ستارے ہمسفر میرے/محموداصغرچودھری

انسان حیوان ناطق ہے۔اس کو جو چیز دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے زبان ، زبان سے اگلا درجہ ہے سخن فہمی و سخن شناسی کا، سخن شناسوں میں ممتاز وہ ہوتے ہیں جن کی سوچ کے آنگن میں تخیلات کی پھوار پڑتی ہے اور وہ اپنے قلم سے معاشرے میں ادب تخلیق کرتے ہیں ۔ ادب کی مختلف اصناف ہیں جس میں شاعری بھی شامل ہے ۔ شاعری اپنے حالات ، واقعات اور تخیلات کو نہایت ہی لطیف انداز میں پیش کرنے کا نام ہے ۔
شاعری ایک قسم کا فن مصوری ہے جس طرح ایک اچھا مصور رنگ و نقش کی مدد سے تصویر بناتا ہے بالکل اسی طرح ایک شاعر خوبصورت الفاظ کا تانا بانا بن کر ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ سننے والا شخص خود کو اسی ماحول کا حصہ اور اسی کیفیت کا جزو محسوس کرتا ہے جو شاعر پر گزر رہی ہوتی ہے۔ شاعردکھ بیان کرےتولگتا ہےکہ ہمارےدرد کاقصہ ہے، وہ محبت و چاہت میں ڈوب کر حسن محبوب کا نقشہ کھینچے تو لگتا ہے کہ شاید اس نے ہمارے ہی تخیلات کو زبان دے دی ہے
امتیاز گلیانوی ادب کی دیگر اصناف کے میدان میں تو اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔ لیکن اب شاعری میں بھی نئی سوچ اور نئے تخیل کے ساتھ وارد ہوئے ہیں ۔ان کی شاعری کی پہلی کتاب ستارے ہمسفر میرے ان کی شخصیت کا حقیقی تعارف ہے ۔ جس میں ان کی منکسر المزاجی سے لیکر انسان دوستی تک کے احساسات نمایاں نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں
خدا کا شکر کہ مجھ پر کھلی ہیں حرف کی گرہیں
مرے لفظوں میں رہتے ہیں حوالے ہم سفر میرے
اردوکی روایتی شاعری پر مغربی دانشوروں کی جانب سے اکثر یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ اس میں عورتوں کے لب و رخسار، محبوب کے ہجر و فراق،دیر وحرم ، ساقی و مے خانے جیسےسطحی تخیلات کے علاوہ معاشرے کے دیگر پہلوؤ ں کا تذکرہ خال خال ہی نظر آتا ہے ۔البتہ امتیاز گلیانوی کی شاعری کی پہلی کتاب ستارے ہمسفرنے اس جمود کو توڑا ہے اور سوچ کی جھیل میں نیا کنکر پھنک کا ارتعاش پیدا کیا ہے ۔ گلیانوی صاحب نے روایتی شاعری سے ہٹ کر زندگی کےسختیوں او ر مختلف پہلوؤں کو اپنی شاعری کا موضو ع بنایا ہے ۔ وسیع مطالعہ نے ان کی سوچ کو جلا بخشی ہے اور انہیں تدبر و تفکر کی نعمت سے نوازا ہے ۔اہل علم کی صحبت نے ان کی کردار سازی کی اور خدا کی ذات پر یقین نے انہیں کے اندر ایمان اور امید سے جوڑے رکھا اسی لئے تو لکھتے ہیں ۔۔
گھر سے چلا تھا رستوں کی لے کر لگن کوئی
منزل بھی روبہ رو تھی ، سہارے بھی ساتھ تھے
موجوں کے ساتھ اپنے یقین کا سرور تھا
ساحل بھی ہم قدم تھا کنارے بھی ساتھ تھے
ستارے ہم سفر میرے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر ایک خوبصورت دل کے مالک ہیں اور بڑی حساس طبیعت کے مالک ہیں ۔ جو دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور انہیں کے درد کو اپنی شاعری کا موضوع بنانا چاہئے ۔ ایسی حساسیت اور سوچ کی پرواز ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے ۔واقعی ایک تدبر کرنے والا شخص معاشرتی عدم مساوات ، بے انصافی، لاقانونیت ، جہالت ، غربت ، اور فکر معاش میں مستغرق سسکتی انسانیت سے نظریں چرا کر کیسے مروج شاعری کی راہ اپنا سکتا تھا ۔
اسی لئے تو وہ کہیں معاشرے میں پھیلی بے سکونی کا نقشہ کھینچتے ہوئے رقم طراز ہیں ہے کہ
سکون کہتے ہیں جس کو ہمیں نہیں معلوم
جسے بھی دیکھیئے کتنا نڈھال ہے مرشد
تو دوسری جانب معاشرے میں اظہار رائے پر پابندیوں کے نتیجے میں ہمارے ذہنوں پر چھائی کیفیت کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں
ہمارے ذہنوں پہ چپ کی لگیں ہیں مہریں سی
ہمارے ذہنوں میں کتنا ابال ہے مرشد
دوسرے بہت سے فنون کی طرح شاعری بھی خدادا داد ہوتی ہے کوئی بھی شخص محض کوشش سے اچھا شاعر نہیں بن سکتا ۔ لفظوں سے کھیلنے والا ضروری نہیں کہ اچھا خیال تخلیق کرنے پر بھی مہارت حاصل کر لے ۔ شاعر بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل آئینے کی طرح صاف ہو ۔ اچھی سوچ اور دل کو چھو لینے والا تخیل پراگندہ ذہنوں کو تفویض نہیں ہوتے ۔ دوسروں کا درد کو محسوس کرنے ولا شخص ہی اپنی شاعری سے دلوں کے تا رچھیڑ سکتا ہے ورنہ شاعری میں قافیہ ردیف بھلے ہی موجود ہو تاثیر عنقا ہوجاتی ہے ۔ بقول امتیاز گلیانوی
ہر کسی کے بہت مسائل ہیں
ہرکوئی یاں نڈھال آتا ہے
لفظ کاغذ پہ آنے لگتے ہیں
جب بھی دل میں ابال آتا ہے
شاعروں کے بارے ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ان کی اکثریت محبت میں ناکامی یا زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کےباعث کاہل اور سست الوجود ہوجاتی ہے ۔ اسی لئے ان کی شاعری کا سار ا زور غم جاناں پر ہوتا ہے لیکن امتیا زگلیانوی کو لگتا ہے غم جاناں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ جا بجا غم دوراں کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں اور جا بجا دنیا کے دکھوں کا اپنی شاعری کا موضوع بناتے نظر آتے ہیں ۔ لکھتے ہیں
کیسا جینا ستا کے جینا بھی
دل کسی کا دکھا کے جینا بھی
کتنا مہنگا پڑا ہے آنکھوں کو
خواب سارے سجا کے جینا بھی
ہجرت یا اپنوں سے جدائی انسان کی جمالیاتی حس میں اضافہ کرتی ہے جس طرح غموں سے لبریز کوئی قید پنچھی گنگنانا شروع کر دیتا ہے ، سیٹیاں بجانا شروع کر دیتا ہے ۔ جس طرح شکاریوں کے چنگل میں آنےوالے ہرن اتنے زور سے چیخ مارتی ہے کہ سننے والوں کا دل دہل جاتا ہے اور اسی چیخ کو شاعر لوگ غزل کہتے ہیں، جس طرح کسی پودے سے جدا ہونے والی بانسری میں ایسا درد پیدا ہوتا ہے کہ اس کی آواز سے سننے والا دم بخود ہوجاتا ہے جس طرح چشمے سے جدا ہونے والا پانی پہاڑوں سے ٹکر ا کر شور مچاتا چلا جاتا ہے بالکل اسی طرح انسان بھی جدائی کے کرب سے مضطرب ہوجاتا ہے اور اسکے دل کی دھڑکنیں تک شاعری کرنا شروع ہوجاتی ہیں۔ لگتا ہے وطن سے دوری نے امتیاز گلیانوی کی شاعری پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں
ہمیں خانہ بدوشی راس آئی
رہا کندھوں پہ ہی بستر ہمارا
ہمیں ہر بات پہ رونا پڑا ہے
خدایا کردے دل پتھر ہمارا
تارکین وطن شہریوں کے دکھ کو نہ تو نثر میں وہ مقام مل سکا اور نہ ہی نظم میں کسی شاعری نے اس درد کو کماحقہ بیان کیا ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ادیب لوگ اکثر ہجرت کے درد سے نا آشنا رہے ۔ سفر نامہ نگار بھی تو سفر کی روداد لکھتا ہے لیکن وہ کون سا غم ہے جو ایک مجبوری میں دیس چھوڑے ہوئے کو ستاتا ہے اس کو نقشہ کوئی بھی بھرپور طریقے سے نہیں کھینچ سکا ۔ امتیاز گلیانوی کی ستارے ہمسفر میرے میں ہمیں جا بجا یہ در د نظر آتا ہے
دور بیٹھا ہوں اپنے پیاروں سے
میں نے کیا لینا ان بہاروں سے
کوئی تو سمجھے غم ہمارا بھی
آرہی ہے صدا چناروں سے
اسی ہجرت میں عمر گزرے گی
یا کبھی مل سکوں گا یاروں سے
میری دعا ہے کہ امتیاز گلیانوی کی شاعری میں مزید نکھار آئے اور وہ ستارے ہمسفر میرے جیسے کئی سنگ میل طے کرتے رہیں ۔ امتیاز گلیانوی کے لیے دعا بھی میں انہی کے لکھے ہوئے شعروں سے کروں گا
روشنی کی لکیر بن جاؤں
آدمی بے نظیر بن جاؤں
عدل کا ساتھ دوں ہمیشہ
سچ کا سفیر بن جاؤں
ظلم کے دل کے آرپار چلوں
کاش میں ایسا تیر بن جاؤں

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply