• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیشنل ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ھے. محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

نیشنل ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ھے. محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

8جون 1949 ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے ملنے والی دورہ روس کی دعوت ملتے ہی سفارتی ایوانوں میں بھونچال آ گیا ۔ عائشہ جلال اپنی کتاب ”پاکستان سٹیٹ آف مارشل رول” میں لکھتی ہیں کہ امریکہ کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کررہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی،کہ” حکومت کرو یا پھر گھر جاؤ”۔

اسی طرح کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا سے دشمنی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

فیوڈلز پہ مشتمل امریکن نواز وزراء ڈر گئے ۔ دورہ کینسل ہو گیا ۔ دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کُن موڑ تھا۔ یہیں سے پاکستان کی تباہی کا آغاز ہوا۔ ہم امریکہ اور آئی ایم ایف کے چنگل میں ایسے پھنسے کہ جس کی قیمت ہماری  آنے والی نسلیں چکاتی رہیں گی ۔

تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ سابقہ وزیراعظم عمران خان صدر پیوٹن کی دعوت پہ دورہ روس کی دعوت قبول کرتے ہیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے روس کے دورے پہ چلے جاتے ہیں۔ انہیں روکنے دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہے  لیکن وہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے روس چلے جاتے ہیں جس کا نتیجہ پوری قوم دیکھ چکی ہے کہ ہم اپنی خودمختاری کھو چکے ہیں۔ نئے بلاک میں شامل ہونے کیلئے چار سالہ محنت کی۔ پیٹ پہ پتھر باندھے لیکن امریکہ کی ایک معمولی سی دھمکی سے سب کچھ وہیں پہ چلا گیا جہاں سے شروع ہوا تھا۔ ہمارے ملک کے انٹلیکچولز فرماتے ہیں کہ امریکہ کے بغیر زندہ رہنا محال ہے کتنے افسوس کی بات  ہے، کہ ہم تقویٰ کی نعمت سے محروم ہو چکے ہیں۔ رب تعالیٰ کی ذات کی بجائے امریکہ کی معیشت پہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ جب مسلمان ایمان کی طاقت سے محروم ہوتا ہے تو پھر رب تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم آج سات دہائیوں کے بعد بھی بھکاری بن کے کھڑے ہیں۔ اگر لیاقت علی خان مرحوم اس وقت جرات سے کھڑے ہو جاتے تو آج شاید ہم اس حال میں نہ ہوتے۔

پاکستان میں ” آئینی ” حدود میں رہتے ہوئے حکومت کی تبدیلی کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب نئے وزیر اعظم پاکستان منتخب ہو چکے ہیں ۔ ہم سب کو بحیثیت پاکستانی انہیں ویلکم کرنا چاہیے ۔

میاں شہباز شریف صاحب وزیراعظم تو بن گئے لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ حکومت کی تبدیلی سے خوش نہیں ہے۔ ن لیگ کے ورکرز تو خوش ہیں۔ ایم این ایز, ایم پی ایز سبھی خوش ہیں لیکن ن لیگ کی سینئر قیادت خوش نہیں ہے۔ کسی اندرونی خلفشار کا شکار ہے شاید، وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح اس انداز میں حکومت تبدیل ہو۔ امریکی دھمکی کا منظر عام پہ آ جانا بھی پریشانی کا موجب ہو سکتا ہے۔

دوسری سب سے بڑی وجہ عمران خان صاحب بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کی بڑھتی ہوئی حیران کُن مقبولیت دن بدن تاریخ رقم کرتی جا رہی ہے۔چند دن پہلے انہوں نے قوم کو کال دی ۔کسی کو یقین نہیں تھا کہ روزے  سے دن بھر کی بھوکی پیاسی عوام باہر نکل پائے گی۔ محتاط اندازے کے مطابق 9 ملین لوگ گھروں سے نکلے۔ حیران کُن امر یہ ہے کہ یہ کوئی جلسہ نہیں تھا۔ کوئی Lead کرنے والا نہیں تھا لیکن پورے ملک سے بچے بوڑھے جوان سبھی عمران خان سے اظہار یکجہتی کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں سے نکلے اور تاریخ رقم کر دی اور ایسا پوری دنیا میں ہوا۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے سب کو بشمول عمران خان ، حیران کر دیا۔ عمران خان کو عوامی طاقت ملی۔ کل تک پی ٹی آئی استعفوں کے معاملے میں کنفیوژن کا شکار تھی لیکن عوامی طاقت کے ادراک کے پیش نظر عمران خان نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ کر لیا۔ سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے ،صحیح وقت پہ صحیح فیصلہ ہی جیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد شاہ محمود قریشی صاحب نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

عمران خان کا یہ فیصلہ تمام اداروں, سیاسی پارٹیوں پہ بجلی بن کے گِرا۔ یہ فیصلہ درست ہے یا غلط , یہ  تاریخ بتائے گی لیکن بحیثیت سیاسی طالب علم میری نظر میں یہ پی ٹی آئی کا بہترین فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے سے ہی ہم خوفناک گرداب سے نکل سکتے ہیں ورنہ یہ سیاسی  Unstability اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دے گی۔

پی ٹی آئی کے اس فیصلے کے دو پہلو ہیں۔ اگر سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سبھی یہی کہیں گے کہ عمران خان کا یہ فیصلہ غلط ہے کیونکہ سب یہی چاہتے ہیں کہ عمران خان کو موجودہ حکومت کو De stabilize نہیں کرنا چاہیئے۔۔ ملک متحمل نہیں ہو سکتا، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہی بات جب کل پورا پاکستان کہہ رہا تھا کہ ملکی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تو کسی نے یہ بات نہیں سنی ۔ سبھی سیاستدان ,سبھی ادارے خاموش رہے۔ وہ چیختا رہا، چِلاتا رہا، سب دروازے کھٹکھٹائے، ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کو آواز دی، میڈیا جو اسٹیبلشمنٹ کا اہم ستون ہے،کو    پکارتا رہا۔  عوام کے سامنے, عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کے سامنے چِلاتا رہا   کہ بھائی آؤ، ایک بار دیکھ تو لو۔ ۔لیکن کسی نے لیٹر کو دیکھنا تو درکنار، بات کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر اپوزیشن پہ مشتمل سیاستدان ہی اس کی بات سن لیتے اور اسے کہتے کہ ٹھیک ہے ہم عدم اعتماد کی تحریک واپس لیتے ہیں ہم اس رجیم چینج کا حصہ نہیں بنتےِ لیکن آپ دو چار ماہ کے بعد استعفیٰ دے دو ۔

یقین کیجئے۔۔ عمران خان تمام شرائط مان جاتا ۔ حکومت چھوڑ دیتا ۔ اس کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ ملکی خود مختاری کا سودا نہ کیا جائے۔ وہ غلامی سے آزادی چاہتا ہے۔

میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ملکی خودداری کیلئے عمران خان، مولانا فضل الرحمن صاحب کو بھی صدر بنانے پہ راضی ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کی نظر میں پاکستان سب سے پہلے ہے۔ ملک کو قائم رہنا چاہیے۔ شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں۔
عمران خان کی حکومت کیسے   ؟ کس کے  ؟ کہنے پہ ختم کی گئی یہ بات پوری قوم کے ذہنوں پہ نقش ہو چکی ہے ۔ یہی وجہ ن لیگ کی شدید پریشانی کا باعث ہے کیونکہ امریکی دھمکی آمیز لیٹر اتنا بھاری ہے کہ ن لیگ جیسی طاقتور جماعت اس کا بوجھ نہیں سہار پائے گی۔

زرداری صاحب نے بڑی خوبصورتی سے سارا الزام ن لیگ کے کھاتے میں ڈال دیا اور خود سائیڈ لائن ہو گئے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کب ؟ کس وقت ؟ اس مراسلے کو ن لیگ کے خلاف بطور چارج شیٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سابقہ حکومت بھی بڑی چالاکی سے زرداری صاحب کو Comfortable Cushion دے گئی ہے، کیونکہ انہوں نے اس سارے معاملے میں کہیں بھی زرداری صاحب کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے زرداری صاحب کو یہ خط دیکھنے کی دعوت دی ہے۔

پہلے تو میں نے بھی امریکی خط کو عمران خان کا Political stunt سمجھا لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے یہ خط بہت وزنی ہوتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے خط دیکھنے سے انکار کر دیا لیکن اب باضابطہ طور پہ انہیں بھیجا جا چکا ہے۔ اب دیکھنا پڑے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی صدارتی ریفرنس بھی آسکتا ہے کہ اس خط کی وضاحت کی جائے۔
خط کا بوجھ اسپیکر اسد قیصر کی اسپیکرشپ لے چکا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر رولنگ دے چکے ہیں کہ میں اس کاروائی کا حصہ بننے سے قاصر ہوں ۔
صدر عارف علوی خط دیکھتے ہی بیمار ہو گئے اور چیئرمین سینٹ کو حلف لینا پڑا ۔۔جنرل طارق صاحب جو بہت طاقتور جنرل رہے ہیں۔ وہ بھی اس خط کی تحقیقات کا بوجھ نہ سہار سکے

سب شواہد دیکھ کہ لگتا ہے آخر اس میں کچھ تو ایسا ہے جو انہیں حلف سے روگردانی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

آج وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف صاحب بھی خط کے بوجھ تلے دبتے نظر آئے اور انہوں نے اِن کیمرہ سیشن کا اعلان کر دیا۔ تحقیقات کا اعلان کر دیا۔ دیکھتے ہیں کہ کب عمل در آمد ہوتا ہے لیکن انہوں نے بہت دیر کر دی ہے۔ خط انہیں بہت پہلے پڑھ لینا چاہیے تھا۔

عمران خان نے   استعفوں کا اعلان کر کے رجیم میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز پہ سکتہ طاری کر دیا ہے۔ حزب اقتدار میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اس اچانک افتاد سے جھنجھلا اٹھی ہیں اور یہ جھنجھلاہٹ  قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی محسوس کی گئی۔ اتحادی آپس میں اکھڑے اکھڑے سے نظر آئے بلکہ ایم کیو ایم نے تو ابتدا بھی کر دی۔ عمران خان کا یہ Decision آنے والے دنوں میں ملک کی سمت متعین کرے گا ۔ کل کے عوامی احتجاج میں قوم نے بھی اپنی سمت متعین کر دی ھے کہ وہ امریکی چنگل سے نکلنا چاھتی ھے۔ اپنی خودمختاری اور سلامتی کیلئے کسی بھی قسم کے کمپرومائز کیلئے تیار نہیں۔
عمران خان کو استعفوں سے روکنے کی ہر آخری کوشش کی جائے گی انہیں ڈرایا دھمکایا جائے گا۔ نااہل کرنے کی دھمکی دی جائے گی لیکن عمران خان کی اب تک کی History یہ بتاتی ہے کہ وہ نہ ڈرنے والوں میں سے ہے اور نہ جھکنے والوں میں سے۔  اس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی بھی میرے ساتھ کھڑا نہ ہوا تو میں استعفیٰ دے دوں گا اور اس نے استعفی دے دیا ہے۔

بہت سے ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ استعفوں سے ہو گا کیا ۔؟

قومی اسمبلی میں اس وقت عمران خان کے پاس 135 ممبران ہیں۔ منحرف اراکین ویسے ہی ڈی سیٹ ہو جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد تقریباً 189 کے قریب ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا  میں % 97 پی ٹی آئی ہے اور آج وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی واپس لے لی گئی ہے۔ پوری اسمبلی کی تعداد 124 ہے۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 48 ممبران ہیں۔ ٹوٹل 496 سیٹیں بنتی ہیں۔ اگر عمران خان استعفے دلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو 496 سیٹوں پہ ضمنی الیکشن ملکی معیشت کی جڑیں ہلا کے رکھ دے گا، اس لئے سبھی پریشان ہیں کہ اگر عمران خان استعفے دلوانے میں کامیاب ہو گیا تو جنرل الیکشن سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اگر عمران خان موجودہ حکومت کو جنرل الیکشن تک لیجانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسکی Popularity میں مزید اضافہ ہو گا اور اسے واپس اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

عمران خان سیاست میں ایک انتہائی زیرک سیاستدان کے طور پہ اُبھر کے سامنے آئے ہیں۔ وہ یہ جان چکے ہیں کہ اس وقت قوم کیا چاہتی ہے اسی لیئے انہوں نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا خطرناک سیاسی فیصلہ کیا ہے۔

حکومتی کیمپوں پہ نظر ڈالی جائے تو کل کی نسبت آج شہباز شریف صاحب بیک Back Foot پہ نظر آئے۔ ن لیگ کی تمام سینئر قیادت الجھی الجھی سی نظر آئی۔ شہباز شریف صاحب نے بڑی شاندار تقریر کی۔ عوامی مسائل کی بات کی۔ کچھ چھوٹے موٹے ریلیف بھی دیئے جو میرے خیال میں نہیں دینے چاہئیں تھے کیونکہ دگرگوں معاشی حالت میں اتنا بڑا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔ چلیں یہ ہر حکمران کرتا ہے۔ البتہ بیرونی قرضوں کے بارے میں کچھ غلط اعداد و شمار پیش کیئے۔۔۔ سٹیٹ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے پونے چار سال میں 37۔5 ارب ڈالر قرض لیا اور 29 ارب ڈالر واپس کیا۔ مجبوعی طور 8۔5 ارب ڈالر قرض لیا گیا جو پچھلی حکومتوں کی نسبت بہت کم ہے۔

مجھے آج کی تقریر میں وزیراعظم کی یہ بات سب سے زیادہ اچھی لگی کہ انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی جو کہ بہت اچھی شروعات ہے۔ Positive Dialouge ہی تمام مسائل کو ختم کر سکتا ہے ۔ حکومتوں میں استحکام پیدا کرتا ہے لیکن Dialogue کی بات انہیں بہت پہلے کرنا چاہیئے تھی۔ اب وقت گزر چکا ھے اب موجودہ حکومت تو ڈائیلاگ کی بات کرے گی لیکن عمران خان نہیں کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب تمام سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ہی اس مسئلے کا حل نکالنا ہے ۔ ان اندرونی و بیرونی طاقتوں کے چنگل سے نکلنا ہے جو پارلیمنٹ کے باہر ہماری قسمت اور مستقبل کے فیصلے کرتی ہیں۔
بڑے دکھ کی بات  ہے  کہ ہم عام عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے اپنے الیکٹڈ ممبران کی طرف دیکھتے ہیں لیکن ہمارے نمائندے اپنے مسائل کے حل کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں اور نتیجہ یہی نکلتا ہے جو ہم 70 سال سے بھگت رہے ہیں۔ ملک کو اس وقت National Dialogue کی ضرورت ہ،ے تاکہ تمام سیاستدان تمام تلخیاں بھلا کر ، ایک پیج پہ جمع ہو کر  تمام سامراجی قوتوں کو شکست دے سکیں۔ تبھی ملک چلے گا اور ترقی بھی کرے گا ورنہ اندھیرے ہمارا مقدر بنیں گے۔
اللہ رب العزت آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply