ہیں من کے اضطراب یہ(ایک خوبصورت شعری مجموعہ)/قمر رحیم خان

میرے بچپن کے دنوں میں راولاکوٹ شہر ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ایاز مارکیٹ کی جگہ ہرے بھرے کھیت تھے۔ان کھیتوں سے ایک راستہ گزرتا تھا۔ جس کے بائیں طرف میرے نانا کا مکان تھا۔نیشنل بنک، الریاض ہوٹل اورایکسچینج کی عمارتیں بعد میں بنیں۔ نانا اس گھر میں شفٹ ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ہماری چھوٹی نانی خوبصورت، شفیق، تہجد گزار اور نیک خاتون تھیں۔وسیم خالہ ان کی اکلوتی اولادمجھ سے چند ہی سال بڑی تھیں۔ نعیم خان میری نانی کے سگے بھانجے تھے۔ وہ اپنے والد یاسین صاحب کے ساتھ کبھی کبھار وہا ں آتے تھے۔ پھر وہ کہیں آگے پیچھے ہو گئے۔ اور تقریباً چالیس سال بعد جب میں اپنے بچوں کو ان کے سکول میں داخل کروانے گیا تو ملاقات ہوئی۔ انگریزی لباس میں ملبوس کلین شیواور خوبرو نعیم خان سے مل کر میں اپنے بچپن کو گلے لگائے ان کے آفس سے نکل آیا۔ بعد میں پتہ چلا ان کا ایک اور سکول بھی ہے۔پھر کسی نے بتایا وہ لکھتے بھی ہیں۔ سوچابچوں کے امتحانی پیپر لکھتے ہوں گے۔
لکھنے لکھانے کی موذی بیماری کی وجہ سے عرب امارات میں بھی مجھے کم ہی لوگ جانتے تھے۔یہ تعارف غائبانہ تھا اور وہ بھی اس لیے کہ میری کوئی تحریر پڑھ کر ان کا دل پشوری ہو جاتا تھا۔ حقیقت بھی یہی تھی اور لکھنے لکھانے سے میرا واسطہ بھی اتنا ہی ہے۔ غیر پارلیمانی گفتگو اور ایسی ہی لکھائی۔ بس یہی دو شوق تھے، پورے نہ ہو سکے۔ افسوس، صد افسوس! فتووں کے ڈر سے لکھائی چھوڑ دی اور گفتگو کے لیے دوستوں کی جگہ مقتدیوں نے لے لی۔ مہینے میں دو بار شکار کی تلاش میں نکلتا، کھیریاں پاچھیوٹ والے شاہد اختر صاحب میری مدد کرتے۔ سجاد افضل صاحب کی پارٹی (نام بھول رہا ہوں)کے کچھ نوجوان مصفح ابو ظہبی کے ایک بڑے کمرے میں رہتے تھے۔ ان کے بھائی زاہد افضل بھی ان کے ممبر تھے۔ شاہد صاحب مجھے زاہد افضل سے ملنے کے بہانے وہاں لے جاتے۔یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ ویک اینڈ پہ شب بیداری کے لیے مناسب جگہ تھی۔ پہلی بار گئے تو وہ لوگ سونے کی تیاری کر رہے تھے۔مجھے دیکھ کر سب باری باری وضو کر کہ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے۔ میں نے مایوسی کے عالم میں شاہد صاحب سے پوچھا، ختم شریف پڑھیں گے؟ جب گفتگو شروع ہوئی تو اکثروں کا وضو ہی ٹوٹ گیا۔
کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا نعیم خان صاحب کو بھی ہوا۔ حسین خان شہید پی جی سی راولاکوٹ میں سہ روزہ ادبی تقریبات کے آخری دن پہاڑی مشاعرہ تھا۔ نعیم خان دیر سے پہنچے اور آخری شاعر ٹھہرے۔ چائے کے بعد مہمان ٹولیوں میں مصروف گفتگو تھے اور میں وہاں سے دفع ہونے ہی والا تھا کہ ایک فون آگیا۔ کسی اور کے فون سے نعیم خان مخاطب تھے۔ عرض کیا، جناب میں تو ادھر ہی ہوں بنفس نفیس شرف ملاقات بخشیے، فون کی زحمت کیوں؟ وہ سامنے لان میں اور میں برآمدے میں تھا۔ میں ان کے پاس پہنچا۔ وہ میرے سامنے کھڑے مجھ سے فون پر بات کر رہے تھے۔ اور میں ان کی بات براہ راست اوربالواسطہ سن رہا تھا۔ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
جی آپ کون؟
جی میں ہی قمر رحیم ہوں۔ میرے جواب پر بلا مبالغہ انہیں جھٹکا لگا۔یقینا سوچا ہو گا، کیا دقیانوسی ہے؟سراپا حیران ……تھوڑی دیردیکھتے رہے۔ حیرت کا کڑوا گھونٹ ان کے حلق سے اترتے ہوئے صاف نظر آرہا تھا۔پھر وہ مایوس ہوئے۔ مایوسی کا گھونٹ بھی پیا اور مشکل سے گویا ہوئے۔ ”میں نے آپ کے لیے کتاب مہتاب صاحب کو دے دی ہے، وہ آپ تک پہنچا دیں گے“۔
بڑی نوازش، بہت شکریہ۔میں بھی آخر انسان تھا۔ اتنا ہی کہہ سکا۔
اس دن میں نے سنجیدگی سے سوچا، یا تولکھنا چھوڑ دوں یا داڑھی ٹوپی چھوڑ دوں۔ فاروق صابر صاحب پہ ترس کھا کر خاموش ہو گیا۔ بچارے اکیلے رہ جائیں گے۔
کوئی ایک ماہ بعد پھر کالج جانا ہوا۔ مہتاب ہمارے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ شکل کی بجائے نام سے پہچانا۔محبت سے ملے، لائبریری لے گئے اور نعیم صاحب کی کتاب حوالے کی۔ ”ہیں من کے اضطراب یہ“۔
میں پہاپا کریم کے کھوتے کی طرح بِدک کررہ گیا۔شاعری کی کتاب ہے؟ میں نے مہتاب سے پوچھا۔”جی جی شاعری کی کتاب ہے“۔
سچ میں یہ میرے لیے امتحانی پرچہ ہے۔ ”بھینس کے آگے بین بجانا“۔ اس محاورے کی جو سمجھ آج آئی، ماسٹر رشید صاحب مرحوم و مغفور کے ڈنڈوں سے نہیں آئی۔ اس طرح کے حادثے اگر زندگی میں ہوتے رہتے تو آج میں کتنا عقل مند ہو چکا ہو تا۔
میرے خیال میں اب مجھے اپنی بکواس ختم کر دینی چاہیے۔ آئیے نعیم خان کو سنتے ہیں۔
غم نہاں نہیں فقط، غم جہاں ہے زندگی / تمام سمت خیمہ زن ہیں من کے اضطراب یہ
تمناؤں کے آنگن میں تمہارے ہجر کا موسم / سسکتے رہتے ہیں ہر پل یہی صدمات آنکھوں میں
حالات،واقعات اور واردات ہا اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ شعر خاصا پرانا ہے۔ چلیے جب تک وصل پہ کوئی شعرملے کچھ اور اشعار دیکھتے ہیں۔
ضروری تو نہیں ساحل پہ اتریں تیرنے والے / سر ساحل بھی کچھ قسمت کے مارے ڈوب جاتے ہیں
یہ شعر اگر پراناہے تواچھا ہے، نیا ہے تو فتنہ ہے۔
لیجیے وصل کا شعر ملاحظہ ہو۔
بنایا دیوتا اس کوعبادت کی پھر ہم نے یوں / جہاں اس نے قدم رکھا، وہاں ہم نے جبیں رکھ دی
طلاطم میں لبِ دریا کنارے ڈوب جاتے ہیں / سہاروں پہ جو تکیہ ہو، سہارے ڈوب جاتے ہیں
نعیم اپنا مقدر بے نیازِ غم نہیں لیکن / زمانے کے غموں میں غم ہمارے ڈوب جاتے ہیں
میں خود کو وقت پیری میں بھی پھر سے نوجواں کر دوں / تمہاری سب اداؤں کو جو شعروں میں بیاں کر دوں
نگاہ مرد خود آگاہ میسر ہو تو ہر آنسو / گوہر بنتا ہے ورنہ گریہ سب بیکار جاتا ہے
اس شعر کی خوبصورتی ملاحظہ کیجیے۔
جہاں نفرتوں میں جہاں مٹ گیا ہے / واں میرا بھی تھا اک مکاں مٹ گیا ہے
نعیم صاحب استاد ہیں، دو سکولوں کے سرپرست ہیں۔پی ٹی آئی کے سرگرم کارکن ہیں اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ڈسٹرکٹ کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔ اب ان کی مصروفیت بہت بڑھ گئی ہے۔ شاید اسی لیے کہہ رہے ہیں۔
میسر زندگی میں اب بہت سے کام کرنے ہیں / یہ جتنے میرے سپنے ہیں وہ تیرے نام کرنے ہیں
شاعری ادب کی خوبصورت ترین صنف ہے۔خوبصورت دل و دماغ والوں کا کام ہے۔ اور شایدسب سے زیادہ پڑھی اور پسند کی جانے والی صنف بھی ہے۔ پڑھنے اور پسند کرنے سے زیادہ شاعری سے اپنا کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ اس لیے کتاب اور صاحب کتاب کے تعارف سے زیادہ لکھنا اپنے بس میں نہیں۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ نعیم خان ایک خوبصورت اور باکمال شاعر ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’اپنا تعارف آپ ہوا بہار کی ہے‘۔ نعیم خان کااصل تعارف ان کی شاعری ہے۔ ان کا اضطراب پڑھ کر دلی خوشی ہوئی ہے۔ اور یقین جانیے ا س خوشی کو بیان کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ ان کے آخری دو شعر نقل کرتے ہوئے میں انہیں دل کی تمام تر گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے ان کے اگلے شعری مجموعے کا انتظار رہے گا۔
نعیم خان کہتے ہیں۔
ترے فرمان کے آگے، مرے ہیجان کے آگے / مری ہستی ہوئی ہے آکھڑی طوفان کے آگے
جئے جاتے ہیں ہم لیکن ہے جینا کس قدر مشکل / ترے بندوں کی دنیا میں ترے انسان کے آگے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply