• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کامریڈ محمد عامر حسینی کا مبارک قاضی کی وفات پر بلوچستان کے محنت کشوں کے نام پُرسہ

کامریڈ محمد عامر حسینی کا مبارک قاضی کی وفات پر بلوچستان کے محنت کشوں کے نام پُرسہ

پیارے کامریڈ ذوالفقار علی زلفی،
لال سلام
آج بلوچستان کے قومی شاعر مبارک قاضی بارے اپنی ایک پوسٹ کو فیس بک پر تمہاری وال پر کاپی پیسٹ دیکھا تو میرے دل کو کچھ ہونے لگا۔ خوف نے مجھے گھير لیا۔ اور میرے لبوں پر سید ضمیر حسین جعفری کی لکھی نظم کا مصرعہ آگیا،
یا الٰہی! مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
اور خبر تو سچی ثابت ہوگئی اور میں غم و اندوہ میں ڈوب گیا۔ مبارک قاضی جیسا ہمت کا پہاڑ میں نے کم ہی دیکھا جس نے اپنے ڈاکٹر بیٹے کے ‘مسلح مزاحمت کے راستے پر چل نکلنے اور اس راہ میں اپنی جان دینے’ کے عزم سے سرشار ہونے پر یوں خراج تحسین پیش کیا تھا،
کبھی کبھی میں کمبر سے سرِ راہ ملتا ہوں
اس سے کہتا ہوں یہ منہ زور موجیں تمہیں بہا لے جائیں گی
میرے لیے عجیب نہیں ہے کہ تم ابھی تک سلامت ہو
لیکن یہ جنگ قیامت تک چلتی رہے گی اور اسے چلنا چاہیے

اور پھر ان کی کہی بات سچ ہوئی, ظلم و جبر کی منہ زور لہریں ان کے نوجوان بیٹے کو بہا لے گئیں اور ان کی اس کے سلامت رہ جانے پر در آنے والی ‘حیرانی’ بھی ختم ہوگئی – کسی باپ کا اپنے بیٹے کی موت کا تصور پہلے سے کرلینا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کامریڈ مبارک قاضی نے حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائیں۔ انہیں پتا تھا کہ ‘ریاست سے ٹکرانے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

میں سوچ رہا تھا کہ اپنے عوامی مزاحمتی شاعر کی وفات پر کس کو پُرسہ دوں ، کس سے تعزیت کروں؟ کیونکہ چاہتا تھا کہ یہ تعزیت کسی ایسے شخص سے کروں جو بندوبست پنجاب سے میری اس تعزیت کو بلوچستان کے محنت کش طبقات بشمول مزدور، کسانوں اور طالب علموں تک پہنچادے اور بلوچ قوم کے سب سچے ایماندار شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں سے میری طرف سے تعزیت اور پرسے کو پہنچائے۔

پیارے کامریڈ،
تم میرے جیسے لوگوں کے لیے بلوچ محنت کش طبقات اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے انقلابیوں بارے معلومات کے لیے ‘قاموس’ ہو۔ اور ہمارے اندر بلوچستان کے حوالے سے جتنی روشنی ہے اس کا بڑا حصّہ تمہاری تحریروں سے ہمارے اندر ہے جس پر میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ فیس بک مجھے جن وجوہات کے سبب ایک بیش بہا اثاثہ لگتی ہے، ان میں سے ایک وجہ یہاں تمہاری موجودگی ہے۔

میں چاہتا ہوں بندوبست پنجاب میں رہنے والی دو بڑی اقوام پنجابی اور سرائیکی کی نوجوان نسل نہ صرف بلوچ، سندھی، پشتون کی عوامی تاریخ سے اچھے سے واقف ہوں بلکہ وہ اپنی عوامی تاریخ کو اچھے سے جان لے ۔ میرا یہ خواب نجانے کب پورا ہوگا ، لیکن ایک دن ہوگا ضرور اور اس دن مہا پنجابی قوم کے محنت کش طبقات اپنی قوم کے ظالم حکمران طبقے کو نیست و نابود کردیں گے۔ مجھے یقین ہے ایک دن آئے گا جب برصغیر ایک سوشلسٹ کنفیڈریشن بنے گا اور ظلم و ستم اور استحصال کا خاتمہ ہوگا۔ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کی کہانی ختم ہوگی – تم مجھے خواب گر کہہ سکتے ہو، جیسے جان لینن کو لوگ کہتے تھے اور جواب میں وہ جو کہتا تھا، میں بھی وہی کہوں گا کہ خواب گر ایک میں ہی تو نہیں ہوں، اس جہان میں، اور بہت سے ہیں۔

پیارے کامریڈ،
آج میرے سندھی کامریڈ نے جب کہا کہ
شاید پنجاب کے دوست اس بات کو کبھی بھی سمجھ نہ پائیں کہ سندھ کی آزادی کی بات کرنے والے جمن دربدر اور بلوچستان کی آزادی کی بات کرنے والے مبارک قاضی جیسے شاعروں کی اموات کو دونوں اقوام کے لوگ، سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوجود کیونکر اپنا نقصان ظاہر کررہے ہیں، اس کے لیے آپ کو سول اور فوجی آمریتوں کا جبر سہتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جس سے بدقسمتی سے پنجاب اپریل 1919 میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے بعد گزرا نہیں ہے۔

میں اس بات پر تھوڑا سا سٹپٹایا، مجھے تھوڑا برا بھی لگا، پھر میں نے جب یہ دیکھا کہ بندوبست پنجاب میں رہنے والوں میں مشکل سے پانچ لوگ بھی مجھے اپنے فیس بک دوستوں اور ٹوئٹر پر فالو کرنے والے یا جنھیں میں فالو کرتا ہوں مبارک قاضی کی وفات پر تعزیت کرتے نظر نہیں آئے، جمن درد کے گزر جانے پر بھی انہیں یہ سانحہ خود پرگزرنے والا نہیں لگا تھا۔ ایسے میں اگر اسلم خواجہ کو میں بھگت سنگھ سے لیکر ایوب خان اور جنرل ضیآء الحق کے دور میں جان سے گورنے والوں ، شاہی قلعے لاہور کی جیل کاٹنے والوں، خفیہ اذیت خانوں میں پھینک دیے جانے والوں کے نام گنواؤں اور ہندوستان چھوڑ دو سے لیکر وہ ساری تحریکیں جو اس ملک میں جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے چلیں ان میں بندوبست پنجاب میں ان مزدوروں، کسانوں ، طالب علموں، سیاسی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں کی یاد دلاؤں جنھوں نے اپنا سب کچھ ان میں گنوادیا اور آج ان میں سے 99 فیصد اس دنیا سے گزر گئے اور پیچھے ان کے خاندان عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ لیکن میں نے سوچا کہ یہ سب تو کامریڈ اسلم خواجہ کو پہلے سےپتا ہے۔ اس نے اگر پلٹ کر مجھ سے یہ پوچھ لیا کہ ‘اب کیا ہے؟’ یہ بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔ تو مجھے کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے میں نے اس کے اسٹیٹس کو بس بدلنے میں عافیت جانی اور اسے چتاونی دینے سے باز رہا۔

لیکن پیارے کامریڈ، میں تمہیں ایک امید پرست بات ضرور بتاؤں گا، چاہے تمہیں یقین آئے یا نہ آئے۔ بندوبست پنجاب میں ایسا نہیں ہے کہ مکمل تاریکی ہے اور کہیں کوئی امید کی کرن نہیں ہے۔ میں آج جب ملتان اپنے اخبار کے دفتر سے واپس لوٹ رہا تھا تو مجھے اپنے کامریڈ دوست اسد پتافی کے بیٹے کامریڈ راول کی کال آئی ۔ میں ان کے دفتر چلا گیا اور وہاں ایسے دیوانے نوجوان مجھے ملے جو استحصال، ظلم، جبر کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کے قافلے میں شامل ہیں اور وہ سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ ‘کیا ہورہا ہے؟’ ‘کون کررہا ہے؟’ اور ‘کیوں کیا جارہا ہے؟’ اور حل کیا ہے؟ ویسے یہ تین سوال اٹھانا بھی تاریکی سے روشنی کی طرف آنے کا پہلا قدم ہوا کرتا ہے۔ میں مایوس نہیں ہوں۔ اور میں جانتا ہوں ہم سب اس گروہ سے ہیں جو کسی بھی طرح کے شاؤنزم پر نہ تو یقین رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی سے نفرت کرنے کا سوچ سکتا ہے۔

کامریڈ مبارک قاضی کو میری طرف سے لال سلام، اور ان کے سب سوگواروں سے میری طرف سے تعزیت اور میں ان کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتا ہوں ۔ اپنا بہت خیال رکھیے، بہن طاہرہ کو میری طرف سے سلام دیچیے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے اس تعزیت نامے کا اختتام میں مبارک قاضی کے ان اشعار پر کرتا ہوں جو انھوں نے بانک کریمہ بلوچ کی شہادت پر لکھے تھے ، اور اس میں ‘بلوچ’ کو میں ‘عوام’ بھی پڑھتا ہوں
اجنبیوں نے یہاں سونے کے قلعے و محل تعمیر کئے ہیں
بلوچ ایک بار پھر عذاب ہیں میرے وطن میں
پھر جھوٹ کو سچ کا نام دیا جارہا ہے میرے وطن میں
پھر حرام کو حلال منوایا جارہا ہے میرے وطن میں
چہار جانب سیاہ رات کی حکمرانی ہے میرے وطن میں
پھر اندھیرے چراغ نگلنے آئے ہیں میرے وطن میں
کامریڈ مبارک قاضی امر رہے
لال سلام، سوشلزم زندہ باد
آپ کا کامریڈ عامر حسینی
**********
کامریڈ عامر حسینی اردو بولنے والے سرائیکی کمیونسٹ ہیں ـ ان کی سیاسی وابستگی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے **

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply