ڈاکٹر منیر سلیمی کا ساتھ/ڈاکٹر مجاہد مرزا

منیر سلیمی کے گھر کے وسیع صحن کی گھاس میں، جس کی تراش خراش نہیں کی گئی تھی کبھی ہرن چرنے پہنچ جاتے تھے تو کبھی مرغابیاں اور قاز اتر کر اپنی ہنسا دینے والی چال چلتے دکھائی دیتے تھے۔ منیر سلیمی نے کچھ عمر گذار کر بیاہ کیا تھا، اس کے بیٹا اور بیٹی ابھی چھوٹے تھے دس اور بارہ برسوں کے جو ماں کی طرح سنجیدہ تھے۔ یہ بات نہیں کہ منیر سلیمی سنجیدہ نہیں تھے مگر وہ ہنسنا جانتے تھے۔ یہ ان کی اہلیہ کا سبھاؤ تھا یا میری موجودگی کا اثر کہ بھابھی مسکرانے میں بھی کفایت کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ خال خال ہی سامنے آئی تھیں۔ ان کی دنیا اپنے کمرے اور باورچی خانے تک محدود لگتی تھی۔ مزیدار کھانوں سے ان کے سگھڑ پن اور مہمان نوازی کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ بس یوں سمجھیں کہ واقعی مکمل گھر تھا، جہاں سے میرا خود بھی رخصت ہونے کو جی نہیں چاہا تھا۔

رات کو امریکہ کے معمولات کے برعکس میں اور منیر دیر تک باتیں کرتے رہے تھے۔ ہماری دلچسپی کے موضوعات میں یادوں کے علاوہ ادب اور شاعری اہم تھے۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب نے صبح کام پر تو جانا ہی تھا اس لیے بارہ بجے کے بعد خوابگاہ میں جانے پر معذرت کرتے ہوئے یہ بتاتے گئے تھے کہ “بابر بھی یہیں پر ہے”۔ بابر ہم دونوں کا مشترکہ دوست تھا اور وہ بھی ڈاکٹر تھا۔ “مل سکیں گے اس سے؟” میں نے تجسس چھپائے بغیر پوچھا تھا۔ “کیوں نہیں، ضرور ملیں گے” یہ کہہ کر ڈاکٹر منیر رخصت ہو گئے تھے۔

میں نیند سے اپنے طور پر بیدار ہوا تھا۔ نو بجے سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تھے اور پوچھا تھا، “چائے پیو گے؟” میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے استفسار کیا تھا،”کام پر نہیں گئے؟” ” کیا  تمہیں  اکیلا بور ہونے کے لیے چھوڑ جاتا، اکٹھے چلیں گے” انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔ پھر خود ہی چائے کے دو مگ لے کر آئے تھے، چائے پینے کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو بھی کرتے رہے تھے۔ چائے ختم کرنے کے بعد  ڈاکٹر منیر نے کہا تھا “تیار ہو جاؤ، پھر ناشتہ کرکے نکلتے ہیں”۔

ڈاکٹر منیر سلیمی مجھے ہسپتال کی بجائے اپنے پرائیویٹ کلینک لے گئے تھے۔ اس آفس کمپلیکس میں دو دو ڈاکٹروں کی ایک مشترکہ ریسیپشنسٹ تھی۔ ڈاکٹر منیر نے ایک ریسیپشنسٹ سے میرا تعارف کروایا تھا، “یہ میرے دوست ہیں اور ماسکو سے تشریف لائے ہیں”۔ پھر مجھ سے کہا تھا ” میں کوئی ایک گھنٹے بعد آتا ہوں، ہسپتال سے ہو کر۔ دفتر کے کمرے میں بند ہو کر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ تم گوریوں کے ساتھ گپ شپ لگاؤ”۔ ” ہاں ہاں، ٹھیک ہے تم جاؤ، میں یہیں بیٹھتا ہوں” میں نے کہا تھا اور ہائی کہہ کر گوری کے ساتھ ہی پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ ایلس نام کی لڑکی ماسکو میں بہت دلچسپی لے رہی تھی اور مختلف سوال پوچھ رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد ایک اور گوری نے آ کر ایلس سے بات چیت شروع کر دی تھی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بار بار “شوہان” کہا تھا۔ اس کے جانے کے بعد ایلس نے پوچھا تھا “ڈونٹ یو نو ڈوکٹر شوہان؟” میں نے کہا تھا کہ “نہیں، میں نہیں جانتا” پھر ایلس اپنے لکھنے کے کام میں لگ گئی تھی، اتنے میں ایک طویل قامت شخص داخل ہوا تھا اور کھڑا ہو کر بے نیاز انداز میں ایلس سے گفتگو کرنے لگا تھا۔

میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا، اس نے بھی دو ایک بار کنکھیوں سے میری جانب دیکھا تھا۔ مجھے یاد آ رہا تھا کہ وہ چوہان تھا جسے “گورہاں” شوہان کے نام سے یاد کر رہی تھیں۔ چوہان گورنمنٹ کالج میں میرا ہم جماعت تھا لیکن مجھے اس کا نام یادنہیں آ رہا تھا۔ مجھے جونہی اس کا نام یاد آیا میں نے کرسی سے اٹھ کر اس شخص سے پوچھا تھا،” تم زاہد ہو؟” اس شخص نے نخوت سے کہا تھا،”ہاں”۔ “کیا تم مجھے پہچان نہیں پا رہے”۔ میرے پوچھنے پر بھی اس شخص نے ایک بار پھر بے اعتنائی سے کہا تھا،”نہیں”۔ میں بولا تھا “پہلے گلے ملو، پھر بتاتا ہوں”۔ وہ شخص ناخواستہ گلے ملا تھا، جس کے بعد میں نے اسے اپنا نام بتایا تھا۔ زاہد چوہان کو یاد آ گیا تھا۔ اس بار وہ واقعی مسکرایا تھا اور ایک بار پھر مجھ سے ہاتھ ملایا تھا۔ دو چار عمومی باتیں کرنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا تھا “اچھا یار ملیں گے، سی یو” اور باہر نکل گیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ عجیب بے نیازی کا مظاہرہ کیا اس نے، گرم جوشی نام کو نہیں تھی مگر دوسرے ہی لمحے سوچا تھا کہ کیا ہے یہ امریکہ ہے۔ ہر شخص مصروف ہے اور زاہد چوہان میرا کونسا دوست رہا تھا، ایک ہم جماعت ہی تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایلس نے پوچھا تھا،”آپ تو کہتے تھے کہ آپ ڈاکٹر شوہان کو نہیں جانتے”۔ ” میں نے درست کہا تھا، میں ڈاکٹر شوہان کو نہیں جانتا لیکن اپنے کلاس فیلو زاہد چوہان کو پہچانتا ہوں” میں نے کہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر منیر سلیمی ہنستے ہوئے داخل ہوئے تھے اور پوچھا تھا، “بور تو نہیں ہوئے بھائی؟” ” ایلس کے ساتھ بھی بھلا کوئی بور ہو سکتا ہے” میرے جواب پر ایلس گلنار ہو گئی تھی،” شور، شی از اے گڈ گال” اپنے باس کی جانب سے ستائش پر ایلس پھول کر کپا ہو گئی تھی۔

ڈاکٹر منیر نے ریسیپشن پر جھک کر کے ایلس کے ساتھ تھوڑی سی گٹ مٹ کی تھی اور پھر مجھ سے کہا تھا،” آؤ چلیں”۔ تھوڑی دیر وہ مجھے شہر میں گھماتے رہے تھے۔ ڈاکٹر زاہد چوہان کے ذکر پر انہوں نے بتایا تھا کہ وہ رگ وورید کا جراح ہے اور بہت کامیاب اور مقبول ڈاکٹر ہے۔ اپنے بارے میں بتایا تھا کہ وہ پھیپھڑوں کے  امراض کا ماہر ہے اور دس مریضوں سے زیادہ نہیں دیکھتا، ان پر ہی قناعت کرتا ہے” پھر دوپہر کا کھانا کھانے گھر پہنچ گئے تھے۔ کھانا تناول کرنے کے بعد ڈاکٹر منیر نے بتایا تھا کہ انہیں دوپہر کو سونے کی عادت تھی۔ وہ سونے جانے لگے تو میں نے کہا تھا مجھے کوئی اردو کی کتاب بھجوا دو۔ ان کا بیٹا مجھے ایک دلچسپ کتاب دے گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شام ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے آواز دی تھی کہ لاؤنج میں آ جاؤ، چائے پیتے ہیں۔ چائے سے فارغ ہو کر ہم ایک بار پھر باتیں کرنے لگے تھے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے یک لخت کہا تھا چلو چلیں۔ ہم دونوں اپنے اپنے کمروں میں جا کر تیار ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر منیر سلیمی مجھے لے کر ہسپتال پہنچے تھے۔ ایک بیک ڈور سے داخل ہو کر چوتھی منزل پر پہنچے تھے۔ وارڈ کے شروع میں ایک کمرہ کھلا تھا، مجھے وہاں بٹھا کر وہ راؤنڈ کرنے چلے گئے تھے۔ راؤنڈ کرکے لوٹے تھے۔ باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ ڈاکٹر منیر نے کار کے اندر کے اندھیرے میں کچھ ڈالر میری جیب میں اڑس کر کہا،” یہ پاکستان میں بچوں کو بھیج دینا”۔ میں نے کہا تھا “یہ کیا کر رہے ہو یار” اور بوکھلاہٹ میں جیب کے اندر نوٹوں کو ٹٹولا تھا تو وہ مجھے بہت زیادہ لگے تھے، میں نے کہا تھا، “اتنے زیادہ”۔ “زیادہ نہیں بس پانچ سو ہیں۔ زیادہ باتیں نہ کرو تمہارے بچے میرے بھی بچے ہیں” میں خود کو بہت جز بز ہوا محسوس کر رہا تھا کہ میں نے اپنے حالات کی کشاکش کا تذکرہ منیر سلیمی سے کیوں کیا تھا۔ مگر یہ پہلی حیرت نہیں تھی جو ڈاکٹر منیر سلیمی نے میرے لیے پیدا کی تھی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply