خوابوں کی دنیا۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسان زندگی کا ایک تہائی حصہ انسان نیند میں گزارتا ہے جہاں خوابوں کا بسیرا ہے ، غفلت کی اس حالت میں فرد پر کیا گزرتی ہے یہ ابھی تک صیغۂ راز میں ہے ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ خواب کی حقیقت ایک فریب سے زیادہ نہیں ، جبکہ دوسرے ناہنجار پوری انسانی زندگی کو ہی فریب قرار دیتے ہیں۔

خواب سے بیداری پر بالغ افراد، بس ایک خواب ہی تھا، کہتے ہوئے آگے کو چل دیتے ہیں ، جبکہ چار سال کی عمر تک کے بچے خواب اور حقیقت میں فرق نہیں جانتے ، اسی لئے ڈراؤنے خواب پر بیدار ہوتے وقت، والدین کے لاکھ سمجھانے کے باوجود، بچے کو لگتا ہے کہ ڈائن اسی کمرے میں موجود ہے، وقت کے ساتھ بچے کے ذہن کو قائل کر لیا جاتا ہے کہ خواب کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، توجہ فرمائیے کہ دماغ کو اس نکتے پر قائل کرنے کیلئے چار سال کا عرصہ درکار ہے۔
خواب میں جو کچھ فرد دیکھتا یا محسوس کرتا ہے، وہ حقیقت میں وقوع پذیر ہوتا ہے یا بس یہ ذہنی آوارہ گردی ہے؟

اس سوال کا جواب اس قدر پیچیدہ ہے کہ انسانی دماغ بظاہر اس پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی بار بار خوابوں کے اسی جال میں جا پھنستا ہے جسے وہ خرافات قرار دیتے نہیں تھکتا, بعض اوقات کسی بھیانک یا ناقابلِ یقین خواب کی حالت میں فرد کا ادراک گویا کہ بیدار ہوجاتا ہے اور بغیر جاگے فرد محسوس کر پاتا ہے کہ یہ فقط ایک خواب ہے، اسے آپ شعوری خواب کا نام دے سکتے ہیں، شعوری خوابوں کا حصول انتہائی آسان تکنیک کی مدد سے ممکن ہے، آپ کو جاگتی حالت میں کسی بھی دلچسپ معاملے، کسی انہونی یا غیر معمولی صورتحال پر خود سے سوال پوچھنا ہے کہ یہ حقیقت ہے یا خواب؟

یہ سوال آگہی کیلئے کانٹے کا کام دے گا اور اسے روزانہ کی بنیاد پر دس پندرہ مرتبہ دہرانا ہے، چند دنوں یا ہفتوں بعد آپ کا دماغ اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ خواب کی حالت میں بھی کسی انوکھے منظر ، بھیانک واقعے یا کرشماتی کیفیت پر خود سے سوال داغے گا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت، اور جواب ہوگا کہ یہ خواب ہے، اس مشق سے آپ اپنے خوابوں کو نہ صرف شعور کی سطح پر لا سکتے ہیں بلکہ بڑی حد تک ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ گویا کہ خواب آپ پر وارد نہ ہوگا بلکہ آپ خوابوں کے مالک ہوتے ہوئے اس کھیل میں معاملات اپنے ہاتھ میں رکھیں گے، تصور کیجئے کہ خواب میں آپ کا پیچھا کرتی بلا کسی طور نہیں ٹل رہی، اس سے بھاگنے کی بجائے آپ اپنی قوتِ تخیل سے اس بلا کو ہوا میں اچھال کر زمین پر پٹخ سکتے ہیں کہ خواب میں کوئی قانونِ فطرت آپ کی راہ میں حائل نہیں ۔

ایک مفروضہ یہ ہے کہ انسانی دماغ ہی خوابوں کو بُنتا اور چنتا ہے، یہ صرف مضروضہ ہی ہے، آپ کسی بھی شئے  کو کچھ دیر غور سے دیکھیے، اس کے بعد آنکھیں بند کر کے ذہن میں اسی شئے کی وہی تصویر بنائیے جس کا نظارہ کیا گیا، دماغ کسی بھی صورت اس شئے کو اس آب و تاب سے تصور نہیں کر سکتا جیسے وہ حقیقت میں تھی،دماغی تصویر میں رنگ و روشنائی بڑی حد تک مدھم ہوں گی، جبکہ دوسری طرف خوابوں کی دنیا درخشندگی و تابندگی میں گاہے حقیقی دنیا سے کہیں بہتر ہوتی ہیں ، اسی لئے خوابوں کی کارستانی کا  ذمہ دار دماغ یا بیرون نہیں ہو سکتا۔

اب اندرون کی طرف آتے ییں، انسانی لاشعور بذاتِ خود کسی بھی قسم کے تخیل کا اہل نہیں، یہ ایک کورے کاغذ کی مانند ہے جس کا بیرونی تعلق انسانی ذہن یا شعور سے ہے جبکہ اندرونی تعلق کائنات میں موجود لامحدود انفارمیشن فیلڈ سے ہے، جہاں ماضی و مستقبل کے تمام منکشف اور غیر منکشف (یعنی جن کے امکانات تھے یا ہیں ) امور زندگی و واقعات طاقچوں پر رکھے ہیں، اسی انفارمیشن فیلڈ کی سطحوں پر ایجادات و دریافتیں، تخلیقات و تجلّیات ، مادی و روحانی ترقی کے تمام کوڈز بکھرے پڑے ہیں، ان تک دسترس کا انحصار فرد کے لاشعور کا اس فیلڈ سے تعلق پر ہے، جبکہ دوسری جانب ان کوڈز کو آسان انسانی زبان میں پیش کرنے کیلئے مضبوط شعور بھی درکار ہے ۔سادہ الفاظ میں شعور اور لاشعور یا روح اور دماغ کا ملاپ ہی اس گوہر نایاب تک رسائی دیتا ہے،انفارمیشن فیلڈ کے ان سیکٹرز تک روح ایک طرف ماضی کے ان واقعات، افراد یا حادثات تک رسائی رکھتی ہے جو وقوع پذیر نہ ہو سکے ، دوسری طرف مستقبل میں ایسے معاملات جو فی الواقع وارد ہو سکتے ہیں یا سِرے سے وقوع پذیر نہ ہوں گے ، ان سب تک روح کی تانک جھانک بھی انہی خوابوں کی صورت ہم دیکھتے ہیں، یعنی کہ آنے والے کسی معاملے کے ہزار مختلف صورتیں ممکن ہیں، خواب میں روح ان تمام میں سے کسی ایک یا کئیوں کو دیکھ سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات خواب سچے اور گاہے غلط ثابت ہوتے ہیں ۔

خواب معروف معنی میں فریب نہیں کہلائے جا سکتے، انسانی دماغ یا شعور انہیں گھڑتا نہیں، حقیقت میں دیکھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خواب کائناتی سٹیج پر برپا ہوتے ڈرامے کی ان تمام تحاریر و آرائشوں کو اجاگر کر سکتا ہے جنہیں حقیقی زندگی میں ہم نظر انداز کر گئے، مثلاً ہم خواب میں کسی جاننے والے کو بالکل دوسری شکل ، مختلف قد یا بالوں کے ساتھ دیکھتے ہیں لیکن ہم جانتے ہوتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جو حقیقی زندگی میں دوسری شکل یا حلیہ رکھتا ہے، اسے آپ کائناتی انفارمیشن فیلڈ کا تنوع کہہ سکتے ہیں۔

شعوری خوابوں میں آپ منظر اور کردار اپنی پسند کے مطابق بدل سکتے ہیں ، یعنی کہ کائنات میں موجود ممکنات کی دنیا کی کسی بھی سطح پر خود کو لا سکتے ہیں، اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ یہی شعوری خواب مادی اور حقیقی زندگی کا روپ دھارنا شروع کر دیتا ہے، اگرچہ فطری اصولوں کے بوجھ کی وجہ سے اس کی رفتار خواب کی نسبت کہیں سست ہے کیونکہ خواب میں ممکنات کی ایک سطح سے دوسری سطح پر چھلانگ لگانا آسان اور بلا تردد ہے جبکہ مادی دنیا میں زندگی کے بھاری بھرکم وجود کو گھسیٹ کر ناپسندیدہ سے پسندیدہ سطح پر لانا پڑتا ہے لیکن یہ سب ممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ شعوری خواب کسی حد تک خطرناک بھی ہے، یہ آپ کو ممکنات کی کسی ایسی دلفریب سطح پہ لے جا سکتا ہے جہاں ماضی میں وقوع پذیر ہوئے واقعے یا مستقبل میں صد فیصد امکانات کے ساتھ وقوع پذیر ہونے والے معاملات کے ساتھ آپ کی شدید خواہش جڑی ہو، گیان اور نروان کے ماہرین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواب میں ایسی کسی پسندیدہ ترین صورتحال میں شعور خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے، جلوے میری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں، کے زیرِ اثر پیچھے مڑ کر دیکھنے سے گریز کرتا ہے کہ پتھر کا نہ ہو جائے، ایسے میں روح کی واپسی کا دروازہ بند بھی ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply