مثل برگ آوارہ’سے
دھندلکا پھیلنے لگا تھا۔ ڈاکٹر سعید باجوہ کا “آفس ٹائم” بھی تمام ہو چکا تھا۔ جب گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھے تو میں نے ہٹ دھرمی کے ساتھ کہا کہ مجھے تو بس بیئر پینی ہے، تم سامنے سٹور پر گاڑی روکو۔ سعید نے بہت کہا کہ نائن الیون سٹورز والے کھڑے ہو کر بیئر پینے کی اجازت نہیں دیتے۔ مجھے اتنے عرصے کے قیام کے بعد معلوم ہو چکا تھا کہ امریکہ میں سرعام بیئر پینا ممنوع تھا، شوقین لوگ خاص طور پر نوجوان بوتل پر خاکی کاغذ کا لفافہ چڑھا کر پیتے تھے۔ البتہ مجھے اس نوع کی احتیاط کی منطق سمجھ نہیں آئی تھی۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ گاڑی ڈرائیو کرنے والا شخص ڈرائیونگ کرتے ہوئے لفافہ چڑھا کر بھی نہیں پی سکتا اور نہ ہی اس کے ساتھ کی نشست پر بیٹھا ہوا شخص، اگرچہ ایک پنٹ بیئر پی کر گاڑی چلانے پر کوئی قانونی قدغن نہیں تھی۔ میرے ضدی تیور دیکھ کر سعید نے کہا۔ صبر کرو میں دفتر سے دور کہیں کسی سٹور سے ہٹ کر گاڑی پارک کروں گا اور تمہیں بئیر لادوں گا، تم کھڑی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر اپنا شوق پورا کر لینا۔ ” یہ ہوئی نا بات باجوہ” میں نے مطمئن ہو کر مسکراتے ہوئے کہا جس کے جواب میں ڈاکٹر سعید نے بھی مسکرا کر کہا تھا ” مرزا تو بھی بس مرزا ہے، تیری کل سیدھی نہیں ہو سکتی”۔
پھر ہم عام باتیں کرنے لگے تھے۔ سعید نے مجھے بتایا تھا کہ وہ امریکہ آنے کا امتحان پاس کرکے ملازمت کی تلاش میں امریکہ پہنچا تو اپنے ایک قریبی عزیز کے ہاں رہائش پذیر ہوا تھا۔ عزیز محترم نے دو تین ہفتے بعد ہی کہہ دیا تھا کہ عزیزم یہاں کام کیے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ چونکہ سعید کا عزم صمیم تھا کہ وہ اعصاب کی جراحی میں ہی تخصص حاصل کرے گا اس لیے اسے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ اس کا موقف تھا کہ وہ اگر دستیاب ملازمت کر لیتا تو اس کا جراحی اعصاب کے تخصص کے حصول کا شوق تبدیل ہو سکتا تھا یا کم از کم ماند پڑ سکتا تھا اس لیے اس نے مطلوب ملازمت ملنے تک ادھر ادھر کے کام ہی کیے تھے۔ وہ بقول اس کے بیک وقت ایک بوڑھے کے گھر کی صفائی کرتا تھا اور ایک پارکنگ لاٹ میں بھی کام کرتا تھا۔ اس نوع کے کام اس نے تقریباً نو ماہ تک کیے تھے تا وقتیکہ اس پر ایک یہودی ڈاکٹر پروفیسر مہربان نہیں ہو گیا تھا اور اسے مطلوبہ جاب نہیں مل گئی تھی۔
سعید باجوہ نے حسب وعدہ ایک جگہ گاڑی روکی تھی۔ مجھے گاڑی میں ہی بیٹھنے کو کہا تھا اور پوچھا تھا کہ کونسی بیئر لاؤں۔ “ہینیکن لے آؤ” میں نے کہا تھا۔ ڈاکٹر سعید پانچ منٹ میں ہینیکن بیئر کی چھ بوتلوں کا پیک پکڑ لایا تھا۔ بیئر کے بعد ایک مقام پر جانے کی بھی حاجت ہوتی ہے، چنانچہ میں نے کھڑی گاڑی میں دو ہی بوتلیں پی تھیں۔ “باقی کا کیا کریں؟” سعید نے پوچھا تھا۔ “گھر لے جا نہیں سکتے، گاڑی میں رہنے نہیں دی جا سکتی، میری بیگم نے دیکھ لیا تو میری بہت سبکی ہوگی”۔ ” تم نے جاتے ہوئے برانڈ پوچھا تھا، مقدار نہیں پوچھی تھی” میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ “میں نے سوچا تھا تمہیں بیئر کی شاید شدید پیاس لگی ہوئی تھی، یار کیا مصیبت ہے” سعید تھوڑا سا جھنجھلا گیا تھا۔ “شریف آدمی میں تمہیں کیا اپنے پراسٹیٹ کا معاملہ پہلے بتاتا۔ کوئی مصیبت نہیں آئی، گھر سے تھوڑا سا پہلے دو منٹ کے لیے گاڑی روک لینا۔ ایک مزید بوتل کا بوجھ کم کر دوں گا۔ باقی سڑک کنارے رکھ دیں گے۔ ایسا کونسا مسئلہ ہے”۔ سعید شانت ہو گیا تھا۔ انہوں نے ایسے ہی کیا تھا۔
ایک گیٹ میں داخل ہوئے تھے، جس میں ایک روش تھی جس پر گاڑی چل رہی تھی۔ سعید نے بتایا تھا کہ یہ 37 ایکڑ کی اسٹیٹ ہے جو اس کی ملکیت تھی۔ کوئی کلومیٹر چلنے کے بعد وسیع و عریض لان والا اس کا بنگلہ سامنے آ گیا تھا۔ گھر میں داخل ہوئے تھے۔ ایک بڑے سے ڈرائنگ روم کے ایک جانب بہت بڑا کچن کمپلکس تھا جس میں سعید باجوہ کی اہلیہ جو رشتے میں اس کی فرسٹ کزن تھی کھانے کے اہتمام میں مصروف تھیں۔ سعید باجوہ کے دو جوان بیٹے اور ایک نوعمر بیٹی بھی استقبال کے لیے موجود تھے۔ ایک بیٹا ہارورڈ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی یونیورسٹی میں ٹیچر تھا اور دوسرا بیٹا ڈاکٹر، بیٹی ابھی پڑھ رہی تھی۔ بھابھی بڑی خوش خلقی سے ملی تھیں۔نوجوان اس قدر مودّب تھے کہ گمان نہیں ہوتا تھا وہ امریکہ میں رہتے تھے۔ ہارورڈ میں پڑھانے والا خود چپل لے کر آیا تھا اور میرے پاؤں کے سامنے رکھ کر کہا تھا،”انکل جوتے اتار دیں، ایزی ہو جائیں”۔میں نے جوتے اتارے تو اس نے اٹھا لیے تھے تاکہ جس کمرے میں مجھے شب خوابی کرنی تھی، وہاں رکھ آئے۔ میں نے بوکھلا کر کہا تھا،” بیٹے رکھ دو میں خود لے جاؤں گا”۔ نوجوان نے زیر لب مسکرا کر کہا تھا،” یہ کیسے ہو سکتا ہے انکل کہ آپ جوتے اٹھائے جائیں میں کس لیے ہوں”۔ میں متحیر تھا۔ میں نے سعید سے کہا تھا،”یار بڑی زبردست تربیت کی ہے تم نے بچوں کی۔ میں تو امریکہ میں پلنے والے بچوں کی بدتمیزی اور آزاد روی کو دیکھ کر سمجھتا تھا کہ شاید آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو لیکن تمہارے ہاں تو۔۔۔ ” سعید نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا تھا،”بھائی اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ مجھے تو اپنے کام سے فرصت نہیں ملتی، یہ سب تمہاری بھابھی کا کارنارمہ ہے”۔
بھابھی دور کھڑی مسکرا رہی تھیں، میں نے ان کی جانب دیکھا تو انہوں نے کہا،”بھائی ہم دونوں کا ہی ہاتھ ہے۔ ویسے یہ سب اللہ کا کرم ہے، ہم کون ہوتے ہیں کسی کو بنانے بگاڑنے والے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بچے اطاعت گذار ثابت ہوئے”۔ بھابھی سعید کی نسبت جوان تو تھیں ہی اپنے بچوں کی ستائش کرتے ہوئے بڑھ کر حسین بھی دکھائی دے رہی تھیں۔
میں نے آواز ذرا مدھم کرکے سعید سے کہا تھا،” یار میں نے نیویارک شہر میں ہندوستانی لڑکیوں کو سر عام ایسی ایسی حرکتیں کرتے دیکھا ہے جو شاید گورے بھی سب کے سامنے کرنے سے ہچکچاتے ہوں۔ شاید مذہب کا اثر ہے کہ پاکستانی لڑکیاں ایسا کرتے دکھائی نہیں دیں”۔ سعید نے سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا،” اسبغول کچھ نہ پھول، چھوڑو یار یہاں کی آزاد فضا میں اللہ بچائے تو بچائے کوئی بھی آزاد روی سے محفوظ نہیں” اتنے میں بھابھی نے کھانا چن دیا تھا۔
میں جوتے بدلنے کے فوراً بعد اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے جا کر بئیر کا سارا بوجھ ہلکا کر چکا تھا۔ بھوک چمکی ہوئی تھی۔ کھانا بے حد لذیذ تھا۔ میں نے بھوک سے زیادہ کھایا تھا اور جی بھر کے بھابھی کے ہاتھ کی تعریف کی تھی۔ کھانے کے بعد بھابھی نے پوچھا تھا کہ آئس کریم چلے گی یا چائے کی طلب ہے۔ میں نے آئس کریم پہلے اور ذرا ٹھہر کے چائے پیش کرنے کی فرمائش کر دی تھی جو پوری کی گئی تھی۔ آئس کریم اور چائے کے وقفے کے دوران سعید اور میں پرانی باتوں کو یاد کرتے رہے تھے۔ پھر سعید نے کہا تھا کہ اسے نماز پڑھنی ہے۔ وہ ہسپتال جانے کے لیے نماز فجر کے وقت اٹھتا تھا اور آٹھ بجے نکل جاتا تھا۔ مگر اس نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، تم آئے ہو تو کل آرام سے جائیں گے، نو بجے ٹھیک رہے گا ناں۔ پھر اس نے مجھے ایک ریڈیو فون دیا تھا اور کہا تھا کہ اس پر دنیا میں جہاں چاہو اور جتنی دیر چاہو، براہ راست کال کرو۔ وہ مجھے میرے کمرے میں چھوڑنے تہہ خانے میں گیا تھا جو ایک عام تہہ خانہ نہیں تھا بلکہ پورا گھر تھا، ڈرائنگ روم، کچن اور کمروں کے ساتھ اور فائیو نہیں تو کم از کم فور سٹار ہوٹل کی سہولتوں سمیت۔ غسل خانے میں بھابھی نے تولیوں سمیت تمام لوازمات رکھوا دیے تھے۔ سعید نماز پڑھنے اور پھر سو جانے کے لیے شب بخیر کہہ کر چلا گیا تھا۔
دیارغیر سے ٹیلیفون کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے پاکستان اور روس میں فون کیے تھے اور اپنے دوست کی کامیابیوں اور خوش باش زندگی کا ذکر کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ تہہ خانہ ہے، اس لیے میں کھل کر بات کر رہا تھا۔
صبح آٹھ بجے سعید خود چائے لے کر مجھے جگانے پہنچا تھا۔ جب تک میں چائے پیتا رہا وہ بیٹھا میرے ساتھ باتیں کرتا رہا تھا۔ میں نے بتایا کہ میں نے رات پاکستان اور روس ہر جگہ اس کے بارے میں بتایا تھا۔ سعید نے قہقہہ لگا کے کہا تھا، میں سن رہا تھا تم بڑے جوش میں تھے۔ میرا کمرہ اس کے بالکل اوپر ہے۔ میں جھینپ گیا تھا کہ کہیں میں نے سعید اور بھابھی کی نیند تو خراب نہیں کر دی تھی۔ سعید نے کہا تھا تیار ہو جاؤ، ناشتہ کرکے نکلتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں