مہنگی موت اور سستی دانش وری ! مردہ بدست زندہ/عامر عثمان عادل

اپنے وطن سے کوسوں دور بحر اوقیانوس کے سمندر کی بیکراں گہرائیوں میں باپ بیٹا ایک ایسے سفر پہ روانہ ہوئے جو کبھی ختم نہ ہونے والا تھا۔
19 سالہ نوجوان فادرز ڈے پر اپنے والد کی خواہش پر قربان ہو گیا اور والد اپنے تجسسس کے شوق میں مارا گیا۔
ان کا تعلق پاکستان کے ایک انتہائی متمول خاندان سے تھا پیسہ جن کے ہاتھ کی میل رہا ہے
سوشل میڈیا پہ ایک طوفان بپا ہے
فتوے ، فلسفے ، طعنے
کوئی خود کشی قرار دینے پہ تُلا ہے،کسی کو ان کی دولت سے مسئلہ ہے
اور اکثریت ان کا موازنہ کشتی میں ڈوبنے والے تارکین وطن سے کرنے لگی۔
ہم اس قدر انتہا پسند واقع ہوئے ہیں کہ انسانیت سے بھی گر چکے ہیں
کسی انسان کی موت بھی ہماری آنکھیں نم نہیں کرتی
یہ باپ بیٹا بھی انسان تھے اور پاکستانی، نہ بھی ہوتے کلمہ گو بھائی تو تھے۔
نو دولتیے تھے نہ دو نمبری سے مال جمع کر کے ہونے والے امیر
ملک کے صف اول کے کامیاب کاروباری ادارے فلاح انسانیت کے کئی منصوبے چلانے والے،جس سے  ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ رہا ،یہ پُر خطر مہم جوئی کا سفر تو یہ خالصتاً ان کا ذاتی مسئلہ تھا۔
ایک مہنگے ترین سفر کی استطاعت رکھتے تھے تو رخت سفر باندھا
تقدیر پہ ہمارا ایمان کیا سکھاتا ہے؟
لوح ازل پہ ان کی موت کا مقام گھڑی سب متعین تھا
کتاب لاریب کا اٹل فیصلہ
و ما تدری نفس بای ارض تموت
کسی ذی نفس کو یہ خبر تک نہیں ہوتی کہ کس جگہ اس کو موت آن لے گی۔
لکھ دیا گیا تھا کہ باپ بیٹا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ٹھیک اس دن اتنے بجے سمندر کے پانیوں میں جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیں گے
تو پھر کیسی دانش؟ کیسا فلسفہ ؟ کہاں کے فتوے؟
ہم اس قدر کٹھور اور پتھر دل واقع ہوئے ہیں کہ یونان کے ساحل پہ ڈوبنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا۔
انہیں بھی طعنے دیئے کہ یہ لینے کیا گئے تھے
جو فاقوں سے تنگ آ کر دولت کمانے نکلے وہ بھی ہم سیانوں کی نظر میں مجرم ٹھہرے ۔
جو اپنی ان گنت دولت کے بل بوتے پر ایک انوکھی مہم پہ نکلے وہ بھی ہم پاکبازوں کی نگاہ میں گنہگار۔
ہماری حالت تو اس گدھ کے جیسی ہے،جو کسی قریب المرگ شخص کے سرہانے بیٹھا اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب وہ آنکھیں موندھے اور یہ اس کو نوچنے کو لپکیں
ہم ایک ہی وقت میں مفتی بھی ہیں اور واعظ بھی
تجزیہ نگار بھی ہیں اور اہل دانش بھی
جنم جنم کی بھوک مٹانے کے لئے بحیرہ روم کی تندوتیز موجوں کی نذر ہونے والے ہوں
یا
دنیا کے مہنگے ترین سفر پہ روانہ ہو کر بحر اوقیانوس کے پانیوں میں رہتی دنیا تک ایک داستان کے کردار بن جانے والے باپ بیٹا
ہماری دعاؤں کے سزا وار ہیں
آئیں مل کر خدائے لم یزل سے یہ فریاد کریں کہ
اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے پیاروں کے زخموں پر صبر کا مرہم رکھ دے،آمین

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply