در بدری/شاہین کمال

ہجرت دل سے ہو یا زمین سے ہمیشہ باعثِ آزار۔۔ یہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد در بدری کی دل سوز کتھا ہے جب مجبوراً ہمیں اپنی جنم بھومی چھوڑنی پڑی تھی۔ہم لوگ یعنی پاپا، امی، آپا ، زرین اور ہم۔ ہم پانچوں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پورا ایک سال بنگلہ دیش میں پاپا کے دوست جمال وارث کے گھر پناہ گزیں رہے ۔ بڑی دقتوں اور سفارشوں کے بعد بنگلہ دیش کی سرکار نے ہم لوگوں کو ہندوستان جانے کا پرمٹ دیا۔ دکھی دل اور خالی ہاتھ، ڈھاکہ سے ہندوستان کے شہر کلکتے، پھر کلکتے سے پٹنہ اور پٹنے  سے نیپال پہنچے ۔ ایک طویل سفر درپیش رہا جو اعصاب شکن بھی تھا اور دل گیر بھی۔ اُسی سفر کی ایک مختصر روداد۔

کلکتے کا پُر رونق ریلوے اسٹیشن جہاں اور کھوے سے کھوا چھلتا تھا، اس کے مقابلے میں پٹنہ کا ریلوے اسٹیشن تو ویرانہ ہی تھا۔ شاید اس لیے بھی اسٹیشن سنسان تھا کہ رات تین چوتھائی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ دسمبر کی پالا مارتی رات۔ انجان دیس کی رات تھی سو سرد بھی اور سخت کٹھور بھی ۔ پہلے پاپا کا ارادہ تھا کہ فجر کے بعد اسٹیشن سے شہر کے لیے روانہ ہوں گے پر جب دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیشن ویران ہو گیا تو پاپا نے یہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔

ہم لوگ اسٹیشن کے باہر چبوترے پر ٹھٹھرتے ہوئے کھڑے تھے کہ پٹنہ میں کلکتے کے مقابلے میں سردی بہت زیادہ تھی۔ سیاہ گھور رات میں سڑک پر استادہ کھمبے پر لگے مدقوق بلب کی روشنی میں تین سائیکل رکشہ، ایک بدرنگی سی ٹیکسی اور دور تھڑے کے پاس بجھتے الاؤ کے قریب دو اونگھتے کتے نظر آ رہے تھے۔ پاپا نے ٹیکسی کی کھڑکی بجائی اور ڈرائیور نے شان بے اعتنائی سے انکار میں ہاتھ ہلا دیا۔ سائیکل رکشے والا اپنے رکشے کی سیٹ پر گرم چادر لپیٹے چکو مکو بیٹھا تھا۔ پاپا نے پوچھا کہ سبزی باغ چلو گے؟
کاہے نہ چلے گے بابو!

پھر اس نے اپنے دوسرے ساتھی کو آواز دی۔ یوں ہم لوگ دو سائیکل رکشے پر سوار سبزی باغ چلے۔ گہرا کُہرا تھا جس کی وجہ سے سڑکوں کی مدقوق روشنیاں مزید مدہم تھیں ۔ پاپا اپنی نوجوانی کی یادداشت کے سہارے اپنے پرانے محلے کو کھوج رہے تھے اور وہاں بے درد ٹھٹھری ہوئی گونگی رات بکھری پڑی تھی۔
پاپا نے قیاس کے سہارے ایک انجان دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی ہی دیر میں اندر روشنی ہوئی اور مرکزی پھاٹک کھلا ،
برسوں پر محیط وقت چٹکیوں میں سمٹا
اور پل سے بھی کم وقفے میں دوست نے دوست کو پہچان لیا۔
محبت سے گلے ملے اور تپاک سے ہم لوگوں کو اندر لے گئے۔ محبت اور رواداری کا یہ عالم کہ رکشے والے کو محنتانہ بھی خود دیا، حالاں کہ کے ہم لوگوں کے پاس انڈین کرنسی تھی۔ اندر دالان کے بعد ایک بڑا کمرہ تھا جہاں چوکیوں کی قطار پر لحاف تانے جانے کون کون سو رہا تھا۔ ایک آدھ نے لحاف کی جھری سے جھانکا بھی۔ آنگن پار کرکے پھر ایک بڑا کمرا اور چوکیوں کی قطار۔ وہیں ایک خالی چوکی پر ہم لوگوں کو بیٹھا کر انہوں نے اپنی بیگم کو جگایا اور اس کے بعد جیسے گھر میں جاگ ہی پڑ گئی۔ بیچاری تمام بڑی لڑکیاں جگا دی گئیں۔ ہم لوگوں کو فراغت کے لیے غسل خانے کا راستہ دکھایا گیا۔ ہم لوگوں کے منہ ہاتھ دھونے تک ننگی چوکی پر دسترخوان سج چکا تھا اور گرم گرم چائے کے ساتھ کلچے، پاپے، نمک پارے اور شکر پارے۔ ۔یہ تو محض شروعات تھیں ۔
فجر کی نماز کے بعد اٹھ بجے اس قدر پُر تکلف ناشتا کہ حد نہیں۔ پراٹھے، نئے آلو کی بھجیا، شامی کباب، ابلے اور تلے ہوئے انڈے، آملیٹ اور گاجر کا حلوہ  اور ان پر بازی لے جاتا ہوا اخلاق اور اصرار کا تڑکا۔

کیا پھرتیلی اور سگھڑ لڑکیاں تھیں۔ اب تک گھر کے چھوٹے بچے بھی اٹھ چکے تھے اور حیران نظروں سے نو وردان کو دیکھ رہے تھے۔ چچا کے گھر جوائنٹ فیملی سسٹم تھا اور سب انتہائی گھلے ملے۔
پٹنہ کے اخلاص اور والہانہ استقبال نے دل جیت لیا۔ پاپا کے چہرے سے بھی دلی خوشی جھلکی پڑتی تھی۔ مدت بعد ایک اطمنان ان کے چہرے پر نظر آیا۔ یہ شاید اپنے بچھڑوں کی رفاقت اور مٹی کی محبت کا کرشمہ تھا۔

پاپا نے چچا سے پوچھا کیا آپ ڈاکٹر مسعود کو جانتے ہیں؟
پٹنہ میں بھلا ڈاکٹر مسعود کو کون نہیں جانتا۔
چچا نے بنا تامل جواب دیا۔
ان سے تم کو کیا کام ہے کمال!
وہ میرے ہم زلف ہیں اور ہم لوگوں کو انہی کے گھر جانا ہے۔
ارے!! نہیں نہیں تم لوگ یہیں رہو ہم لوگوں کے ساتھ۔
کچھ دیر رہنے کے مسئلے چچا اور پاپا کا اصرار و انکار چلتا رہا پھر چچا بےدلی سے اٹھے اور بڑے خالو کا نمبر ملا دیا۔ پاپا کی ان سے بات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ آدھ گھنٹے میں ڈرائیور پہنچ رہا ہے۔

چچا سے رخصت لی اور بڑے خالو کے گھر راجندر نگر پہنچے۔ بڑی خالہ اماں کا عرصے پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ خالو ابا کے گھر ان کی بیوہ بیٹی طلعت اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیوہ بہو اپنی بیٹی کے ساتھ اور ساتھ ہی خالو ابا کے چھوٹے بیٹے خورشید کی تین اولادیں بھی اسی گھر میں رہتی تھیں۔ اچھا بھرا گھر تھا۔ دونوں پوتیاں کالج، نواسہ میڈیکل کالج اور چھوٹا پوتا رومی اور پوتی شاہینہ اسکول جاتے تھے۔ یہاں بڑے مزے کا وقت گزرا۔ ہم رومی اور شاہینہ خوب کھیلتے تھے۔

اب کا نہیں پتہ مگر اُس زمانے میں ہندوستان میں لوگوں کو فلم کا خبط تھا۔ کھانا بےشک نہ کھائیں پر فلم کا پہلا شو نہیں چھوڑ سکتے ۔ میری دونوں کزن بھی ہر ہفتے کالج بنک کرکے نئی فلم کا پہلا شو لازمی دیکھا کرتی تھیں۔ وہاں کے آدابِ میزبانی میں دعوت طعام کے ساتھ دعوت سنیما بینی بھی شامل تھی۔

اسی اثناء میں خالو ابا کے گھر بقرعید کا تہوار آ گیا۔ سنہ 1973 کو بقرعید جنوری کی پندرہ تاریخ کو پڑی تھی اور پیر کا دن تھا۔ اس دن ہم نے کم عمر ہونے کے باوجود محلے (وہ ہندو اکثریتی محلہ تھا) کے مسلمانوں کا ہراس دیکھا۔ اس دن محلے میں غیر معمولی سناٹا تھا اور سارے دن انجان لوگوں کا پھیرا لگتا رہا۔ پتہ چلا کہ یہ جاسوس لوگ ہیں اور کن سوئیاں لیتے پھر رہے ہین کہ کہیں گئو ماتا جی تو ذبح نہیں ہو رہیں ہیں؟

پاکستان کی جوش خروش سے بھرپور عید قرباں یاد آئی اور اس دن پاکستان کو بہت مس کیا اور ایک دم ہندوستان سے بھاگ جانے کو دل چاہا۔

چار دن بعد پاپا ہم لوگوں کو پٹنہ چھوڑ کر نیپال چلے گئے تاکہ وہاں سے پاکستان جانے کی سبیل کر سکیں۔ پاپا کے جانے کے بعد ہم لوگ پہلے جہان آباد اور پھر امی کے ماموں کے گاؤں دھمول گئے ۔ دھمول سب سے زیادہ entertainingتھا۔ نانا بس اسٹاپ پر ہم لوگوں کو لینے کے لیے ڈولی اور کہار سمیت آئے تھے مگر کوئی بھی ڈولی میں بیٹھنے کا روادار نہ تھا۔ سب نے پیدل ہی چلنے کو ترجیح دی۔ زندگی میں پہلی بار گاؤں میں رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ نانی کی انتہائی شفقت اور گاؤں کی سادہ زندگی اور گھر میں پلے گائے، بیل، بکری اور مرغیاں۔ میری تو بکری کے بچے کو دیکھتے ہی عید ہو گئی۔ بس بجلی کی کمی بہت کھلتی تھی مگر لالٹین کی روشنی کا بھی اپنا ہی فسوں تھا۔ سب سے حیران کن چیز وہاں صحن کے کونے میں بیری کے درخت کے نیچے بنا اوپن ایئر لیٹرین اور آنگن میں کنویں   کے قریب چارپائی گھیر کر نہانے کا رواج تھا۔ آپا اور زرین کے لیے اس طرح نہانا کارِ دشوار تھا سو ان کے نہانے کا بندوبست کمرے میں کیا گیا البتہ ہم اس اوپننگ ایئر باتھ روم سے  بہت محظوظ ہوئے ۔ گھر کی تازہ سبزی جسے پکاتے وقت پانی ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور اس کا ذائقہ ہی الگ تھا۔ سادی غذا اور بناوٹ سے عاری لوگ۔
وہیں گاؤں میں محرم کی مجلس میں شرکت کی اور گتکا (لاٹھیوں کا کھیل) کا مقابلہ پیٹرومیکس کی روشنی میں دیکھا۔ اس مقابلے کو دیکھنے کےلیے لڑکیوں کی تیاریاں اور لُکا چھپی والا رومانس، باخدا میرے لیے یہ سب کچھ بہت بہت تھرلنگ(thrilling) تھا۔ اس دن گاوں کے سارے بچوں اور اکثر لڑکیوں نے بھی سبز کرتے پہنے تھے۔

اسی گاوں میں ہم نے غربت میں جکڑی تین انتہائی حسین لڑکیاں بھی دیکھیں جن کے آگے شاعروں کی ساری تشبیہات بھی پھیکی تھیں مگر وہ غربت کے ہاتھوں گہنایا ہوا چاند تھیں اور کوئی ان کا طلب گار نہیں تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان میں لڑکوں کا باقاعدہ نرخ طے تھا، انٹر پاس لڑکے کے لیے جہیز میں سائیکل، اگر لڑکا بی۔ اے پاس ہے تو موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ اور انجینئر ڈاکٹر کے بھاؤ تو عرش معلیٰ کی خبر لاتے تھے۔
وہ دنیا میرے لیے کم از کم انتہائی حیران کن تھی۔ ہم پہ ہندوستان کا کوئی اچھا تاثر نہیں پڑا تھا۔
وہاں کے لوگ بےشک محبتی اور مہمان نواز مگر فرسودہ رسموں میں بری طرح جکڑے ہوئے۔

پھر کھٹمنڈو سے پاپا نے خالو ابا کو پٹنہ فون کیا کہ وہ ہم لوگوں کو لینے آ رہے ہیں۔ یوں ہم لوگ دھمول سے پٹنہ واپس آ گئے اور پٹنہ کا ہنستا مسکراتا عجائبات سے بھرا ٹرپ اختتام پذیر ہوا۔

پٹنہ سے روانگی بہت سوگوار تھی کہ میزبان، مہمان دونوں کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے پر بولتا کوئی نہیں تھا۔ دل بھر بھر آتا، آنکھیں ڈبڈبا جاتیں پر ضبط کا پہرا کڑا۔ نانا بھی دھمول سے امی کو رخصت کرنے آ گئے تھے۔ خالو ابا کے گھر بھی اداسی تھی۔ ہم لوگوں کی کیفیت عجیب تھی، اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور دل کے کسی گوشے میں دوبارہ پلٹ کے نہ آنے یقین  بھی پر ساتھ ہی انڈیا سے جان چھوٹنے کی خوشی اور پاکستان کی جانب قربت کی شادمانی بھی تھی۔ ملے جلےجذ بات تھے بار بار گلے ملا جاتا اور پیشانی پر محبت کا نم بوسہ ثبت ہوتا۔

پٹنہ سے نیپال کا سفر بڑا تحیر خیز رہا کہ اس سفر میں ریل گاڑی، اسٹیمر اور بس تینوں مینز آف ٹرانسپورٹیشن شامل رہے۔

پٹنہ سے ہم لوگ مہندر گھاٹ پہنچے۔ یہاں سے اسٹیمر میں بیٹھ کر حاجی پور گئے۔ تاریک رات میں اسٹیمر کا سفر ایک خوف زدہ کرنے والا تجربہ تھا۔ سرد ہوا اور لہروں کا شور ۔ ہم لوگ عرشے پر ہی لوہے کے بینچ پر سکڑ سمٹ کر بیٹھے تھے۔ حاجی پور کے گھاٹ پر اتر کر ریلوے اسٹیشن پہنچے اور اب منزل مظفر پور تھی۔ مظفر پور کے اسٹیشن پر اتر کر رکسول کے لیے بس لی اور بس سے نیپال کے سرحدی گاؤں بیر گنج پہنچے۔ سفر کا یہ حصہ سب سے زیادہ خطرناک کہ رکسول میں بس کی چیکنگ ہوتی اور جس کسی پر ذرا بھی شک ہوتا کہ یہ مشرقی پاکستان سے بھاگے ہوئے لوگ ہیں، انہیں بس سے اتار لیا جاتا۔ پھر ان بد قسمتوں کا نصیب قید اور دوبارہ بنگلہ دیش کی اسیری ہوتی۔ بس جب بیر گنج سے پہلے رکی تو ہم پانچوں کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ کہیں ہم لوگ پہچان نہ لیے جائیں، کہیں پکڑے نہ جائیں؟

چیکنگ کے دوران ایک سپاہی ہم لوگوں کی سیٹ پر آکر رکا، پاپا سے پوچھ گچھ شروع کی۔ جانے کیسے پاپا نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور اس سے معمول ہی کے مطابق بات چیت کی۔ بس کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھی دو بد قسمت پاکستانی فیملی  اتار لی گئیں ۔ ان مظلوموں کا بلکنا دیکھا نہ جاتا تھا۔ ہم نے خوف اور بےبسی سے امی کی گود میں منہ چھپا لیا۔ بس جب سرحد پر رکی تو ہم لوگ پیدل، دونوں ملکوں کے سرحد کا مختصر سا فاصلہ طے کر کے نیپال کے سرحدی گاؤں بیر گنج پہنچے ۔ نیپال کا سرکاری عملہ خوش خلق تھا اور محض رسمی کاروائی کے بعد ہم لوگوں کو جانے کا اشارہ کیا۔ سامنے ہی کھٹمنڈو لے جانے کے لیے خستہ ہال بس کھڑی تھی۔ پاپا نے جلدی سے ٹکٹ خریدی اور ہم لوگ کلمہ شکر ادا کرتے ہوئے بس میں سوار ہو گئے۔
ہم لوگ بچ گئے تھے اور اب ہم لوگ حقیقتاً آزاد تھے۔

بیر گنج سے بذریعہ بس کھٹمنڈو۔
یہ ایک طویل اور پُر خطر سفر تھا۔ بس(وہ بھی آثار قدیمہ) پہاڑوں کی اونچائی طے کرتی دائرے میں گھومتی گھوماتی سانپ جیسی پتلی بل کھاتی سڑک پر ہچکولے کھاتی اور کوئی کوئی موڑ تو اتنا خطرناک کہ کلیجہ منہ کو آ جائے۔ بس میں پن ڈراپ سائلنس تھا۔ ماہر ڈرائیور کی ماہرانہ استادی اور مسافروں کا یہ اعصاب شکن سفر بالآخر دس گھنٹوں کے بعد اپنی منزل مقصود پر بخیر و خوبی پہنچا۔ ہم سبھوں کا انجر پنجر ڈھیلا ہو چکا تھا اور بس اسٹاپ پر ہم گرد مٹی میں اٹے بھوت بن کر اترے تھے ۔

کھٹمنڈو اب جانے کیسا ہو؟پر 1973 میں کھٹمنڈو ایک صاف ستھرا مختصر سا قصباتی شہر ہی لگا تھا۔ چھوٹا سا ضروریات زندگی سے آراستہ پرسکون شہر جہاں دھیمی طبیعت کے با اخلاق لوگ مکین تھے پر وہاں غربت بہت تھی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ کسی کا دکھ کسی کے لیے خوشیاں فراہم کرتا ہے۔ ان دنوں نیپال کی معیشت ہم بے خانماں و برباد لوگوں کی وجہ سے عروج پر تھی۔ کھٹمنڈو میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ سارے ہوٹل بک تھے بلکہ لوگوں نے اپنے گھروں کے کمرے تک کرائے پر چڑھا دیے تھے پھر بھی لوگ سر چھپانے کو ٹھکانے کی تلاش میں سرگرداں رہتے ۔

پاپا پٹنہ سے کھٹمنڈو پہنچنے کے بعد اب تک جس ہوٹل میں رہتے آئے تھے وہ کمرہ انہوں نے خالی نہیں کیا تھا سو ہم لوگ بس اسٹینڈ سے ٹیکسی لیکر سیدھے ہوٹل پہنچے۔ بڑے اچھے علاقے میں یہ ہوٹل تھا اور ہوٹل سے ایک سیدھی سڑک بادشاہ کے دولت کدے تک جاتی تھی۔ ان دنوں نیپال کے راجا تھے
Mahendra Bir Bikram Shah Dev
(خدایا اتنا لمبا نام!  غریب نرسری میں تو اپنے نام کے ہجے یاد کرتے کرتے ہی سو جاتا ہو گا۔)

یہ دو منزلہ ہوٹل تھا اور اس میں اکثریت ان غیر ملکیوں کی تھی جنہیں شمبھو ناتھ مندر کے سونے کے کلس کی چمک اور ہشیش اور گانجے کی کشش سات سمندر پار سےکھنچ لاتی تھی۔
ہوٹل دو منزلہ تھا اور تیسری منزل پر دو بہت چھوٹے چھوٹے کمرے اور ایک ٹین کی چھت والا ادھورا کمرہ تھا۔ اس تیسری منزل پر کاٹھ کباڑ رکھا جاتا مگر اس دور پر آشوب میں اس تیسری منزل کی قسمت بھی چمک گئی  تھی اور وہ بھی منہ مانگے داموں پر کرائے پر چڑھے ہوئے تھے۔ ہم لوگوں کا ٹھکانہ اسی تیسری منزل کا بائیں ہاتھ والا مختصر ترین کمرہ تھا۔ اس فلور پر غسل خانے نہیں تھے۔ کڑاکے کی سردی میں بھی غسل خانوں میں گرم پانی کی سہولت میسر نہیں تھی۔

باتھ روم کے استعمال میں وقت کی اہمیت بہت معنی خیز تھی سو ہم لوگ فجر کے وقت ہی ضروریات سے فارغ ہو جاتے تھے۔ پانی اس قدر یخ کہ  جس عضو پر گرے وہ حصہ ہر احساس سے عاری ہو جاتا اور کہیں جا کر فجر کی سنت پڑھنے کے دوران اپنا جسم صحیح معنوں میں محسوس ہونا شروع ہوتا۔ غسل کے لیے گرم پانی صرف پاپا اور زرین کے لیے خریدا جاتا تھا۔ باورچی خانے جاکر گوپال سے گرم پانی کے لیے کہتے اور دس منٹ میں وہ چھوٹا سا لڑکا برق رفتاری سے گرم پانی سے لبریز بڑی سی کیتلی لے کر حاضر ہو جاتا ۔

کھانا ہم لوگ ہوٹل میں نہیں کھاتے تھے۔ پاپا نے مینجر سے اجازت لے لی تھی سو امی کھلی چھت پر کھانا پکاتی تھیں۔ بارش میں بڑی مشکل ہو جاتی کہ اس مختصر ترین کمرے میں کچن کو بھی سمانا پڑتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے باقی دونوں کمرے بھی آباد ہو گئے۔ بڑے والے کمرے میں قیوم چچا اور چھوٹے کمرے میں علی چچا آ گئے اور سب کی سنگت میں بہت اچھا وقت گزرا۔

کھٹمنڈو  پہنچ  کر مانو گھوڑے کی طرح ہم لوگوں کے کانوں کو بھی ہوا لگ گئی تھی۔ ہوٹل میں نچلہ بیٹھا ہی نہیں جاتا تھا۔ حبس بے جا سے چھوٹے ہوئے قیدی کی مانند وہاں خوب روڈ ماسٹری کی۔

سمجھو پورا کھٹمنڈو گیارہ نمبر (ٹانگوں) کے سہارے چھان لیا۔ وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کوئی لڑکیوں کو چھیڑنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا کہ شکایت پر مجرم کی ٹنڈ کر کے تین یوم کے لیے جیل میں بند کر دیا جاتا اور جیل میں بھی سرکاری ضیافت نہیں بلکہ گھر سے کھانا منگواؤ ورنہ بھوکے سو۔ غربت وہاں ویسے ہی بہت تھی۔ سو ہم لڑکیوں کے عیش تھے جی بھر کر مٹر گشتی کی۔ قیوم چچا کی تینوں بیٹیاں پروین باجی، نازنین باجی اور یاسمین اور ہم تینوں بہنیں اور علی چچا کی بیٹی نغمہ ہم سب ان دنوں جہان گرد بنے ہوئے تھے۔
گزرے کل کے غم کو بھول کر آنے والے کل سے بےنیاز آج میں پوری شادمانی سے جی رہے تھے۔ شاید اس لیے بھی کہ اب کھونے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا اور موت کو اتنے قریب سے دیکھا تھا کہ زندگی عزیز تر ہو گئی تھی۔

چھوٹا سا کھٹمنڈو بھی گویا مری کی مال روڈ تھی جہاں ہر چار قدم پر کوئی نہ کوئی جاننے والا یا بچھڑا رشتہ دار مل جاتا اور پھر لٹنے اور اجڑنے کی کتھا شروع ہو جاتی۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھے جاتے اور آپس میں ہوٹلوں اور پاکستان کے رہائشی پتے ٹھکانے کا تبادلہ ہوتا۔

اللہ حکومت پاکستان کو ترقی دے کہ اس نے ان دنوں ہر پاکستانی کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا گو کہ بہت کم تھا مگر کیوں کے لیے زندگی کا آسرا۔
کھٹمنڈو پاکستان ایمبیسی میں رش لگا رہتا کہ چاٹر جہاز سے پاکستان جانے والوں کے ناموں کی فہرست وہیں لگا کرتی تھی۔ جن کے نام آ جاتے ان کو مبارک سلامت دی جاتی اور پاکستان جانے والا خوش نصیب، پیچھے رہ جانے والوں کو تسلی اور دعا کی سوغات دیتا ہوا خوشی خوشی رخصت لیتا۔ پاکستان سے اپنوں کے خطوط بھی ایمبیسی ہی میں آتے تھے سو سب کی روزانہ کی ایمبیسی یاترا لازمی تھی۔
وہیں کسی دکان سے پاپا آٹھ آنے کا کھویا لایا کرتے تھے اور امی اس میں چینی ملا کر ایسے شاندار پیڑے بناتیں کہ بندہ انگلیاں ہی چاٹتا رہ جائے۔ پھول گوبھی اس قدر خوبصورت کے گلدان میں سجا دو۔ میٹھی اور مکھن کی طرح ملائم۔ امی کے بناتے بناتے ہم جانے اس کے کتنے پھول چٹ کر جاتے تھے۔

پاپا ہم لوگوں کو شنبھو ناتھ مندر(Swayambhu ) بھی دکھانے لے گے تھے۔ کافی طویل اور اونچائی پر چڑھنے کے بعد مرکزی استھان آتا تھا۔ اس مندر کا سونے کا کلس دھوپ میں اس قدر چمکتا تھا کہ آنکھیں چندیا جاتی تھیں۔ مندر کے مینارے کے چاروں طرف دو دو آنکھیں بنی ہوئی تھیں اور ان دو آنکھوں کے اوپر ایک تیسری آنکھ جو باطن کی یا وجدان کی آنکھ تھی۔ مندر کے احاطے

میں بندر اور گوروں کی بہتات تھی اور ہر سو چرس اور گانجےکی بدبو کہ سانس لینا محال۔
مندر کے اندر اکثریت بدھ بھکشو کی تھی جن کی خاموشی اور سراپے پہ چھائے سکوت و جمود کی وجہ سے ان پر بھی کسی بت ہی کا گمان ہوتا تھا۔

کھٹمنڈو میں سردی تھی، ہوا میں خنکی اور سکوت۔ ہم لوگ کے پاس بے بسی سے دن گنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔ منتظر تھے کہ کب پاکستان جانے والوں کی فہرست میں ہم لوگوں کا نام آئے گا؟
کب یہ مسلط کردہ جلا وطنی ختم ہو گی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے سامان کو باندھے ہوئے اس سوچ میں ہوں
جو کہیں کے نہیں رہتے، وہ کہاں جاتے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply