اپنا رستہ خود بنانے والے/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

چھوٹا سا میز تھا ، گھر میں استعمال ہونے والا عام سا میز۔ اس پہ کپڑا بچھا کر سڑک کے ایک کنارے پہ رکھا ہوا تھا۔ اس میز کے اوپر باربی کیو کے لیے استعمال ہونے والی چھوٹی سی لمبوتری شکل کی انگیٹھی پڑی تھی۔ جس کے اندر کوئلے تھے۔ ایک کونے پہ تین چار سیخیں پڑی ہوئی تھیں، جن کے نیچے بجھے ہوئے کوئلے تھے۔ انگیٹھی کے دوسرے کونے پہ دہکتے ہوئے کوئلے تھے لیکن ان کے اوپر کوئی سیخ نہیں پڑی تھی۔

میز کے دوسری طرف ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا ، غالباً پینسٹھ ستر سال کا ہو گا۔ اس کی بے چین آنکھیں ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہی تھیں۔ سوچتا ہو گا کون یہاں رکے گا، میرا پہلا گاہک بنے گا۔ میں پچھلے تین چار دن سے انھیں وہاں کھڑے دیکھ رہا تھا لیکن ہمیشہ وہاں سے گزرتے ہوئے جلدی میں ہوتا تھا تو کبھی رک کے زیادہ غور کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس سے پہلے وہ یہاں نہیں ہوتے تھے ، کبھی نظر بھی نہیں آئے تھے۔

آج فرصت تھی اور میں شام ڈھلنے کے بعد چہل قدمی کرتا جا رہا تھا کہ ان کے پاس سے گزرا۔ بابا جی کے پاس رک کر سلام کیا اور انھیں سیخ بنانے کا آرڈر دیا۔ بابا جی گاہک دیکھ کر خوشی خوشی کام پہ لگ گئے۔ میں نے گپ شپ شروع کی تو وہ اپنے متعلق بتانے لگے کہ میں گاڑی چلاتا تھا۔ اس میں ٹائلیں لے کر جایا کرتا تھا۔ ساری عمر یہی کام کیا ہے لیکن اب دو مہینے سے یہاں ٹائلوں والا کام ہی بند ہوا پڑا ہے۔ پہلے تو فارغ پڑا رہا، اب لگا کہ گزارا نہیں ہو رہا تو یہ کام شروع کر دیا ہے۔

میں نے کہا “کام تو بہت اچھا ہے لیکن کسی بینر پہ تھوڑا سا نام وغیرہ لکھ کر یہاں لگائیں تو زیادہ لوگ متوجہ ہوں گے۔ کوئی دو کرسیاں بھی رکھیں پاس تاکہ گاہک بیٹھ سکیں۔”
بابا جی کہنے لگے ہاں یہ سب کرنے کا ارادہ تو ہے۔ بس ابھی تک جگہ کوئی نہیں سمجھ لگ رہی کہ کون سی فائنل کریں۔ وہ ہو جائے تو پھر اسے مستقل ٹھکانہ بنائیں گے”

میں نے کہا “یہاں تو زیادہ لوگوں کا رش نہیں تو آپ کسی رش والی جگہ پہ لگائیں نا”
کہنے لگے “لوگ تو بہت ہیں لیکن ان کے حالات اچھے نہیں۔ سب ہی تنگ ہوئے پڑے ہیں تو ایسے میں کون تکے کھانے آئے گا”

میری آرڈر شدہ سیخ تیار ہو گئی تھی تو بابا جی پوچھنے لگے کہ یہیں کھاؤ گے یا میں پیک کر دوں۔ میں نے بتایا کہ یہیں کھاؤں گا تو انھوں نے پلیٹ میں نکال کر سامنے رکھ دی۔ میں نے بابا جی سے کہا آئیں مل کر کھاتے ہیں۔ بابا جی نے انکار کیا لیکن میرے اصرار پہ شرماتے ہوئے شامل ہو گئے۔

باتیں کرتے اور سیخ کھاتے ان کا آٹھ نو سال کا پوتا بھی آ گیا۔ وہ بھی ان کے ساتھ رات گئے تک وہیں کھڑا رہتا ہے۔ دونوں دادا پوتا مل کر اس ہنگام خیز دنیا سے اپنے حصے کا رزق وصول کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ گو کہ یہاں زندگی دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہی ہے لیکن محنت کرنے والے اپنے لیے مواقع پیدا کر کے رزق حلال کمانے کی تگ و دو کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہ محنت کرنے والے ہمارے معاشرے کا روشن چہرہ ہیں۔ معاشرے کے ایسے روشن چہروں کو بجھنے نہ دیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے اردگرد موجود ایسے محنت کرنے والوں کا سہارا بنیے۔ وہ کچھ بیچ رہے ہیں تو ان سے بلا ضرورت ہی خرید لیجیے۔ آپ کی تھوڑی سی مدد سے ان کا ٹھیلا ، ان کی دکان بہتر ہو سکتی ہے تو وہ بھی ضرور کیجیے۔ ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر ان کے لیے مددگار بنیے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply