• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کھلا خط بنام عمران خان و اراکین کور کمیٹی تحریک انصاف پاکستان۔۔رشید یوسف زئی

کھلا خط بنام عمران خان و اراکین کور کمیٹی تحریک انصاف پاکستان۔۔رشید یوسف زئی

محترم المقام جناب عمران خان صاحب و ارکان کور کمیٹی پاکستان تحریک انصاف،
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ،
بندہ ایک عرصے سے آپ اور تحریک انصاف کا شیدائی رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ آپ کی جرات و بیباکی پر مبنی سیاست ہے، راقم بیک وقت قومی اور بین الاقوامی پریس سے وابستہ ہے ،خصوصاً پاکستان کے داخلی اور خارجی مسائل ، فارن پالیسی،پاکستانی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے مغربی میڈیا کا نقطہ نظر، افغانستان سمیت امریکی پالیسیوں کو بغور پڑھتا رہتا ہوں، ان تمام امور کے حوالے سے تحریک انصاف کا موقف کئی حوالوں سے معتدل بلکہ مثبت رہا ہے۔
گزشتہ دنوں مجھے یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی تحریک انصاف کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو سینٹ ٹکٹ دینے کا اعلان کور کمیٹی کے چند ارکان کی تجویز پر واپس لیا گیا۔ میری گزارش ہے کہ ہر فیصلے سے پہلے ا س کے مثبت اور منفی پہلو پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں چند گزارشات عرض خدمت ہیں:

یہ بھی پڑھیں :  کھلا خط بنام چیف جسٹس برائے اصلاح ِ تعلیمِ قانون۔۔۔محمد علی جعفری

مجھے ذاتی طورپر مولانا سمیع الحق کے بعض سیاسی افکار سے اختلاف رہا ہے، مگر مجموعی طورپر ہر وہ پاکستان کے مذہبی سیاست کے سب سے قدیم اور پرانی شخصیت ہیں حتیٰ کہ نواز شریف وغیرہ نے ان کے بعد کوچہ سیاست میں قدم رکھا۔ا س لئے ایسی شخصیات کے بارے میں اس قدر عجلت پسندی سے کام لینا انتہائی غیر سنجیدہ اقدام ہے، جس سے ان کی شخصیت بھی متاثر ہوئی اورتحریک انصاف کا ووٹ بینک بھی متاثر ہوا ۔

مولانا سمیع الحق نے گزشتہ انتخابات میں متحدہ دینی محاذ کے نام سے ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ لئے، جوکہ جماعت اسلامی کے ووٹ کے برابر تھا، مگر مکمل منصوبہ بندی نہ ہونے کے باوجود وہ پارلیمنٹ میں نہ جاسکے، جبکہ ماضی میں 1981سے لے کر 2008 ء تک تسلسل کے ساتھ وفاقی مجلس شوریٰ اور سینیٹ کے ممبر رہے۔

مولانا سمیع الحق کی تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ نے ایم ایم اے کو مردہ گھوڑا بنا دیا ہے، میرا ایم ایم اے کے اکثر قائدین سے رابطہ ہے، سب شکوہ کررہے ہیں کہ مولانا سمیع الحق کے جانے سے سارا پلان برباد ہوا، ایک لیڈر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں ان کے ووٹ بینک سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ان کی شخصیت مذہبی سیاست میں بہت بھاری ہے جس کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں :  ڈیئر پرائم منسٹر!آپ بولتے کیوں نہیں؟ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے/ محمد ہاشم خان

جمعیت علماء اسلام (ف) کے ایک لیڈر سے بات ہورہی تھی اس نے کھل کر کہا کہ مولانا سمیع الحق نے سارا پلان برباد کرکے رکھ دیا، میرے کریدنے پر فرمانے لگے کہ ”ہم کے پی کے،فاٹا اور بلوچستان میں عمران خان کو ‘یہودی ایجنٹ’ ثابت کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے مگر مولانا سمیع الحق کے اتحاد سے بہت سے غیر سیا سی اور معتدل علماء انگلیاں اٹھانے لگے کیونکہ کے پی ،فاٹا اور بلوچستان کے ستر فیصدعلماء مولانا سمیع الحق کے شاگرد ہیں، جمعیت ف کے کئی قائدین نے یہی بات دہرائی۔

مغربی میڈیا اورپاکستانی میڈیا مولانا سمیع الحق کو افغان طالبان کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، مگر کیا اس موقف میں مولانا سمیع الحق اکیلے ہیں؟ بالکل نہیں؟ پاکستان اسٹیبلشمنٹ ،مولانا سمیع الحق اور کئی عالمی قوتیں اس ایشو میں ایک پیج پر ہیں۔سابقہ امریکی سفیر اور حالیہ خصوصی ایلچی برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ اولسن نے کئی لوگوں کے ساتھ مولانا سمیع الحق کو درخواست کی کہ مولانا اپنا   کردار ادا  کریں، آخر کیا بات ہے کہ برہان الدین ربانی کی شہادت سے دو دن پہلے مولانا سمیع الحق افغانستان کے مصالحتی عمل میں شامل کرنا چاہیے تھے۔کیا وجہ ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں میں چار بار افغان صدر اشرف غنی سے بھی بات چیت ہوئی۔

بحیثیت تجزیہ نگار میں نے یہ اخذ کیا کہ مولانا سمیع الحق امریکہ ،چین، افغان طالبان ،پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سمیت افغان سیاسی گروہوں سب کے لئے بہت اہم ہیں۔ نیز اگر اگلے الیکشن میں عمران خان وزیراعظم بنتے ہیں توان کے پاس افغانستان کے مصالحتی عمل میں محمود خان اچکزئی ،آفتاب شیرپاؤ، اسفندیار ولی اور مولانا فضل الرحمن سے زیادہ موثر کردار ادا کرنے والے مولانا سمیع الحق ہی ہوں گے

پاکستان میں مذہبی سیاست کی شدت  بڑھتی  جارہی ہے ،دینی مدارس بھی ACTIVE ہوتے جارہے ہیں، پاکستان میں ستر فیصد مذہبی مدارس دیوبندی ہیں جس میں سے پچاس فیصد سے زائد دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فضلا چلاتے ہیں، اس لئے تحریک انصاف کے پاس مولانا سمیع الحق سے بہتر آپشن کوئی نہیں۔ نیز ملی مسلم لیگ ،اہل سنت والجماعت،مجلس وحدت المسلمین ،جمعیت علماء پاکستان (ڈاکٹر ابوالخیر گروپ) سب نواز شریف اور ایم ایم اے کے مقابلے میں مولانا سمیع الحق کے کیمپ میں آنا چا ہتے ہیں۔ جس کا ہر صوبے میں تحریک انصاف کو خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا ۔

یہ بھی پڑھیں :  لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کا حافظ صفوان محمد کے نام خط!

گزشتہ دنوں اس موضوع پر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے علماء کرام کوانٹرویو کیا تو سب کی خواہش یہ تھی کہ اگر تحریک انصاف نے مولانا سمیع الحق کو سینیٹر منتخب کیا تو آئندہ الیکشن میں اس کے دیرپا اثرات  مرتب ہوں  گے-

آخری بات یہ کہ کور کمیٹی کے بہت سے ارکان شاید یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ سینیٹ والا ٹکٹ مولانا سمیع الحق کو خیرات میں دیا گیا، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ مولانا سمیع الحق کے والد 1970سے 1988تک نوشہرہ NA-5- 6 سے قومی اسمبلی کے ممبر رہے ۔اور تین بڑے سیاسی شخصیات کو شکست دی۔ جس میں نصر اللہ خٹک سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا (چچا پرویز خٹک)، اجمل خٹک،نصیر اللہ بابر،سابق وزیرداخلہ جیسی شخصیات شامل تھیں۔حالیہ سیاسی اتحاد میں پرویز خٹک ،NA-6 پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، اگر جمعیت س اور مولانا سمیع الحق کی سپورٹ ان کو نہ ہو تو حلقہ NA-5- 6 پر ان کی شکست یقینی ہے ۔ جبکہ مولانا سمیع الحق نے اس کے لئے اپنے بیٹے حامد الحق کے الیکشن کو قربان کردیا ہے ۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف کو ان تمام امور پر سوچنا ہوگا۔

لہٰذا بحیثیت ایک سیاسی مبصر کے میری گزارش ہے کہ کور کمیٹی اس فیصلے پر نظر ثانی فرمائے اور ڈٹ کر مولانا سمیع الحق کو منتخب فرمائیں، میں گارنٹی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نقصان سے زیادہ فائدہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

والسلام
رشید یوسف زئی!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کھلا خط بنام عمران خان و اراکین کور کمیٹی تحریک انصاف پاکستان۔۔رشید یوسف زئی

  1. اس میں شک نہیں کہ مولانا سمیع الحق ایک مذھبی سکالر ھونے کے ساتھ ساتھ ایک آچھے بین الاقوامی سیاستدان بھی ھے ۔ اگر سمیع الحق صاحب چاھتے تو ایم ایم اے کیساتھ کسی قسم کی بارگیننگ کرسکتے تھے مگر انہوں نے عمران خان کو ھاتھ دیکر اس کی نیک نامی کو مستند بنادیا ۔ ورنہ فضل الرحمان تو اس تاک میں ھے کہ کسی طرح کوئی مذھبی بلیک میلنگ کرکے عمران خان کو لادینی طاغوتی قوتوں کانمائیندہ ثابت کیاجاسکے ۔ کیونکہ پاکستان میں مذھبی جڑیں اتنی مضبوط ھیں کہ آئیندہ چار الیکشنز میں سیکولر سیاستدانوں کواس پُلِ صراط کو عبورکرنا مشکل ھیں اور یھی مذھبی عناصر ھی سیاست کی مہریں ھی ھوں گے ۔ آج تک پاکستان میں اسے کوئی بھی فتح نہیں کرسکا ۔
    پاکستان کی جاگیردار سیاست اور جمہوریت کا کرتا دھرتا یہی مذھبی جماعتیں اور شخصیات ھیں جن کی حمایت اگر ساتھ نہ ھو تو ایک دن بھی حکمرانِ وقت چھین سے نہیں سوسکتے ھیں ۔ ان کے بغیر تو جاگیردار حکمران لولے لنگڑے ھیں ۔

Leave a Reply