کیونکہ تمہارے وہ آنسو، وہ زخم، وہ درد، وہ سسکیاں، وہ خون میں لت پت کتابیں، وہ گولیوں سے چهنی کیا ہوا یونیفارم، تمہاری ماؤں کے دل سے نکلنے والی وہ درد بھری آہیں اور آنسو مجھے جینے نہیں دیتے ہاں ہاں مجھے جینے نہیں دیتے۔
مجھے اب بھی 16 دسمبر کی وہ تاریک رات یاد ہے جب ہم جیسے خود غرض، لاچار، پتھر دل اور جھوٹے آنسو بہانے والے لوگوں نے تمہارے غموں میں شرکت کو بس بلیک ڈے کے نام سے فیس بک پر بلیک ڈی پی لگانے کی حد تک محدود رکھا۔
مجھے اپنا حق مانگتے مانگتے قربان ہونے والی جامعہ حفصہ کی بیٹیاں بھی یاد ہیں، مجھے حلب میں رسوا ہوتی ہوئیں اپنی ماں بہنیں بھی یاد ہیں، ملک و قوم کی خدمت کرتے کرتے قربان ہونے والا ایدھی بھی یاد ہے، مجھے طیارہ سانحہ میں شہید ہونے والا اپنا مرحوم بھائی جنید بھی یاد ہے، مجھے قوم کی وہ بیٹی بھی یاد ہے جو اپنی رہائی کے لئے دن گوانتانا موبے میں آہووں اور سسکیوں میں شب و روز گزار رہی ہے، مجھے وزیرستان میں شہید ہونے والا وہ معصوم بچہ بھی یاد ہے جس نے دوسروں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی۔ تو پھر میں کیسے اور کیوں کر اپنے وطن پر قربان ہونے والے ان ننھے منے پھول جیسے بچوں کی آہیں، درد اور آنسوؤں کو بھول سکتا ہوں۔
اے بچوں مجهے معاف کردینا۔ کیوں کہ میں تمہیں یاد نہیں رکھنا چاہتا، تمہارا غم مجھے کہیں کا نہیں رہنے دیتا، تمہاری آہیں میری وجود کو جھنجھوڑ دیتی ہے، تمہاری چیخیں میرے دلوں کو چیرتی ہوئی مجھ سے سوال کرتی ہیں اور مجهے عزیزم دوست کے یہ اشعار کہنے پر مجبور کر دیتی ہیں؎
ترے دیوار و در پہ خوں کے منظر دیکھنے جاؤں
تجھے میں کس لیے شہرِ پشاور دیکھنے جاؤں؟
ہوئے تھے جن کے روشن حرف آئندہ زمانوں کے
بریدہ ظلم کی تیغوں سے وہ سر دیکھنے جاؤں
خبر کیا تھی جو سر پر ہے اتر جائے گی مقتل میں
لہو کے داغ ہیں جس پر, وہ چادر دیکھنے جاؤں
وہ جن سے چاند سی پیشانیوں پہ زخم آئے ہیں
میں دستِ سنگ باراں میں وہ پتھر دیکھنے کیسے جاؤں
ہمکتے, دوڑتے تھے جن میں طفلانِ شگفتہ رو
وہ خالی گودیاں, اجڑے ہوئے گھر دیکھنے جاؤں
برادر چُھٹ گیا جس سے, پدر نے کھو دیا جس کو
وہ خواہر دیکھنے جاؤں, وہ دختر دیکھنے جاؤں
گرے ہیں زخم کھا کھا کر, جو خاکِ ارضِ مکتب میں
نہ پہنچے لوٹ کر جو گھر وہ دلبر دیکھنے جاؤں
علَم نوزادگاں کے قتل پر اونچے کیے جس نے
میں اس ظالم کا, اس قاتل کا لشکر دیکھنے جاؤں
لہو جس نے کیے آموزگانِ حرف کے سینے
وہ نیزہ دیکھنے جاؤں, وہ خنجر دیکھنے جاؤں
جو زندہ بچ گئے مقتل میں ظالم کی سنانوں سے
میں ان کی آنکھ میں اب موت کا ڈر دیکھنے جاؤں
جو اڑنے کے لیے پر تولنے والا تھا شانوں پر
میں اس طائر کے اب ٹوٹے ہوئے پر دیکھنے جاؤں
وہ جو بغداد میں برپا ہے کابل میں کراچی میں
وہی ہنگامہ ء خوں اِس زمیں پر دیکھنے جاؤں
جنہیں رکھا گیا تھا ظلم کے زندانِ ظلمت میں
انہیں, جاؤں تو, مثلِ ماہ و اختر دیکھنے جاؤ
جو حق بولیں جو حق سمجھیں،جو حق پر جان دیں اپنی
بہادر کربلا جیسے بہتّر دیکھنے جاؤں
تجھے میں کس لیے شہرِ پشاور دیکھنے جاؤں
تجھے میں کس لیے شہرِ پشاور دیکھنے جاؤں
وہ اک حادثہ تھا نا اور حادثے تو لوگ بھلا بیٹھتے ہیں پر گزرتے سالوں کے ساتھ پھر آتی اُس تاریخ میں اِن کرب زدہ ماؤں کے دلوں پر لگے اُس گھاو کو پھر سے تازہ کردیتا ہے، اس لیے میں اب تمہیں یاد نہیں رکھنا چاہتا –
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں