لیے پھرتا ہے قاصد جابجا خط(1)۔۔عاصم کلیار

ماضی کے نقوش وقت کے آب ِرواں میں مسلسل معدوم ہوۓ جاتے ہیں کچھ عرصے بعد چہرہ و نام بھی ایک ساتھ یاد نہیں رہتے ،مگر لکھے ہوۓ لفظوں کی حرمت و تقدس سے انکار ممکن نہیں، ماضی کی کہانیاں جب نسلوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوئیں تو ہر نسل نے اپنے تخیل کے مطابق کہانی کے رنگوں میں اضافہ کیا، ڈاک کا نظام رائج ہونے کے بعد داستان اور کہانی سنانے کے فن کو کسی حد تک خطوط نویسی نے بھی نقصان پہنچایا مگر جو خطوط وقت کے حوادث سے بچ گئے  وہ کہانیوں کی صورت کتابوں میں شائع ہوۓ ،ہر زمانے کے خط اس عہد کی تہذیب،معاشرت،تاریخ اور ریاکاریوں کے عکاس ہوتے ہیں، انتظار حسین نے تو غالب کے خطوط کو اُس عہد کا تہذیبی ناول قرار دیا ہے۔

خط کا انتظار اور خط کا جواب دینا ہماری ماضی قریب کی تہذیب کا لازمی جزو تھے، فرد واحد کے نام تو جو خطوط آتے تھے وہ بالعموم پُرزے پُرزے کر کے آگ یا ہوا کے سپرد کر دیے  جاتے اور جو بچ گئے  وہ محبت نامے کہلاۓ مال و زر تو وارثوں کے درمیان تقسیم ہوا مگر ہمارے ہاں محبت ناموں کو دوسری نسل کے سپرد کرنا کارِدشوار ہی نہیں بلکہ امرِمحال سمجھیے  ،محبتوں کی نشانیوں کو پامال کرنا اب ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکا ہے ،سچ تو یہ ہے کہ کچھ خط میں نے بھی گھر والوں سے چھپا کے نجانے کہاں رکھے تھے ،سنبھال کر رکھی ہوئیں چیزیں کم ہی ملتی ہیں۔

لام کے محاذ سے ڈاک کے سپرد کیا ہوا خط جب مہینوں بعد کسی دور دراز کے گاؤں پہنچتا تھا، تو وہ اہل خانہ کی بجاۓ پورے گاؤں کے نام ہوتا تھا خط پڑھنے والی آنکھیں تو دو ہی ہوتی تھیں مگر سنے والے کان بیسیوں ہوتے تھے، خط سننے کے بعد بوڑھے ٹھنڈے ہنکارے بھرتے ہوۓ دعائیں دیتے ماں ماپ کی آنکھیں نم ہو جاتیں اور مکتوب نگار کے دوست یار اس کی شجاعت بہادری کے قصوں کا پرچار کرتے مگر راتوں کو گاؤں کے کسی نیم پختہ مکان سے آنے والی یہ آواز دلوں کو چیر کے رکھ دیتی۔
میں تے بن کے  تماشا روئی
کہ ماہی میرا لام نوں گیا

خطوط کی ادبی حیثیت مسلمہ ہے ،ادیبوں کے خطوط میں بیان کی گئی  رقابتیں،محبتیں،کدورتیں اور نظریاتی اختلافات ہی تو ہماری ادبی تاریخ کے صحیح عکاس ہیں ادیبوں کے درمیان ادبی معرکوں میں خطوط نے جلتی پر تیل کا کام کیا قتیل کے خلاف غالب نے جو زبان خطوط میں استعمال کی ہے وہ غالب سا زمانہ ساز دل لگا کر اور قلم سنبھال کر کیسے لکھ سکتا تھا جوش صاحب اور مدیر ساقی کے درمیان بھی سخت خطوط کا تبادلہ ہوا اُوراق اور فنون کے درمیان برسوں پر محیط قلمی جنگ کے دوران سینکڑوں خطوط توپوں کے گولوں کی صورت داغے گئے۔

ایک سے زائد ادیبوں نے ناولوں اور افسانوں کو خطوط کی صورت میں تحریر کیا, عزیز احمد جیسے بلند پایہ نثر نگار نے کئی  حوالوں سے دلچسپ ناول”شبنم” خطوط کی فارم میں لکھا، قرۃالعین حیدر نے اپنے نام آۓ خطوط کو “دامانِ باغباں” کے نام سے مرتب کر کے شائع کروایا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کا انتساب عینی بی نے ایک بکری کے نام کیا ہے۔

میرے نام کچھ ادیبوں کے علاوہ ذاتی دوستوں کے سینکڑوں خطوط موجود ہیں سینکڑوں خطوط اکابرین فن کے ہیں جو انہوں نے دیگر اہل قلم کو لکھے جن ادیبوں کے لکھے ہوۓ خطوط میری ذاتی لائبریری میں موجود ہیں ،اُن میں فراق صاحب،سلام مچھلی شہری،راجہ مہدی علی خان اور رشید احمد صدیقی جیسے نابغہ روزگار لوگ شامل ہیں۔

قرۃالعین حیدر کے ایک خط کے علاوہ جاوید شاہین اور کشور ناہید کے خطوط نقل مکانی کے دوران میری غفلت کی وجہ سے گم ہوۓ ،عزیز دوست شاہد زبیر لالیکا کا صرف ایک ہی خط محفوظ رہا اور درجنوں ضائع ہو گئے، اب خط لکھنے کا زمانہ گزر چکا ہے سو جو باقی بچ گئے  ہیں اُن کو کسی طور سنبھالنے کی تدبیر کرتا ہوں۔

خط لکھنے اور پھر اُس کے جواب کے انتظار کی طرح اب ای میل کا زمانہ بھی ماضی کا قصہ ہوا “خط لکھیں گے” کے بامعانی نام کی البم کے تحت میں فیس بک پر خطوط شیئر کروں گا، یہ خط عشروں پہلے لکھے جانے کے باوجود شائع نہ ہو سکے ،سو اس صورت اب ادھر محفوظ بھی ہو جائیں گے میں اس البم کو اپنے مہربان دوست قاسم جعفری صاحب کے نام کرتا ہوں جو پنجابی ہونے کے باوجود شہر لاہور میں گنگا جمنی تہذیب کے آخری نمائندہ ہیں۔

اس البم کے تحت میں پہلا خط اپنے کرم فرما انتظار حسین کا پیش کرتا ہوں جن سے ایک حد تک بے تکلفی بھی تھی اُن کی زندگی کے آخری آٹھ سالوں میں لاہور میں ہوتے ہوۓ اُن سے روز نہیں تو ہر دوسرے دن اُنہی کے گھر ملاقات ہوتی، کئی  بار وہ میرے مکان پر بھی آۓ ،کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ انتظار حسین اس دنیا میں نہیں رہیں گے، انہوں نے ادبی حوالے سے اور ذاتی سطح پر بڑی فعال زندگی بسر کی ،میں خود کو خوش نصیب تصور کرتا ہوں کہ مجھے  اُن کی قربت حاصل رہی۔

اس زمانے میں میرا مستقل قیام سرگودھا میں تھا، ابو کی منتشر کتابوں کے لئے  میں نے ایک کمرے میں الماریاں بنوائیں، Life magazine والوں نے دینا کی تمام بڑی تہذیبوں پر جہازی سائز کی شاندار رنگین کتابوں کا ایک سیریز چھاپا تھا وہ پورا سیٹ بھی ابو کی لائبریری میں موجود تھا، ہندوستان کی قدیم تہذیب پر کتاب پڑھنے کے بعد میں نے انتظار صاحب کو خط لکھا کہ مجھے ہندو میتھالوجی کے بارے چند اور کتابیں پڑھنے کے لئے  تجویز کریں۔ میں اس وقت تک انتظار حسین کی سب کتابیں پڑھ چکا تھا اور لاہور آنے پر اُن سے پاک ٹی ہاؤس میں ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ انتظار حسین نے جن کتابوں کے پڑھنے کے لیے  جوابی خط میں لکھا ،افسوس وہ میں چاہنے کے باوجود بھی نہ پڑھ سکا ۔میں نے خط میں تصویر کی فرمائش کی تھی انتظار حسین نے پاسپورٹ سائز کی تصویر کی پشت پر تاریخ سمیت دستخط کر کے تصویر بھی خط کے ساتھ ارسال کر دی۔ میں ان کی محبتوں کا مقروض ہوں جنہوں نے مجھ سے منہ پھٹ شخص کو تا دم ِمرگ برداشت کیے  رکھا۔

پیارے دوست محمودالحسن کے نام بھی شائد انتظار حسین کا کوئی خط نہیں ،محمود نے جس طرح سے انتظار حسین کی تحریروں کو پڑھا ہے اور اُن کے بارے تمام متعلقہ کتابوں سے رجوع کیا وہ اس کی انتظار صاحب سے محبت کی دلیل ہے انتظار صاحب کے بارے “شرف ہم کلامی” جیسی کتاب صرف محمود ہی لکھ سکتا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ ادبی معاملات میں انتظار حسین بھی محمود کی راۓ کو معتبر سمجھتے تھے۔

انتظار حسین خط لکھنے کے معاملے میں بڑے کاہل آدمی تھے مگر میری خوش بختی کہ میرے نام اُن کا لکھا ہوا ایک خط میرے پاس محفوظ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply