پاکستانی مسیحی کا کھتارسس ۔۔اعظم معراج

خود بخود ہوگی فہم مستقبل
ماضی وحال کو سمجھ پہلے
(محمود شام)

Advertisements
julia rana solicitors london

آج ماضی وحال کے پچھتر سالہ اقلیتوں پر تھوپے گئے انتحابی نظاموں سے کشید کردہ دوہرے ووٹ کے لالحہ عمل کو مختصر پیرائے میں عام وخاص پاکستانیوں خصوصا مذہبی اقلیتوں تک حقائق پہنچانے کے لئے” اقلیتوں کا الیکشن نامہ ” نامی شہزاد رائے کے دریافت شدہ بلوچستان کے واسو کی طرز پر بنائے جانے والے انتحائی مختصر ویڈیو کلپ کی تیاری کے سلسلے میں 30اگست 1972کو شہید ہونے والے نواز مسیح شہید اور آر ایم جمیز مسیح شہید کی تصویریں ڈھونڈتے ہوئے ۔ پروفیسر سلامت اختر صاحب یاد آئے ۔۔۔۔۔اور ایک تشکر کا بھی احساس ہؤا ۔۔
۔ظاہر ہے۔یہ تصویریں نواز سلامت کی وال سے ہی ملنی تھی۔۔اور وہی سے ہی ملنی چاہیئے تھی۔۔پہلے بھی نواز سے ہی ملی تھی۔۔۔۔ لیکن دھیان پھر پروفیسر سلامت اختر صاحب کی طرف چلا گیا مجھے یاد نہیں پڑتا کے پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا آدرش واسی سیاسی کارکن پیدا ہؤا ہو۔۔۔۔جس نے اپنے آدرشوں کو اتنا پہرا دیا ہو کہ مسیحی اداروں کے قومیائے جانے(نشنلیزیشن) اور ایوانوں میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی حاصل کرنے کی جدوجہد میں آپنی جانے دینے والے شہداء آر ایم جمیز اور نواز مسیح کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھ دئیے ۔۔ ۔۔
جسکی بدولت آج بھی کوئی بھولے بسرے ان شہداء کو یاد کرلیتا ہے.. ورنہ ان دو شہداء کے لہو کے صدقے 1975سے آج تک ایوانوں میں بیٹھنے والے ایم این اور ایم پی ایز جنکی تعداد یقنیا سینکڑوں میں پہنچ چکی ہو گی۔ ۔۔۔ ان احسان فراموشوں میں سے شائد ہی کسی کو ان دونوں کے نام بھی معلوم ہوں۔۔ان عظیم شہداء جنہوں نے اپنے بچوں اور اپنا آج اس ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ایوانوں میں نمائندگی دلوانے اور وطن عزیز جمہوری قدروں کی آبیاری کے لئے قربان کر دیا۔۔۔
انھیں ملک وقوم دیگر مذہبی اقلیتوں نے تو بھلایا ہی ہے۔۔کیونکہ انھیں تو نہ پتہ تھا۔ اور اگر پتہ ہوتا بھی تو اس چیز کا ادارک نہ ہے نہ تھا کہ
بقول قتیل شفائی
جو قوم بھلا دیتی ہے تاریخ کو اپنی
اس قوم کا جغرافیہ باقی نہیں رہتا
اور تو اور ملک بھر کے مسحیی بھی انھیں کیا یاد رکھتے۔ جن کی یہ قابل فخر شناخت ہیں۔۔تھے اور رہے گے۔۔ کیونکہ ان میں سے بھی چند کو انکی شہادت کا پتہ ہوگا۔۔اور جنہیں پتہ ہے۔۔انھیں اس چیز کا ادارک نہیں ہے۔۔کہ ان شہداء کے لہو کے طفیل ہی ہر دو چار سال بعد چند مسیحو کچھ ہندؤں و دیگر اقلیتی سیاسی کارکنوں کو ایوانوں میں کرسیاں اور اچھے ہوٹلوں کے بٹر پینر اور سابقہ ہونے کے ساتھ ہی، سیاسی پناہیں بھی مل جاتی ہیں۔۔لیکن راولپنڈی جسکی سات تحصیلوں میں مجموعی اقلیتی ووٹروں کی تعداد 63663 اور کل مسیحی ووٹروں کی تعداد 59546 ہے۔۔۔
اسلام آباد جہاں مسیحی ووٹوں کی تعداد 38744 ہے۔لیکن ان دونوں شہروں میں سیاسی سماجی ورکروں اور سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی ورکروں کی تعداد ان ووٹروں سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔۔ان چی گویرا و نیلسن منڈیلا کے لیول کے اکثر دیہاڑی داروں کے علاؤہ اچھے خاصے بظاہر ڈگریاں رکھنے والوں نے بھی اپنی سیکنڑوں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروائے بغیر سیاسی جماعتیں بھی بنا رکھی ہیں ۔۔دوسرے شہروں سے بھی سیکنڑوں ان دونوں اقتداری شہروں میں اکثر تشریف لاتے ہیں ۔۔ان میں سے بھی شائد ہی کسی کو پتہ ہو کے یہاں وہ دو شہداء دفن ہیں جن کے صلے یہ ایوانوں میں بیٹھنے کے خواب دیکھ رہیں ہیں.اس لاعلمی کی وجہ صرف اور صرفِ یہ ہے ،
کہ ہمارے سماجی ،مذہبی وسیاسی راہنماؤں نے کبھی اجتماعی تجزیہ طکمنخ( swot analysis)کی اہمیت پر زور نہ دیا ماضی وحال سے مستقبل کے خواب بننے کی تلقین نہ کی اس میں بھی پروفیسر سلامت آختر صاحب نے ہی عرق ریزی سے پہل کی دوسرے دو نام عمانوئیل ظفر صاحب اور فادر ندیم فرانیسں نے بھی ان کے اس کام کو جاری رکھا ..لیکن آنے والی نسلوں کو اس بات کا احساس نہ دلاسکے.. کہ ان چیزوں کی افراد، کمیونٹوں ، قبیلوں،اور قوموں میں کیا اہمیت ہے۔۔لیکن انکی ناکامی سے زیادہ محرومیوں کے سوداگروں کی کامیابی کا عنصر اس میں زیادہ ہے۔۔ جنہوں نے انھیں سراب نخلستان بنا کر دکھائے اور
انھیں شکوک وابہام میں رکھا اسکی ہزاروں مثالیں ہیں لیکن دو حالیہ پیش خدمتِ ہیں۔۔ الیکشن کمیشن کےتازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پورے بلوچستان میں اقلیتی ووٹروں کی تعداد 51245جن میں سے مسیحی ووٹرز صرف 20761 ہیں۔اسی طرح پورے کے پی کے میں اقلیتی ووٹروں کی تعداد 46115 ہے۔۔ جن میں سے مسیحی ووٹرز 33328 ہے۔۔ لیکن ان دونوں صوبوں کے میں کئی خاصے پڑھے لکھے اور سماجی اور سیاسی خدمات کا تابناک ماضی رکھنے والے کو جانتا ہوں۔ جن کا یہ کہنا ہے ۔۔کہ وہاں کی آبادی ان اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے ۔۔۔ فرض کریں یہ بیس اور تیس ہزار ووٹ بقول انکے دس دس پندرہ پندرہ لاکھ بھی ہیں۔۔ تو جب تک آپ ثابت نہیں کرتے صرفِ اندازوں ٹیووں پر تو منزلوں کے تعین نہیں ہوتے ۔۔اسی طرح سندھ جہاں مجموعی طور پر مسیحی ووٹروں کی تعداد 254731 ہے ان میں سے 212197 کراچی میں ہیں۔۔۔لیکن ایسے عظیم سیاسی کارکن بھی مسیحو میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔جو کراچی سے صرف 50لاکھ مسیحی ووٹوں کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کے خواہش مند ہیںِ۔ اس طرح کچھ کئی پارٹیوں کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ ہم اپنی پانچ کروڑ کی آبادی کی صحیح مردم شماری کروائے گے ۔۔
اسی طرح کے شکوک وشبہات وابہام کی بنیاد پر دن رات دہائیوں جدو جہد کی بجائے۔۔ اگر تجزیہ طکمنخ کی اہمیت کو جان کر اگر محرمیوں کے سوداگروں کا مقابلہ کیا گیا ہوتا. تو آج ملک بھر میں پھیلے ہوئے 1708288مسحیی ووٹروں کی سینکڑوں مسحیی جماعتوں اور ہزاروں این جی اوز کے ہوتے ہوئے کوئی محکمہ شماریات کے کاغذات میں سے گیارہ لاکھ جیتے جاگتے بندے چوری کرتا ۔ ۔ ( یہ بات قابل غور ہے کہ محکمہ اعداد و شمار الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے بھی متضاد ہیں۔۔ )اور ان پاکستان کے کل ووٹروں کے ایک ڈیڑھ فیصد کو طاقت بنا کر سینکڑوں سیاسی جماعتیں بنا کر کروڑوں کے چندے یا بھیک کو اس شوق کی نظر کرنے کی بجائے ایسا سیاسی گروہ تیار کرتے جو قومی جماعتوں میں کوئی اثر رکھتا۔۔یا دیگر طاقت کے مراکز سے حقوق لینے کے لئے اپنی نسلوں کی استعداد کار بڑھائی جاتی۔۔ اور لطیفہ یہ ہے کہ جس پارٹی کی حکومت میں بندے چوری کرنے کی واردات ہوئی ہے۔۔ بہت سے مسحیی سیاسی ورکر ایک بندے کو حکومتی عہدہ ملنے پر جشن منا رہےہیں ۔۔اور اس سیاسی جماعت کے مالکان کے احسان تلے دبے جارہے ہیں۔۔۔۔یہ ہے ہمارا سیاسی شعور ۔۔۔
خیر 30 آگست آرہا ہے ۔۔اگر پنڈی اسلام و آباد کے سیاسی، سماجی ورکر جن میں سے کئی سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کے مالکان بھی ہیں اگر وہ 30 آگست 1972 کو بہائے ہؤے خون اور دی ہوئی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو ضرور ان شہداء جمہوریت کو خراج عقیدت پیش کریں ۔۔پروفیسر سلامت اختر ابھی حیات ہیں ۔۔ان سے یا اس تحریک میں شامل انکے ساتھیوں سے مزید تفصیلات مل سکتی ہیں۔ یقین مانیئے واٹس ایپ گروپوں میں کحج بحثی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔۔
درپیش مسائلِ دستیاب موقعوں اور اپنی انفرادی واجتماعی کمزرویوں ،توانائیوں کے درست تخمینے سے ہی دؤر رس نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔۔ اور اس کے لئے عرق ریزی اور سیاسی ورکر کے لئے علم و عمل کا امتزاج ہونا بہت ضروری ہے ۔۔ہاں اگر منزل ایم این اے، ایم پی، سیاسی پناہ یا صرف تیس ،تیس سکے ہیں۔
تو پھر اپنے, اپنے محاذ پر “انھے وا ” ڈٹے رہیں ۔۔
رام بھلی کرے گا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply