لاکھوں میں ایک/حسان عالمگیر عباسی

مری گیا تو موسم قدرے خشک تھا گو ہوشیار باش رہو کی سیٹیاں علی الصبح پنڈی ہی سن لی تھیں لیکن واپسی برف سے ڈھک چکی تھی۔ جب براستہ جی ٹی روڈ پہاڑوں کو کاٹتے ہوئے اترا تو راستے میں یہ بھنگی پکوڑے اور چرسی چائے کیسے بھول سکتا تھا۔ بٹوا ڈھونڈا تو نہیں تھا۔ یاد آیا گھر بھول آیا تھا۔ اے ٹی ایم ڈھونڈنے سے مل تو گیا لیکن قریب میں بینک نہیں تھا۔ ایک رقوم بھیجنے وصولنے کا ذریعہ ایزی پیسہ بھی ہے۔ وہاں حاضری دی جو بابرکت رہی۔ جیسے پرانے کپڑوں میں پیسے رہ جائیں اور دھوتے وقت مل جاتے ہیں وہی کچھ جدید انداز میں ہوا۔ ایزی پیسہ میں ستر روپے ملے۔ دکاندار کے پاس گیا اور پوچھا بھیا ایزی پیسہ ہے؟ بولا اکاؤنٹ میں بھیج دیں۔ ستر روپے پھینکے تو وہ بھی حیران ہوا۔ حیرانی کی وجہ پوچھنا چاہی تو کہنے لگا اس کی فیس کیا کاٹنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ستر میں بیس اور ملائے اور پچاس چالیس کی چائے پکوڑے کی جو چس آئی وہ لاکھوں میں ایک تھی۔ یہ سب باتیں ایک طرف اور اس وقت یہ دونوں سہیلیاں مجھے شدید للچا رہی ہیں۔ وہ چھلی بھی یاد آرہی ہے جو مصالحہ جات میں لیمو نچوڑ کے بابا جی سے پچاس میں خریدی تھی۔ یا اللّہ رحم! یہ چائے میاں کو دیکھیں ذرا کیسے دھواں پھینک رہی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply