تبدیلی۔۔۔۔افسانہ/حسن کرتار

اسے جب اچھی طرح سے اندازہ ہوگیا کہ عظیم قوم بنانا ناممکن کام ہے تو اس نے ٹھانی کہ کیوں نہ ایک عظیم گروہ بنایا جائے۔

سب سے پہلے اس نے خود کو ٹھیک کر نے کا سوچا اور اچھی خاصی نوکری اور مراعات کو ٹھوکر مار کر اپنے آپ کو صرف اور صرف علم کیلئے وقف کر دیا۔ کئی بڑی کتابیں دل و دماغ سے نہ صرف خود پڑھیں لکھیں بلکہ ایک ایک حرف اپنے گروہ کے ایک ایک فرد تک پہنچایا۔
کچھ اس کا مذاق اڑاتے کچھ واہ واہ کے طوفان برپا کر دیتے۔
کئی کا خیال تھا یہ انسان ،یہ معاشرے کتے کی دم ہیں انہیں سیدھا کرنا ناممکن ہے۔ کچھ کہتے بڑی تبدیلیاں لانے کیلئے بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ مگر وہ کوشش کرتا کسی کی پرواہ کئے بغیر وہ کچھ کرتا رہے جو اسے کرنا چاہیے۔

آہستہ آہستہ اس کی محنت کچھ رنگ لانا شروع ہوگئی۔ اس کے علم کے چاہنے والے بڑھنے لگے یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگ اس سے مرعوب ہوکر بڑی تبدیلی کے راگ الاپنے لگے۔
کافی لوگوں نے اس کے علم و خیالات کو خود سے منسوب کرکے اپنی دکان بھی چمکانا شروع کر دی مگر اس نے زیادہ برا نہ منایا کہ وہ اپنے نام سے زیادہ اپنے کام میں سنجیدہ تھا۔۔۔

اس کی حالت روز بہ روز خراب ہوتی جارہی تھی پر بجائے آرام کرنے کے اس نے اپنے کاموں کی رفتار اور بڑھا دی تھی۔
آج جب وہ کچھ لکھنے کے بعد چہل قدمی اور ایک اہم کام سرانجام دینے کی نیت سے باہر جانے لگا تو اس کے پرانے پڑوسی دوست نے اسے باہر دروازے پر ہی روک لیا اور کہا

“جناب یہ کیا ہوتا جا رہا ہے آپ کو۔۔ کچھ خیال کیجیے ۔”

اس نے کہا “کوئی  مسئلہ نہیں، تھوڑی تھکاوٹ ہے، جلد دور ہو جائے گی”

“رہنے دیں میں سب جانتا ہوں۔ ۔کدھر گئے وہ سب لوگ جنہیں آپ عظیم بنانا چاہتے تھے”

“سب اِدھر اُدھر ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔”

“ہاہا کونسی بہتری؟ مجھے ایک ایک کا حال پتہ ہے۔ سب جائیدادیں بنانے اور اپنے خاندان کو مزید بڑا کرنے میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ ان سے پہلے والے لوگ کرتے آئے ہیں۔”

“کوئی بات نہیں۔ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک دن یہ سب لوگ ضرور اجتماعیت کی طرف لوٹیں گے اور اپنی ذات سے بڑھ کر سوچیں گے”

“ہاہاہاہا! اچھا ! لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ اگر ایسا کبھی کوئی  دن  آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کیجیے گا۔ جن لوگوں کو پیغمبر، خدا، فلاسفرز، شاعر مائر تک نہ ٹھیک کر پائے۔۔دیکھتے ہیں کہ آپ کے خیالات کیسے انہیں بدلتے ہیں۔ آپ اجتماعیت کی بات کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں تو انفرادیت تک بھی نہیں پائی جاتی”

“آپ خواہ مخواہ مایوس ہورہے ہیں۔ زمانے اپنی رفتار سے ہی بدلتے ہیں، مجھے اب اجازت ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے ”

“آپ میری باتوں کا برا نہ منائیے گا مجھے بس آپ کی صحت کا خیال تھا اور کچھ نہیں وگرنہ میں جانتا ہوں کہ آپ سا مخلص اور ذہین انسان کم ازکم میں نے اور کہیں نہیں دیکھا۔آپ کے بہت احسانات ہیں مجھ پر۔”

“نہیں نہیں۔ ہم سے کئی  آئے گئے اور ابھی اور آئیں گے۔ آپ شرمندہ نہ کریں۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔”

“آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ جس قریبی ترین دوست سے آپ نے سائنس لیبارٹری قائم کرنے کیلئے ایک لاکھ مانگے تھے۔ میں اس سے تھوڑی دیر پہلے مل کر آرہا ہوں. اس نے پانچ ہزار دئیے ہیں دراصل میں یہ پیسے دینے ہی آیا تھا۔ اور ہاں اس نے ایک پیغام بھی بھیجا ہے”

“کیا کیا پیغام دیا ہے!”

” کہ اب میں مزید اور مدد نہیں کرسکتا۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں عظیم بنایا اب تھوڑی کوشش کرکے خود کو بھی عظیم بنالیں۔”

یہ سن کر اسکا دل کیا کہ ادھر ہی گر کر مر جائے اور زندگی کے اس فضول افسانے کو درمیان میں ہی چھوڑ دے۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کیا ،سر اٹھایا ،بجھی بجھی نظروں سے اپنے پڑوسی دوست کی طرف دیکھا اور کہا “یہ پانچ ہزار شکریے کے ساتھ اسے واپس کر دینا۔ اور کہنا آپ کا بھیجا پیغام یا نصیحت میرے لیے  کافی ہے”

یہ کہہ کر وہ تھکے تھکے قدموں سے واپس گھر کی طرف لوٹ آیا۔ اپنی لکھی ادھوری تحریر کو پھاڑا اور چپ چاپ صوفے پہ بیٹھ کر سامنے دیوار پہ ایک پرانی پینٹنگ کو غور سے دیکھنا شروع ہوگیا۔اس پینٹنگ میں ایک خدا اپنے بچوں کو ایسے کھارہا تھا جیسے وہ بھیڑ بکریاں ہوں۔ خدا کا منہ خون سے بھرا تھا۔ ایک بغیر سر کے لاش پر اس نے دانت گاڑ رکھے تھے اور اسکے قدموں کے نیچے لاشیں ہی لاشیں بکھری تھیں۔وہ دیر تک اس عجیب پینٹنگ کو تکتا رہا۔کچھ سمے بعد جانے اسکے ذہن میں کیا آیا کہ وہ وہاں سے اٹھا اور اپنی لائبریری میں آکر کچھ ڈھونڈنا شروع ہوگیا۔
ایک پرانی نوٹ بک ملتے ہی اس نے تیزی سے اس کے صفحے پلٹنے شروع کر دئیے۔ ایک صفحے پر پہنچ کر وہ کچھ دیر کیلئے رُکا، جیب سے اپنا سیل فون نکالا اور ایک نمبر ملانا شروع ہوگیا۔

“ہیلو! واہ واہ میں کتنا خوش نصیب ہوں۔ استاد ِ محترم کو اتنے سالوں بعد آخر میری یاد آ ہی گئی ۔ حکم کریں سر غلام حاضر ہے۔”

“باقی باتیں بعد میں کریں گے۔ تمہیں کچھ نام اور انکی مکمل تفصیل میسج کر رہا ہوں۔۔ ان میں سے کوئی کل زندہ سلامت نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہاں ان کے گھروں کو اچھی طرح سے لوٹ کر بے شک آگ لگا دینا۔”

“بہتر استاد ِمحترم! مگر مگر یہ کیسی تبدیلی! میں تو سمجھا وہی نصیحتیں ہوں گی جن پر میں آج تک عمل نہیں کر پایا”

“یا استاد نہیں کہتے یا پھر اگر مگر نہیں کرتے!”

Advertisements
julia rana solicitors

“جو جو حکم استادِ محترم! آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر”۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply