یہ کس کی زیست میں مسند ِاقتدار آگیا؟۔۔۔۔محمد وقار اسلم

اب تک میں اور ایف بی آر اتنی ریکوری نہ کر سکی تھی ملک میں کسیلا بحران امڈ آیا تھا سرمایہ داروں نے انویسٹمنٹ نکال لی تھی۔حالت ابتر سے ابتر ہو رہی تھی اور پھر پسندیدہ صنعت کاروں کو حکومت نے راتوں رات اپنی تحریک انصاف کو وہ کثیر رقم،جو سوا تین سو ارب بنتی ہے معاف کردئیے، جو وہ صارفین سے وصول کر چکے تھے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس ایکٹ کا ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے تحت کھاد بنانے والی کمپنیوں ، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ، بجلی پیدا کرنے والی دیگر کمپنیوں ، نجی شعبے میں قائم بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں پر31 دسمبر 2018 تک گیس انفرا اسٹرکچر ڈیویلپمنٹ فنڈ سیس کی مد میں واجب الادا رقوم میں 50 فیصد معافی دے دی گئی ہے ۔ یہ رقم 208 ارب روپے بنتی ہے اور اس پر تاخیری سرچارج بھی جوڑا جائے تو مجموعی طور پر 300 ارب روپے بنتی ہے ۔ یہ ٹیکس ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے خصوصی طور پر ایران سے قدرتی گیس کی پاکستان میں فراہمی کے لیے پائپ لائن بچھانے کے لیے درکار بھاری فنڈز کی فراہمی کے لیے لگایا گیا تھا ۔ دیکھنے میں تو یہ ٹیکس قدرتی گیس استعمال کرنے والے بڑے صنعتی یونٹوں پر لگایا گیا تھا مگر اسے اصل میں ادا کرنا تو عام شہری کو ہی تھا کہ جس جس پر یہ ٹیکس لگایا گیا تھا اس نے اسے اپنی لاگت میں شامل کرکے اسے صارفین تک کامیابی سے منتقل کردیا تھا۔ نواز شریف کے دور میں اس پر پہلا گھپلا نظر آیا کہ انہوں نے سی این جی سیکٹر پر سے 50 فیصد کمی کردی ۔ اصولی طور پر تو سی این جی سیکٹر کو اس کا فائدہ فوری طور پر صارفین کو منتقل کرنا چاہیے تھا مگر سی این جی مالکان نے اس ٹیکس کی مکمل وصولی عوام سے جاری رکھی اور اس کا فائدہ اپنے تک محدود رکھا ۔ سی این جی سیکٹر کی دیکھا دیکھی دیگر شعبہ جات نے بھی اس ٹیکس کی ادائیگی معطل کردی اور اس کے لیے معروف عدالتی طریقہ کار اختیار کیا گیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت حکم دیتی کہ فیصلہ ہونے تک یہ رقم عدالت میں جمع کروائی جائے مگر یہ تمام شعبہ جات عدالت سے معطلی کا حکم نامہ لینے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس کے بعد سے یہ کیس عدالت میں چل رہا ہے اور اس پر ابھی فیصلہ آنا باقی ہے ۔ مگر عمران نیازی نے حلوائی کی دکان پر فوری طور پر فاتحہ دلوادی اور 300 ارب روپے کی بھاری رقم بااثر افراد پر معاف کردی ۔ 1971 سے لے کر 2009 تک بینکوں سے قرضوں کی مد میں معاف کروائی جانے والی رقم کا مجموعہ 256 ارب روپے بنتا ہے جبکہ عمران نیازی نے قلم کی ایک ہی جنبش سے 300 ارب روپے معاف کردیے ۔ اس معافی میں ایک بڑا جرم یہ ہے کہ حکومت نے جو رقم معاف کی ہے ، وہ ان اداروں کواپنی جیب سے نہیں دینی تھی کیوں کہ انہوں نے اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اس کو شامل کرکے اسے اپنے صارفین سے وصول کرلیا تھا ۔ اصولی طور پر تو یہ رقم پاکستان کے شہریوں سے وصول کی گئی تھی اور ان اداروں نے اس میں بددیانتی کی اور اسے سرکار کے کھاتے میں جمع نہیں کروایا ۔ دوسرا بڑا جرم یہ ہے کہ یکم جنوری سے مذکورہ سیس کے خاتمے کے بعد بھی اس ٹیکس کی رقم کو ان اداروں کی مصنوعات کی لاگت میں سے منہا نہیں کیا گیا اور اب بھی یہ رقم صارفین سے وصول کی جارہی ہے ۔ اسے عمران نیازی حکومت کی نگرانی میں پاکستانی شہریوں کی جیب پر دن دیہاڑے ڈالا جانے والا ڈاکا قرار دیا جاسکتا ہے ۔جی آئی ڈی سی کیس کا فیصلہ زیر التواء تھا عدالتوں میں اس طرح کی سنگین خلاف ورزی تحریک انصاف کے رہنماؤں کو نوازنے اور ان کا منہ بند کرنے کے لئے کی گئی۔ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ جو حکومت چند ارب روپے کا زرتلافی حج پر دینے سے انکار کردے وہ حکومت عوام سے وصول کیا گیا پیسہ ان اداروں کو کس مَد میں ڈکارنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں ہے جو ان اداروں کو یہ ٹیکس عوام سے مزید وصولنے سے روک سکے ۔ ایک عدلیہ سے امید ہوتی ہے کہ وہ عوام کو انصاف فراہم کرے گی مگر عملی طور پر عدلیہ ہی ان سفید پوش ڈاکوؤں کو چھتری فراہم کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ کوئی بھی کیس دائر کیا گیا اور فوری طور پر حکم امتناع جاری کردیا گیا ۔ اس کے بعد برسوں کیس لٹکا رہتا ہے اور یوں انصاف کا خون دیکھتے ہی دیکھتے ہوجاتا ہے۔ کے الیکٹرک جیسے اداروں نے صرف گیس ڈیویلپمنٹ سیس کی سیکڑوں ارب روپے کی رقم ہی عوام سے وصول کرکے ہضم نہیں کی ہے بلکہ یہ سیلز ٹیکس اور ٹی وی فیس کی رقم بھی عوام سے وصول کرکے روزہضم کرجاتے ہیں اور سرکار انہیں ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتی ۔ عمران خان کو شاید یاد ہوگا کہ وہ قرضوں کی معافی پر چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ یہ کسی کے باپ کا پیسہ نہیں، عوام کا پیسہ ہے۔ اب یہ 300 ارب روپے کس کے ذاتی تھے؟ ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان سے تو ٹیکس وصول کرنے کے لیے پوری سرکاری مشینری استعمال کرڈالتے ہیں مگر کے الیکٹرک جیسے ادارے جو عوام سے تو سرکار کے نام پر اربوں روپے کے ٹیکس وصول کرلیتے ہیں مگر سرکار کے کھاتے میں جمع نہیں کرواتے ، انہیں کچھ نہیں کہتے ۔ عمرانی حکومت نے جن اداروں پر گیس ڈیویلپمنٹ سیس معاف کیا ہے ، ان سے ناصرف یہ پورا وصول کیا جائے بلکہ کھاد فیکٹریوں ،سی این جی سیکٹر اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں وغیرہ کی مصنوعات میں سے اس ٹیکس کو منہا بھی کیا جائے ۔ یہ ٹیکس ظالمانہ طور پر ابھی تک ان اداروں کی مصنوعات کی قیمت فروخت میں شامل ہے ۔ اصولی طور پر نیپرا کو کے الیکٹرک کی بجلی کے نرخ کا پورا بریک اپ دینا چاہیے کہ بجلی کی پیداوار کے کتنے اخراجات ہیں اور مزید کتنے ٹیکس اس میں شامل کیے گئے ہیں یہ سب کٹھا چٹھا کھولنے کی اصل ضرورت ہے تاکہ چوری کے الزام میں ماورائے عدالت قتل ہونے والوں کی ارواح بھی کم تڑپیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply