پردیس کی عید/انجینئر ظفر اقبال وٹو

ڈیلف (ہالینڈ) کے مرکزی ڈسٹرکٹ میں واقع مراکوین اسلامک سنٹر میں امام صاحب عید کے خطبے اور دعا سے جیسے  ہی فارغ ہوئے تو سب لوگ ایک دوسرے کو گلے مل کر عید مبارک کہنے لگے۔ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو کوئی شناسا چہرہ میرا منتظر نہ تھا جو گھٹ کے جپھی ڈال لیتا اور کہتا عید مبارک۔ میں کافی دیر وہیں کھڑا رہا اور لوگوں کو اپنے پیاروں سے عید ملتے دیکھتا رہا پھر امام صاحب کو جاکر ملا اوریونیورسٹی میں آکر دوبارہ کلاس میں بیٹھ گیا۔

یہ دن ایک عام سا دن تھا۔ یونیورسٹی کی کلاسز حسبِ  معمول تھیں۔ کسی نے لال نیلے پیلے کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ گلیاں اور بازار نہیں سجائے گئے تھے۔ عید مبارک کی صدائیں سنائی نہیں دیں اور نہ ہی کوئی بچہ عیدی لینے کے چکر میں نظر آیا۔ یہ وطن سے باہر میری پہلی عید تھی اور دل بہت اداس ہورہا تھا۔

شام کو مسلم سٹوڈنٹس نے انسٹیٹیوٹ کے پریئر روم میں چھوٹی سی  دعوت اور نشست کا اہتمام کیا ہوا تھا بیٹھ کر گھنٹہ دو گھنٹے گزارے اور اگلے دن کی اسائنمٹس اور ٹیسٹ کی تیاری کے لئے کمرے میں واپس آگئے۔ چونکہ اس زمانے میں بیرون ملک فون کال بہت مہنگی تھی ۔ سمارٹ فون کی پیدائش نہیں ہوئی تھی اس لئے گھر والوں سے بھی ایک حد تک فون پر بات ہوسکتی تھی اور ان سے بات کرکے اداسی میں اور اضافہ ہوجاتا۔

پردیس میں اور خصوصاً غیر مسلم ممالک میں عید ہمیشہ ایک اداس کردینے والا تہوار ہوتا ہے جو کہ بالکل ایک عام سے دن کی طرح گزر جاتا ہے نہ کوئی چھٹی اور نہ ہی سلیبریشن خصوصاً جب آپ کسی دور کے چھوٹے سے قصبے میں ہوں۔

دوسری دفعہ خرطوم میں عیدالفطر گزارنے کا اتفاق ہوا جہاں مسلم ملک ہونے کی وجہ سے عید کی چھٹیاں اور جوش وخروش تو تھا لیکن عید کی نماز ایک بڑے میدان میں پڑھنے کے باوجود پورے ہجوم میں آپ کو گلے لگانے والا کوئی نہیں تھا۔

یہ عید اس لحاظ سے بھی مشکل تھی کہ پورے چار دن کی چھٹیاں تھیں جوکہ اکیلے گزارنا تھیں ۔ پارکس اور گلیوں میں لوگوں کا رش تو تھا لیکن آپ کو جاننے والا کوئی نہ تھا۔ٹی وی پر بھی بدیسی زبان اور کلچر کے پروگرام تھے جن میں آپ کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔

دریائے نیل کے کنارے بہت سے ریسٹورنٹس  اور ہٹس بنے ہوئے تھے جہاں رنگا رنگ پکوان بنے ہوئے تھے۔ فیملیز پکنک منانے دریا کنارے پہنچی ہوئی تھیں۔ تمام بازار بند تھے البتہ پارکس میں رش تھا۔دوتین گھنٹے کی ہوا خوری کے بعد پھر واپس آکر کمرے میں بند ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح کی کچھ اور عیدیں بھی بیرون ملک گزریں تو احساس ہوا کہ عید تو اپنوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اپنائیت کا احساس نہ ہو تو آپ ہجوم اور بھیڑ میں بھی تنہا ہوتے ہیں۔یہ احساس وہ لوگ سمجھ سکتے جو بیرون ملک کام یا تعلیم کے سلسلے میں مقیم ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply