• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • مچھلی کھانے کی عادت امراضِ قلب سے محفوظ رکھنے میں کتنی معاون ہے؟

مچھلی کھانے کی عادت امراضِ قلب سے محفوظ رکھنے میں کتنی معاون ہے؟

امراض قلب سےہرسال دنیابھرمیں سب سےزیادہ اموات ہوتی ہےمگرماہرین کی تحقیق کےمطابق مچھلی کھانے کی عادت امراض قلب سے تحفظ فراہم کر تی ہے۔
تفصیلات کےمطابق امراض قلب ایک سنگین مسئلہ ہےاس بیماری کی وجہ سےہرسال دنیابھرمیں سب سےزیادہ اموات ہوتی ہے۔
دل کی صحت سے جڑے مسائل بشمول ہارٹ اٹیک، دل کی دھڑکن کی رفتار میں بے ترتیبی، فالج یا اس عضو کے مختلف حصوں کو پہنچنے والے ہر قسم کے نقصان کے لیے امراض قلب کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔مگر مچھلی کھانے کی عادت امراض قلب سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
جرنل سرکولیشن میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ جن افراد کے قریبی رشتے داروں کو امراض قلب کا سامنا ہوتا ہے، وہ مچھلی کو اکثر کھا کر دل کی بیماریوں کا خطرہ کم کر سکتے ہیں۔
تحقیق میں 40 ہزار ایسے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جو امراض قلب سے محفوظ تھے۔
ان افراد کی صحت کا جائزہ کئی سال تک لیا گیا جس دوران لگ بھگ 8 ہزار میں امراض قلب کی تشخیص ہوئی۔ان افراد کے جسم میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی سطح کی بھی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ خاندان میں امراض قلب کی تاریخ سے کسی فرد ان بیماریوں کا خطرہ25 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح جسم میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی کمی سے بھی امراض قلب سے متاثر ہونے کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔مچھلی میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جبکہ ہمارا جسم اسے قدرتی طور پر بنانے سے قاصر ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ امراض قلب کسی حد تک موروثی بھی ہوتے ہیں مگر اس حوالے سے جینز کے ساتھ ساتھ طرز زندگی کے عناصر بھی کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ خاندان میں امراض قلب کی تاریخ سے لاحق ہونے والے خطرے کو مچھلی کھانے سے کم کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خون میں فیٹی ایسڈز کی سطح سے امراض قلب کے خطرے کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔
محققین کے مطابق مچھلی کھانے سے جسم میں فیٹی ایسڈز کی مقدار بڑھتی ہے جس سے امراض قلب سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply