ذہانت (30) ۔ “مستقبل” کی گاڑیاں/وہاراامباکر

نیویارک میں 1939 میں ہونے والے عالمی میلے میں جنرل موٹرز نے مستقبل کی دنیا کی تصویر بے نقاب کی۔ نمائش میں آنے والے حاضرین کو آنے والی دنیا کا 16 منٹ پر مبنی دورہ کروایا جاتا تھا۔ وہ جنرل موٹرز کا خواب شیشے کے پیچھے سکیل ماڈل میں دیکھتے تھے۔ ملک کے طول و عرض پر پھیلی ہوئی سپر ہائی وے جو کہ شہروں اور دیہاتوں کو منسلک کرتی تھیں۔ اور ان پر سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی گاڑیاں جو کہ بالکل محفوظ تھیں۔ اور ان میں کوئی ڈرائیور نہیں تھا۔ خودکار، تیزرفتار اور محفوظ سفر کا یہ خواب مستقبل، یعنی کہ 1960 کی دنیا تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خواب کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی کئی کوششیں ہو چکیں ہیں۔ جنرل موٹرز نے 1950 کی دہائی میں فائر برڈ ٹو کے نام سے پراجیکٹ کیا۔ برطانیہ میں محققین نے 1960 کی دہائی میں Citroen DS19 کو سڑک کے ساتھ رابطہ کروانے کی کوشش کی۔ (ان تجربات کے لئے نو میل لمبی برقی تار آج بھی بچھی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے)۔ کارنیگی نے 1980 کی دہائی میں نیولیب۔ جبکہ یورپی یونین کا 1990 کی دہائی میں ایک ارب ڈالر کی لاگت سے یوریکا پرومیتھیس پراجیکٹ۔ ہر نئے پراجیکٹ کے ساتھ ایسا لگتا تھا کہ بغیر ڈرائیور کے گاڑیوں کی آمد بس قریب ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایسی گاڑی بنانا اتنا مشکل کام نہیں۔ آخر، انسان اس کام میں بڑی آسانی سے مہارت پا لیتے ہیں۔ صرف دو چیزوں، رفتار اور سمت، کو ہی تو کنٹرول کرنا ہے۔ سٹیرنگ گھمانا اور رفتار کم یا زیادہ کرنا۔۔ یہ کتنا ہی دشوار ہو سکتا ہے۔
لیکن دھات کے بھاری بھرکم ٹکڑے کو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کنٹرول کرنے کا الگورتھم بہت جلد مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیورل نیٹورک کی مدد سے “دیکھنے والی” ابتدائی گاڑیوں کا 2004 میں آغاز ہوا۔ گاڑی کی چھت پر لگے کیمرہ کی مدد سے اپنی اطراف کے دنیا سے معنی نکال کر سمت اور رفتار کے فیصلے لینے کا طریقہ تھا۔ کیمرہ بہت سی انفارمیشن دیتا ہے۔ رنگ، منظر میں سے فزیکل فیچر، سڑک کی لکیریں، زاویے اور موڑ۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ انفارمیشن آ جائے تو اس کا کرنا کیا ہے۔ اور یہ چیلنج ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply