آج کا افسانہ نگار/اقتدار جاوید

شاعری میں بھرتی کا شعر نہیں چلتا مگر افسانہ نگار کا واسطہ ہی بھرتی سے پڑتا ہے۔افسانہ نگار کا اصل امتحان افسانے کے اس مواد سے ہے جو مضمون مافیہ کے گرد بُنا جاتا ہے۔افسانہ افسانہ نگار کے بھرتی کے خیالات سے بنتا ہے۔یہی اس کی خلاقیت کا امتحان ہے۔شعر کی طرح افسانے کا مرکزی خیال تو عین آمد کا ہی محتاج ہے مگر اسے مکمل افسانہ نگار ضمنی واقعات سے کرتا ہے۔
فرض کریں ایک افسانے میں دو کردار یونیورسٹی میں ملتے ہیں اب افسانہ نگار کے لیے لازم ہو گیا کہ وہ اس یونیورسٹی کے بارے میں یا اس کے توسط سے کہانی کو آگے بڑھائے یہیں افسانہ نگار کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔کہانی کے اسی بڑھاؤ سے افسانہ نگار کے مشاہدے کا پتہ چلتا ہے۔یہ سب زیب ِداستان ہوتا ہے اور بھرتی کا مال ہوتا ہے۔اسی بھرتی کے مال کو افسانے میں افسانے کا ضروری حصہ بنا کر پیش کرنا افسانہ نگار کا امتحان بھی ہے اور کمال بھی۔یہیں افسانہ نگار بنتا ہے اور یہیں اس کا سانس پھولتا ہے۔
” ادراک” گوجرانوالہ جو خالد فتح محمد کی ادارت میں شائع ہوتا ہے، اس کے تازہ شمارے میں تینتالیس افسانے شامل ہیں۔ افسانے کیا ہیں عمرو عیار کی زنبیل ہیں۔یہ سارے نوجوان افسانہ نویس نسبتا غیر معروف ہیں۔ میرا خیال ہے یہ سارے نوے کی دہائی میں پیدا ہوئے ہیں۔ان تینتالیس افسانوں میں سے ہم نے پہلے دس افسانے پورے خشوع و خضوع اور محبت سے پڑھے ہیں۔ان کی قرات کے دوران ہمارے ذہن میں انتظار حسین اور آصف فرخی جیسا کہیں تعصب نہیں تھا۔ہم نے اسے کسی علاقے کی عینک لگا کر نہیں پڑھا۔اسے اردو افسانہ سمجھ کر پڑھا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ مدیر نے بھی کسی تعصب کے بغیر ان افسانوں کو سپرد اشاعت کیا ہے۔آج کا افسانہ نگار کسی پرانے، کسی بڑے اور کسی چھوٹے معروف افسانہ نگار کے اثر سے قطعا بے نیاز ہے۔یہ افسانہ نگار اپنی شناخت اپنے حرف و بیان سے بنانے پر قادر ہیں۔یہاں کہیں منٹو بیدی بلونت سنگھ جوگندر پال نہیں۔کہیں رشید امجد نہیں کہیں سمیع آہوجہ نہیں۔اپنا بیان ہے اپنا میدان ہے اور اپنا اشہب ِقلم ہے۔نوجوانوں کی اس کھیپ کا مسئلہ زبان یا زبان کا استعمال نہیں۔یہاں جملہ بنتا نہیں پکے ہوئے پھل کی طرح از خود ٹپکتا ہے۔یعنی یہ افسانہ زبان کی پال کا محتاج نہیں۔یہاں جملہ گرائمر کے لحاظ اور نک سک کے اعتبار سے بھی درست ہے مگر افسانہ نگار اپنا تجربہ کسی زبان اور جملے کی ساخت پر قربان نہیں کرنا جانتا۔کہا جاتا تھا کہ افسانے سے کہانی غائب ہو گئی ہے اگر کہانی غائب ہوتی تو افسانہ بھی غائب ہو جاتا۔اسلوب تبدیل ہوا تھا اب افسانہ نگار کسی علامتی اسلوب کا بھی روادار بھی نہیں۔یہ کہانی کا رواں اسلوب ہے اور لگتا ہے پچھلے بیس پچیس سالوں سے علامتی اسلوب سے دوری نے آج کا افسانہ دنیا کے ادب کی مین سٹریم کا افسانہ ہے۔اس افسانے میں بیدیت یا منٹویت نہیں آج کا افسانہ نگار خود ہے۔اس میں روزمرہ کے موضوعات ہیں مگر ان کے بیان کرنے کا طریقہ کہیں مغائرت والا نہیں۔یہاں زبان کو توڑا پھوڑا نہیں گیا۔اور توڑ پھوڑ کو اپنی پہچان بنانے کی شعوری کوشش سے گریز ہوا ہے۔آج کل آزاد نظم کسی طرح کی شکست وریخت سے آگے کی شے ہے۔ آج کے نظم نگار نے ماضی کی ساری توڑ پھوڑ اپنے وجود پر سہہ کر رواں اسلوب اپنایا ہے۔ادراک کا افسانہ نگار بھی کسی سہارے کا محتاج نہیں۔وہ افسانے کو ایک چیلنج سمجھتا ہے اور اپنے آپ سے نبرد آزما ہوتا ہے۔
آج بھی تواتر سے افسانہ تو لکھا جا رہا ہے مگر ہمیں کون سا افسانہ نگار پسند ہے یہ ایک مشکل سوال ہے۔شاعر کی بات اور ہوتی ہے ایک دو غزلیں ہِٹ ہوئیں ،کسی چینل پر موقع مل گیا تو بات کرنا آسان ہو جاتی ہے کہ ہاں جی فلاں شاعر بہت اچھا شاعر ہے۔افسانے کا معاملہ الگ بھی ہے اور مشکل بھی۔سب سے بڑی مشکل یہ کہ افسانہ نگار کو پتّہ مارنا پڑتا ہے۔افسانہ نگاری کے لیے باقاعدہ ہوم ورک کرنا پڑتا ہے۔موضوعات کے تنوع کے باوجود افسانہ نگار کا امتحان ختم نہیں ہوتا۔افسانہ نگار کا افسانے میں اصل امتحان یہ ہے کہ ایک خاص فضا اس کے افسانے میں بنتی بھی ہے یا نہیں۔
ان دس افسانوں کے بعض موضوعات یقیناً چونکانے والے ہیں۔رابعہ الریا کا افسانہ علت ِمشائخ پر ہے۔یہ موضوع ایک ٹیبو ہے جس کو افسانہ نگار نے توڑا ہے۔ایسے موضوعات اس معاشرے کے نظام انہضام کے لیے نقصان دہ ہیں مگر آج کے افسانہ نگار میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ معاشرے سے اس موضوع پر مکالمہ کر سکتا ہے۔مردے کو مسلمان آصف اقبال کا افسانہ ایک اور نازک موضوع پر ہے جس میں عورت کو بعد از مرگ بھی توہین کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ دائم محمد انصاری بھارت سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے افسانہ کرچیوں پر خون میں اس زمانے کی عورت کو اپنا موضوع بنایا ہے اور جنسی تعلق کی خواہش کی اصل تلاش کرنے کی سعی کی ہے۔
” ادراک” سولہ سترہ جو فی الاصل اکیسویں صدی کے فکشنری رجحانات کا ترجمان ہے ایک شراب کا پیگ ہے جس کو ایک ساتھ گلے میں انڈیلنا شراب کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور شراب خوری آداب کے منافی بھی۔یہ جرعہ جرعہ حلق میں اتارنے والی بات ہے۔باقی تینتیس افسانے بھی پڑھوں گا اور میرے لیے آسانی ہو جائے گی اور اس عہد کے افسانے کے بارے میں ایک مجموعی تاثر بھی ضرور سامنے آئے گا۔اس شمارے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں خود مدیر کا بھی کوئی افسانہ نہیں۔بلکہ افسانے کے لے دے کے جو چند معروف نام ہیں ان کو بھی اس شمارے سے دور رکھا ہے۔اس کے دو فائدے ہوئے ہیں ایک تو نئے افسانہ نگار اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہوئے ہیں دوئم چند مشہور ” دانوں” سے اجتناب کر کے اچھا کیا ہے کہ وہ ان نوجوان افسانہ نگاروں کے سامنے کھڑا ہونے کی اہلیت سے متصف بھی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

92 نیوز

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply