تھر کا سفر۔۔محمد احمد/قسط4

بارش کے بعد تھر کو سندھ کا کشمیر کہا جاتا ہے، یہ بالکل بجا ہے ہر طرف سبزہ اور ہریالی نظر آتی ہے۔ تھر کا یہ ریگستان قدرت کی طرف سے بہت سی نعمتوں سے مالا ہے، گرینائیٹ پتھر، کوئلہ، نمک اور چینی کی مٹی سمیت بہت  سی معدنیات کے ذخائر ہیں، لیکن حکومت کے عدم توجہ کی وجہ سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ نایاب قسم کے ہرن، مور، تلور، تیتر سمیت اعلیٰ  قسم کے پرندوں اور جانوروں کی ہزاریں نسلیں پائی جاتی ہیں، جن کا بے دردی سے شکار کرکے نایاب نسلیں ختم کی جارہی ہیں، محکمہ وائلڈ لائف کی ناکامی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تھر ایک بہترین پکنک پوائنٹ بھی ہے ہر موسم میں ہزاروں سیاہ تھر کا رخ کرتے ہیں، لیکن سیاہوں کی سہولتوں کے لیے حکومت نے ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دی، حکومت سہولیات کا انتظام کرکے بہت کما سکتی ہے، لیکن ان کو کرپشن کے علاوہ کسی چیز کی فرصت نہیں۔ کسی بھی عوامی تفریح کی جگہ پر ایک بھی ٹوائلٹ نہیں، لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہ کوئی معیاری اور مناسب ریسٹورنٹ اور گیسٹ ہاؤس دستیاب ہے۔ کولھی گیسٹ ہاؤس کے ہوش ربا ریٹ سنگل بیڈ کے ایک دن کا چار ہزار اور ڈبل بیڈ کا چھ ہزار کرایہ، جس کے عام سیاہ متحمل نہیں ہیں۔ لوگوں کی  تفریح کا مرکز زیادہ، بھوڈیسر کی مسجد، ماروی کا کنواں، جین مندر، گوری مندر اور کارونجھر جبل ہوتے ہیں۔ جہاں سیاہوں کا بڑا رش ہوتا ہے۔ ہم کارونجھر کے علاوہ سب مقامات کا تفصیلی تذکرہ کرچکے ہیں۔ اس قسط میں کارونجھر کا تعارف اور سفر کی دیگر کارگزاری پیش کریں گے۔

ننگر پارکر ایک چھوٹا شہر ہے جو کارونجھر کے دامن میں واقع ہے۔ یہ منظر بڑا قابل دید ہے۔ تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے ننگر پارکر کی یہ خوبصورت نگری شاہوں کا تخت بھی رہی ہے۔ بالکل کوئی شک نہیں اس کی جغرافیائی حدود اور موسم بھی اس پر دال ہے۔ خاص موسم میں بادشاہ اپنی مجلسیں یہاں لگایا کرتے تھے۔کارونجھر پہاڑ کے بارے میں ارضیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہاڑ زمین کے اولین دریافت ہونے والے پہاڑوں میں سے ہے۔ اس کا طول 19 کلو میٹر ہے اور اونچائی 305 میٹر ہے۔ اس کی سب سے بلند ترین چوٹی سطح سمندر سے ایک ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ پورا کارونجھر معدنیات کا مرکز ہے، یہاں پر قیمتی سنگ مرمر پتھر گرینائیٹ وافر مقدار ہے، کچھ عرصہ چینی کے مٹی کے ذخائر بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ ساتھ میں مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس پہاڑ کے اوپر سے ننگر پارکر سمیت ویراواہ، کاسبو کا منظر بڑا دلکش نظر آتا ہے۔ چڑھائی دشوار ضرور ہے اور تھکادینے والی ہے۔ننگر پارکر شہر میں ہمارے میزبان عالمی مجلس ختم نبوت ضلع مبلغ مولانا محمد حنیف سیال صاحب تھے۔ ہمارا رات کا قیام بھی مولانا سیال صاحب کے پاس تھا۔ہم نے مغرب کی نماز ان کے پاس پڑھی، پورے دن کے تھکے ماندے تھے۔ اب نیند یا چائے   سر درد کا علاج کرسکتی تھی، مولانا سیال نے ایسی زبردست چائے پلائی، جس کی چاشنی نے چور چور جسم کو راحت و آرام پہنچایا اور ذہنی سکون مہیا کیا، عشاء کے بعد انہوں نے مہمانوں کے اعزاز میں شاندار عشائیہ کا اہتمام فرمایا تھا۔ ہماری مجلس جاری تھی  اور ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ بارش بڑا لطف دے رہی تھی لیکن پورے دن کے سفر نے ہمارا برا حال کردیا تھا، ہم بارش سے پوری طرح محظوظ نہیں ہوئے نیند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ نیند کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہر ایک کو بخوبی اندازہ ہوگا۔ اس لیے کہتے نیند جبری نعمت ہے آپ کتنی کوشش کریں نیند نہ آئے لیکن یہ آکر ہی رہتی ہے۔ اور جن کو یہ نعمت میسر نہیں ان سے اس کی قدر پوچھیں۔

صبح جب ہم بیدار ہوئے تو اندازہ ہوا بڑی تیز اور موسلا دھار بارش ہوئی ہے۔ ہم نے نماز ادا کی اس کے بعد مختصر ناشتہ چائے بسکٹ کھاکر روانہ ہوگئے، ہماری منزل اب کاسبو تھا۔ یہ چھوٹا گاؤں ہے اور بہت سرسبز اور شاداب ہے۔ اس قصبہ میں ہندوؤں کا پیر “راما پیر “ہے۔ اس گاؤں کا ہمارا قصد مور دیکھنا تھا۔ یہاں مور بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن قسمت اس دن ہندوؤں کا میلا تھا تو لوگوں کی بہتاب کی وجہ سے مور کم دکھائی دیئے، واپسی پر ہم کارونجھر کا نظارہ کرتے ہوئے اور درمیان میں ایک ڈیم پر اترے پھر کارونجھر کا رخ کیا۔ وہاں حکومت نے کچھ پوائنٹس بنائے  ہیں جو لوگ پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتے تو وہاں سے  نظارہ کرسکتے ہیں ، کارونجھر کے بیچ میں ہم کھڑے رہے یہ مناظر بہت خوبصورت تھے۔ پہاڑ ایک ہی ہے کہیں سرخ تو کہیں سفید کہیں اور رنگ ہماری زبان پر بے ساختہ باری تعالیٰ کی تعریف جاری ہوگئی۔ واپسی میں میزبان نے  بھرپور کھانے  کا اہتمام کیا  تھا۔ ہم نے ناشتے کی مجلس خوب لوٹی، پھر مٹھی شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔ پھر پتہ چلا بیچ میں نمک کی فیکٹری بھی ہے،اس کو بھی دیکھا جائے۔ دنیا بھر میں بہترین اور معیاری نمک کے مرکز دو ملکوں میں ہیں۔ ایک پولینڈ اور دوسرا پاکستان اس میں بھی وطن عزیز پاکستان کا نمک بہترین ہے۔ تھر میں بارش کے بعد قدرتی نمک پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کی صفائی کے بعد نمک تیار ہوتا ہے۔ ہم نے مختصر دورہ کیا اور معلومات حاصل کی اس کمپنی کا مرکز گوادر میں ہے۔ اب پھر مٹھی کی طرف روانہ ہوئے جب ہم مٹھی پہنچے تو یقین نہیں آرہا ہم مٹھی پہنچے ہیں۔ تعمیرات اور ترقی بہت عروج پر تھی۔ یہاں پر میڈیا کے پروپیگنڈہ اور واویلا کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ تھر میں غذائی قلت اور بچوں کی اموات میڈیا کا بدترین جھوٹ ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں۔ مٹھی سول ہسپتال میں جو سہولیات اور ادویات دستیاب ہیں وہ حیدرآباد اور کراچی کے سرکاری ہسپتالوں میں نہیں۔ بس یہ میڈیا ہے جو رائی کے دانے کو پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے۔ مٹھی سوائے ایک جگہ کے شہر میں کوئی خاص تفریحی مقام نہیں ہے۔اس اکلوتے تفریحی مقام کا نام “گڈھی بھٹ “ہے جہاں سے آپ کو پورا مٹھی شہر نظر آتا ہے

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply