائد کا جو ان کے لئے ہیں اور نام لیں اللہ کا ایام معلومہ میں ان مویشیوں پر جو اللہ نے ان کو دیے ہیں، پس کھائیں اس میں سے خود بھی اور کھلائیں درماندہ فقیروں کو بھی (22:28)۔
پس قرآن پاک میں قربانی کرنے کا یہی ایک حکم ہے جو حج کے موقع پر حاجیوں کیلئے ہے اور یہ بہت ہی واضح حکم ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں اپنے اپنے گھروں پر قربانی کرنے کا حکم تو کجا ذکر تک بھی نہیں ہے۔ تاہم بعض لوگ روایات کی بنیاد پر کچھ آیات کو قربانی کے حکم میں داخل کرتے ہیں۔ آئیں دیکھیں بھلا ان کی حقیقت کیا ہے۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہےَ
—–وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْـمَ اللّـٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُـمْ مِّنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۗ فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَلَـهٝٓ اَسْلِمُوْا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ (22:34)۔
ترجمہ: اور ہر امت کیلئے مقرر کردیا ہم نے ایک دستور کہ نام لیں اللہ کا ان مویشیوں پر جو اللہ نے ان کو دیے ہیں سو تمہارا معبود ایک ہی ہے تو اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ اور خوشخبری ہے واسطے عاجزی کرنے والوں کے۔ دوسری آیت یہ ہے۔
—–قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(6:162)۔
ترجمہ: کہہ دیجیے کہ میری صلات اور میرا دستور اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کیلئے ہے جو پالنہار سب جہانوں کا۔
“منسک” اور”نسک” کا مطلب دستور یا طریقہ ہوتا ہے اور یہی ترجمہ یہاں اوپر دونوں آیات میں ان الفاظ کا کیا گیا ہے۔ لیکن روایت پرستوں نے ان آیات میں ان الفاظ کا ترجمہ قربانی کردیا جو صحیح نہیں ہے۔ عربی میں آج بھی یہ الفاظ طریقے یا دستور کیلئے استعمال ہوتے ہیں قربانی کیلئے نہیں۔ مثلا جب ہم مناسک حج بولتے ہیں تو اس کا مطلب حج کے طریقے ہوتا ہے ناکہ حج کی قربانیاں۔ اس مفہوم کا ثبوت خود قرآن میں بھی موجود ہے۔ فرمایا:
—–لِّكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُـمْ نَاسِكُـوْهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِى الْاَمْرِ ۚ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ۖ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْـمٍ (22:67)۔
ترجمہ: ہم نے ہر قوم کے لیے ایک دستور مقرر کر دیا ہے جس پر وہ چلتے ہیں، پھر انہیں تمہارے ساتھ اس معاملہ میں جھگڑنا نہ چاہیے، اور اپنے رب کی طرف بلا، بے شک تو البتہ سیدھے راستہ پر ہے۔
اب روایت پرست اس آیت میں “منسک” کا ترجمہ قربانی کرکے دکھائیں تو ہم گھر پر جانوروں کی قربانی کے وجوب کے قائل ہوجائیں گے۔ لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتے۔ پس “منسک” یا “نسک” کا ترجمہ قربانی کرنا بالکل نا درست ہے اور یہ قرآن کی تصریف آیات کے اصول سے ثابت ہے۔
روایت پرست قرآن سے قربانی کا وجوب ثابت کرنے کیلئے سورہ الکوثر کا سہارا بھی لیتے ہیں جو بمع ترجمہ یہاں پیش کی جارہی ہے۔
—–إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ(108:1)۔فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (108:2)۔ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَر(108:3)۔
ترجمہ: بیشک ہم نے عطا کیا ہے آپ کو خیر کثیر ( بہت سا مال)۔ سو (شکرانے کے طور پر) اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کر اور (اس مال میں سے) اونٹ ذبح کر کے (لوگوں کو کھلانے کا بندوبست کر)۔ جو تمہارے دشمن ہیں وہ تو ابتر (بے نام و نشان) ہی رہیں گے۔ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے خاصے مالدار شخص تھے۔ سو اس آیت میں اس مال میں سے لوگوں پر خرچ کرنے کیلئے کہا جارہا ہے اور اس ذمانے میں اونٹ ذبح کرکے لوگوں کو خاص طور پر غرباء و مساکین کو کھلانا مال خرچ کرنے کا ایک بڑا معروف طریقہ تھا۔ اس آیت کا ایک فرضی حوض کوثر اور قربانی سے کوئی تعلق بنتا ہی نہیں۔ صاف اور سیدھے سے لفظی معنوں سے تو یہی سمجھ آتا ہے۔ اب روایت پرستوں نے “نحر” کا ترجمہ قربانی کرکے اس سورہ کو بھی قربانی کے ساتھ جوڑ دیا۔ حالانکہ “نحر” کا مطلب اونٹ کا ذبح کرنا ہوتا ہے ناکہ قربانی ان روایت پرستوں نے گھروں پر جانوروں کی قربانی کے وجوب کو قرآن سے ثابت کرنے کیلئے قرآنی آیات کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ کر رکھے ہیں۔ صرف قربانی پر ہی منحصر نہیں انہوں نے تو ہر معاملے میں روایات کی بنیاد پر قرآنی آیات کے مطالب بگاڑے ہوئے ہیں اور اسلام جو ایک بہترین اور آسان دین تھا اس پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنادیا گیا۔ اس پر جب خود مسلمان عمل نہیں کرسکتے تو کس منہ سے وہ اسے غیر مسلموں کے آگے پیش کریں کہ یہ اسلام ہے تم اس پر ایمان لاؤ اور عمل کرو۔”
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply