رت آگئی رے،رت چھا گئی رے۔پیلی پیلی سرسوں پھولے (2)

رت آگئی رے،رت چھا گئی رے۔پیلی پیلی سرسوں پھولے
گذشتہ سے پیوستہ
وہی خالصہ کالج جس کی بِنا تیجا سنگھ سمندری نے رکھی تھی۔ نئی نسل تو واقف بھی نہیں ہوگی کہاں واقع ہے؟ تو بتائے دیتا ہوں ،وہیں پر ہی واقع ہے جہاں سنگ بنیاد رکھا گیاتھا۔اس غریب عمارت نے کہاں جانا تھا۔ بس اس کا نام بدل کر میونسپل ڈگری کالج رکھ دیا گیا ۔ بعینہ عربی تیل اور فنڈز کی ریل پیل پرلائل پور کا نام مشرف بہ اسلام کرکےفیصل آباد رکھ دیا گیا ۔فنڈزتو سارے کہیں اور لگ گئے ، نام ہمارے ساتھ چمٹ گیا۔خیر یہ توجملہ معترضہ تھا جو کسی پھندنے کی طرح اِدھر اُدھر ہل ہلا کر مضمون میں گھس آیا۔ واپس رانا عامر کے ڈیرے پر چلتے ہیں جہاں اس کے پالتو گھوڑے گھوڑیوں کی سواری بادِ بہاری ہمارے انتظار میں تھی۔
رانا صاحب تب بحیثیت اسٹوڈنٹ یونیورسٹی کی نیزہ باز اور گھڑ سوار ٹیم کا سرگرم رکن تھے اور آج بھی ہیں ۔ اب بطورپروفیسر آپ کبھی کبھار وقت دے دیتےہیں اپنے تلامیذ کوجب جب میسر ہو۔ شوقِ اسپِ تازی ہر چیز پر بازی لے گیا ہے ۔ دوسرا راجپوتی خون جو گھوڑے کی ننگی پشت پر سواری کرکے گرمی اور گردش پاتا تھا اس کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں اب بھی برقرار ہے۔
ڈیرے پردوستوں کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ نوے نکور ڈبی دارکھیس ،کھرےبان کی چارپائیوں کے ادوائن کےاوپر ڈال کر ٹیک لگانے کےلئے گول تکیے لگے دیکھ کر وہیں لم لیٹ ہونے کو دل کیا۔ مگر ابھی تو گاؤں کے اطراف پھیلے ان حسین نظاروں کو دیکھنا تھا اور گاؤں کی گلیوں میں بکھری ہوئی سوندھی خوشبو کو سمیٹ کر اپنے دامن میں بسانا تھا ۔پگڈندیوں پر چلتے ان کھیتوں کو جہاں گندم کی بالیاں ،سرسوں کے پیلے پیلے پھول اور پھلیوں کو پھولتے دیکھنا تھا ۔
ایک عدد گھوڑی جو نوآموز وارفتگان کو برداشت کرلیتی تھی مطلب سوار کو خوار کم کرتی تھی اس کام کے لئے حاضر کر دی گئی۔ دوست جو اس وقت ساتھ تھے ان میں ایک اور راجپوت تھے جواس پر سواری کے لئے بے تاب تھے،ان کو سوار کروا کر باگ تھما دی گئی۔ اور گھوڑی کو آہستگی سے ایڑ لگا کر دلکی چلانے کا کہا گیا، گاؤں کی بیرونی کچی سڑک کے ساتھ ساتھ بیس لائن پر گاؤں کا چکر لگاتے ہوئے کوئی پندرہ منٹ بعد جناب جب واپس آرہے تھے تو گھوڑی کو اپنا تھان نظر آیا تو اس کی رفتار موڑ پر مڑنے سے پہلے تیز ہوگئی ،اب جو اس نے موڑ پر ٹرن لیا تو سوارگھوڑے کی پشت سےایک میزائل کی طرح سیدھے برسیم کے کھیت میں لینڈ کرگیا۔خیریت رہی کہ فصل چھوٹی چھوٹی اور زمین نرم تھی اس لئے کوئی چوٹ نہیں لگی ۔گھوڑی اپنا سوار گرا کر واپس آگئی تھی۔ توجیہہ وہاں پر موجود سائیس نے یہ دی کہ ایک تو اجنبی سوار تھا اور نوآموز تھا ۔ باگ کو ٹھیک طریقے سے نہیں پکڑ رکھا تھا ۔ دوسرا جب بھی مویشیوں کو اپنا تھان نظر ٓاتا ہے تو ان کی رفتار خود بخود تیز ہوجاتی ہے ۔اس پتے کی بات کو ہم نے اچھی طرح سے پلے باندھ لیا تاکہ اپنی باری پر اس صورتحال سے بچ سکیں۔ قوموں کی زندگی میں بھی جب تیز رفتاری سے موڑ آرہے ہوں تو ان موقعوں پر احتیاط کرنے کی ضرورت ذیادہ ہوتی ہے ۔بےشک عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
مجھ سے پوچھا گیا ،"تیار ہیں"؟ "ہاں جی میں تو تیار ہوں گھوڑی سے پوچھ لیں." میں نے جواب دیا۔"گھوڑی پر سواری کرنی ہے ،کوئی شادی کرنے کے لئے نہیں بیٹھ رہے جو ابھی سے ہاں کہنے کی تیاری یا پریکٹس کررہے ہو"، جواب ملا۔ خیر جب سائیس نے ہاتھوں کی بک* بنا کر ہمیں اچھال کر بٹھانے کی کوش کی تو پشت سے سرک کر دوسری طرف جا کھڑے ہوئے مگر دوسری دفعہ کامیاب رہے ۔ باگ پکڑ کر گردن پر ایک تھاپی* دی اوراس کی کنوتیوں کے پاس منہ لاکر اپنی طرف سے پوری یقین دلانے کی کوشش کی کہ بے فکر رہو،کچھ نہیں کہا جائے گا بس گرانا نہیں۔بدخواہ اسے گھوڑی کے کان میں منت ترلا کا جھوٹا پراپیگنڈہ جتنا مرضی کہتے رہیں۔ آپ ہماری بات کو ہی سچ مانیں اور سوار نکل کھڑا ہوا۔ گاؤں کی حد کے ساتھ کچھ مزارعین کے گھر تھے جب ان کے پاس پہنچے تو ایک اڈھیر عمر خاتون گھوڑے کے سامنے آگئی ،بڑی مشکل سے اسےاور اپنے آپ کو گرنے سے بچایا ،بولی ،وے سوارا میرا بچےکو کھانسی ہے کوئی دوا دارو کے بارے بتادو، میں نے کہا مائی اسے کسی ڈاکٹر کو دکھاؤ،میں کیا بتا سکتا ہوں ۔اور آگے نکل گیا ۔ایک اور صاحب اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیے تو کنی کترا کر تیزی سے نکل لیا۔ واپس پہنچنے پر جب برسبیل تذکرہ اس خاتون کا ذکر کیا تو سائیس بولا،توہم پرست لوگوں میں یہ رائج ہےکہ اگر گھڑ سوار سے اپنی کسی تکلیف کا حل پوچھا جائے تو مصیبت پوچھنے والےکےسرسے اتر کر سوار یا گھوڑے کے گلے پڑجاتی ہے ۔ اللہ رے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور اب بھی علاج تعویذ گنڈوں اور توہمات سے ہورہا ہے ، دکھ تو یہ ہے کہ ایسے ٹوٹکوں سےلوگ ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں۔اندھا اعتقاد بھی کیا بری چیز ہے۔
دوپہر کے کھانے کا انتظام حویلی میں تھا جس میں سرسوں کا ساگ ،مکھن کے پیڑے اور مکئی کے روٹ ،بالالتزام پیش کیے گیے۔ ساگ میرا بہت پسندیدہ کھا جا رہا ہے بھوک جوگھڑ سواری سے چمک رہی تھی حالانکہ مشقت بیچاری گھوڑی نے کی تھی۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ ،بس کھانے پر ٹوٹ پڑے ۔ سبزیوں سے پرہیز کرنے والوں کے لئےدیسی مرغ کے شوربے والا سالن بھی موجود تھا ۔ساگ اور مرغ کے سالن میں دیہاتی انداز میں مرچوں کا استعمال خوب ٹھوک کر کیا گیا تھا۔آنکھوں سے اشک رواں کی نہر بہہ رہی تھی اور منہ سے سی سی مگر ہاتھ نہیں رک رہے تھے ۔بڑے تایا جان جو وہاں موجود تھے منہ ہی منہ میں بدبدا رہے تھے کہ" دسو کھائی وی جاندے نیں تے نالے سی سی وی کری جاندے نیں"۔کھانے کے بعد گڑ کی چائے نے مرچوں کا دف مارنے میں بڑی مدد کی ۔ غنودگی سے آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں۔ باہر صحن میں بچھی چارپائیوں پر کچھ دھوپ کچھ چھاؤں کی کیفیت میں بے سدھ ہوکر قیلولہ فرمایا گیا ۔بے فکری کی نیند تو تب ہی آتی تھی اب تو بس سویا جاتا ہے ۔
گاؤں کے کسانوں کو ینگ زرعی ماہرین نےان کی فصلات و اشجار کا بنظرِ غائر جائزہ لے کر اپنے اپنے مفید مشوروں سے نوازا ،جس پر یقین کامل ہے عمل نہ کرکے ضرور دیہاتی بھائیوں نے اپنی فصلات کو نقصان سے بچا لیا ہوگا۔
بسنت کی رت ہواؤں میں گھلی ہوئی تھی ،باغوں میں ،کھیتوں کھلیانوں میں سردی کے جانے اور آمد بہار کا اعلان ہر پتہ، بوٹا،ڈال کر رہی تھی یاشائد جوانی خود بہار کا دوسرا نام ہے زندگانی کے سفر میں اس لئے ہر چیز خوبصورت لگتی ہے ۔ آنے کو کس ظالم کا دل کر رہا تھا مگر واپس ٓانا ہی پڑا۔یادوں پر مگر وہ یادگار دن اپنے نقش چھوڑ گیا اور یہی اصل حاصل وصول ہے زندگی کا ۔یادیں خوبصورت یادیں۔
* بک ۔۔ہاتھوں کا پیالہ
*تھاپی…تھپک

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply