پیالی میں طوفان (104) ۔ رنگین سیارہ/وہاراامباکر

اگر ہم کسی میدان میں ہوں تو اپنے سیارے کا بہت چھوٹا سا حصہ ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ لیکن فرض کیجئے کہ ہم ہوا میں تیر سکتے تو دور تک دیکھ پاتے۔ ہم جتنا اوپر جاتے ہیں، فضا مہین ہونے لگتی ہے۔ گریویٹی ان مالیکیولز کو نیچے کھینچ رہی ہے لیکن زمین فضا ایک باریک سی تہہ برقرار رکھنے کے قابل ہے۔ اگر ہم بڑے طوفان سے بھی اوپر چلے جائیں جو کہ بیس کلومیٹر اوپر ہے تو فضا کا نوے فیصد حصہ ہمارے نیچے ہو گا۔ سمندر کا گہرا ترین مقام دس کلومیٹر کی گہرائی پر ہے۔ اس سے نیچے کثیف چٹانیں ہیں اور تقریباً 6400 کلومیٹر نیچے جانا ہو گا تا کہ مرکز میں پہنچا جا سکے۔ سطح سے بیس کلومیٹر اوپر اور بیس کلومیٹر نیچے ۔۔۔ راکٹ کے بغیر ہماری افقی رسائی کی حد بس یہی تیس کلومیٹر ہے۔ ہم اس عظیم سیارے کے باہری چھلکے پر رہتے ہیں۔ اور اس کی موٹائی اتنی کم ہے کہ مقابلتاً ایک ٹیبل ٹینس کی گیند پر ہوئے رنگ کی موٹائی اس سے زیادہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہم 100 کلومیٹر کی بلندی تک چلے جائین تو یہ زمین اور بیرونی خلا کی سرحد سمجھی جاتی ہے۔ اب ہم کرہ ارض کو اپنے نیچے دیکھ سکتے ہیں۔ سبز، بھورا، سفید اور نیلا سیارہ جو کہ خلا کی سیاہی میں محوِ گردش ہے۔ یہاں سے سمندروں کا سائز حیران کن لگتا ہے۔ پانی کے سادہ مالیکیول سے زمین کی تہہ بھری پڑی ہے۔ یہ مالیکیول زندگی کا کینوس ہے لیکن صرف اس وقت جب یہ ٹھیک درجہ حرارت پر ہو۔ اس کے مالیکیولز میں اتنی توانائی ہو کہ یہ مائع کی صورت میں رہ سکے۔ اضافی توانائی ہو تو پھر یہ جہاں بسیرا کریں گے، وہاں پر ان کا ارتعاش کسی پیچیدہ مالیکیول کو ہلا کر رکھ دے گا۔ مزید زیادہ توانائی دیں تو پھر یہ گیس بن کر اڑ جائے گا اور زندگی جیسی نازک شے کے لئے بے کار ہو گا۔ اور اگر یہ توانائی کم ہو تو یہ ارتعاش اتنا کم ہو گا کہ یہ برف کا lattice بن جائے گا اور حرکت نہ کر سکنا زندگی کو سخت ناپسند ہے۔ یہ غیرلچکدار برف کے کرسٹل بننے کا عمل ہی اگر کسی زندہ خلیے کے اندر ہو تو اس کو پھاڑ دے گا۔
ہمارا سیارہ صرف کی خاص بات H2O کا ہونا نہیں ہے بلکہ یہ کہ یہ اتنی توانائی رکھتا ہے کہ یہ مائع شکل میں ہو۔ اور ہم جب زمین کو خلا سے دیکھ رہے ہیں تو یہ خاص مالیکیول نظارے پر چھایا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحرِ الکاہل میں ایک نیلی وہیل نے صدا لگائی۔ آواز کی لہریں باہر کو جانے لگیں۔ ہوائی کے جزائر سے براعظم امریکہ تک پہنچنے میں اس کو ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔ سمندر آوازوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ پانی کی لہروں کے بننے اور ٹوٹنے کا شور، بحری جہاز یا ڈولفن کی آوازیں۔ اینٹارٹیکا کی برف کے نیچے کی گہری گڑگڑاہٹ ہزاروں میل سفر کر سکتی ہے ۔۔ لیکن یہ سب اوپر سے نظر نہیں آتا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply