اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب کا نزول لفظ اقراء سے شروع کیا۔ اور اسی ابتدائی وحی الٰہی میں فرمایا پڑھ اور تیرا رب سب سے زیادہ معزز ہے۔
وہ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
کہ العلم علمان علم الادیان و علم الابدان۔
علم کی دو اقسام ہیں۔ مذاہب یا دین کا علم اور بدن یا طب کا علم
قرآن و حدیث نے جہاں علم کی اہمیت بیان فرمائی۔ وہیں حصول علم کی طرف بھی بہت توجہ دی۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشہور ارشاد ہے کہ” علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا کہ” علم حاصل کرو،خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔”
پھر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ “پیدائش سے وفات تک علم حاصل کرو۔”
قرآن کریم نے علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ “علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔”
اسی طرح سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ان کے نبی نے انہیں کہا کہ ہم نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ جب اس تقرر پر قوم نے اعتراض کیا۔ کہ یہ تو صاحب جائیداد نہیں۔ تو جواباً ارشاد فرمایا کہ طالوت کو ہم نے علم اور جسمانی طاقت تم سے زیادہ عطا کی ہے۔
گویا طالوت کو اس بناء پر ایک قوم کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ کہ وہ ان سے علم رکھتا ہے۔
سرکار دو عالم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اور قیامت تک آنے والی انسانیت کو اقراء کا مفہوم سمجھانے کے لیے یہ طریق بھی اختیار کیا۔ اور اپنے عملی نمونے سے ہماری رہنمائی فرمائی ۔ کہ جنگ میں پکڑے گئے قیدیوں کو اس بنا پر آزادی کی نوید سنائی کہ وہ مسلمان بچوں کو پڑھائیں۔
اس طرح علم کے حصول اور انسانی ہمدردی میں ایک نئی لیکن سنہری حروف سے لکھی جانیوالی تاریخ رقم فرمائی۔
ایک موقع پر ہماری رہنمائی اس طرح فرمائی کہ حکمت اور دانائی تو مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ اسے جہاں سے بھی ملے اسے لے لینی چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک دن رسول اللہ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوئے۔ وہاں دوحلقے لگے ہوئے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعا کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعا کررہاہے۔ اللہ چاہے تو اس کی دعا قبول فرمائے ، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ پڑھنے اور پڑھانے میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔(مشکوٰة شریف)
علم دین در اصل صاحب علم سے عمل کا تقاضا کرتا ہے، عمل کے بغیر علم کی کوئی اہمیت نہیں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ نبیﷺ کے ساتھ تھے آپ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر فرمایا وہ وقت بھی آئے گا جب لوگوں سے علم اچک لیا جائے گا حتیٰ کہ تھوڑے سے علم پر بھی قادر نہ ہوں گے زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ نے کہا ہم سے علم کیسے اچک لیا جائے گا جب کہ ہم نے قرآن کریم پڑھا ہے، اللہ کی قسم ہم اسے ضرور پڑھتے رہیں گے اور اپنے عورتوں بچوں کو بھی پڑھاتے رہیں گے۔ آپ نے فرمایا: اے زیاد! بے شک میں تجھے اہل مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا یہ تورات و انجیل جو یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس ہیں یہ انھیں کیا فائدہ پہنچاتی ہیں ۔ (ترمذی 2653)
پتہ چلا کہ علم پڑھنے کا نام نہیں بلکہ عمل کا نام ہے علم کے مطابق عمل نہ کرنا یہود و نصاریٰ کا شیوہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَاراً (جمعہ:۵)جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیاگیا پھر انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر بہت سی کتابیں لادی ہوں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے الفاظ میں یہ فرما دیا ہے۔
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا
(فرقان 30)
اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب۔ میری قوم نے قرآن کو متروک چھوڑ دیا ہے۔
یہ تنبیہ بھی واضح کرتی ہے۔ کہ امت مسلمہ نے قرآن پڑھنا نہیں چھوڑا۔ بلکہ اس پر عمل کرنے سے منہ موڑ لیا ہے۔
اب ہمارا کام ہے کہ ہم اس پاک کلام کے متبع اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کے طور پر کس قدر علم سیکھتے اور سکھاتے اور عمل کرتے ہیں ۔
Facebook Comments
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر۔
بہت اعلی مضمون ۔اللہ سب کو عمل کی توفیق دے۔
ذرہ نوازی پر مشکور ہوں
آمین
جزاکم اللہ احسن الجزاء
ماشاءاللہ منظور صاحب بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔بہت خوب۔خدا ہمیں عالم باعمل بنائے آمین۔
آمین
جزاکم اللہ احسن الجزاء سر جی