• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تبلیغی جماعت پر پابندی اور مذہبی طبقے کی پریشانیاں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

تبلیغی جماعت پر پابندی اور مذہبی طبقے کی پریشانیاں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

مفتی طارق مسعود صاحب کراچی میں مقیم عالم دین ہیں۔ بڑے معروف یوٹیوبر ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ ان کے بیانات سنتے ہیں۔ ویسے تو ان کی اکثر ویڈیوز مناظرانہ رنگ میں رنگی ہوتی ہیں اور کچھ دن پہلے وہ مناظرہ کرنے جہلم بھی پہنچ گئے تھے، مگر ان کی زیادہ کلکس اور ناظرین لینے کی خواہش کو انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے پورا نہیں ہونے دیا۔ ویسے بھی یہ امت میں مناظروں کا زمانہ نہیں ہے کہ اختلافات کو مزید ابھارا جائے اور جنگ و جدال کا ماحول پیدا کیا جائے۔ سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر دی اور اس جماعت کو گمراہ کن اور خلاف اسلام سرگرمیوں کا مرتکب بھی قرار دیا، جو حق کے راستے سے بھٹکی ہوئی جماعت ہے۔ بات اس تک محدود رہتی تو پھر بھی کوئی انتظامی توجیح کر لی جاتی، مگر ظلم یہ ہوا کہ مساجد کو کنٹرول کرنے والے محکمہ نے سرکاری طور پر یہ فیصلہ سنایا کہ گزرے جمعہ میں سعودی عرب کی تمام مساجد میں تبلیغی جماعت کی گمراہی کو سعودی عوام پر واضح کیا جائے گا۔

سعودی عرب کی تمام مساجد کے خطباء نے تبلیغی جماعت کے وہ وہ نقصانات بیان کیے اور توحید سے ہٹا اور جانے دیگر کیا کیا الزام دیا گیا کہ خدا کی پناہ۔ بات صرف عربی نوٹیفکیشن تک رہتی تو عوام کو سمجھ میں کم ہی آنا تھا، مگر ظلم تب ہوا جب یہ خطبات جمعہ اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجموں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ اس وقت تبلیغی جماعت سے متعلق حلقوں میں کافی بے چینی محسوس کی گئی۔ اب تبلیغی جماعت کا نظام ردعمل کی اجازت نہیں دیتا، کوئی پابندی لگا دے تو یہ اسے بھی قبول کر لیتے ہیں اور اپنے لیے کوئی اور راستہ نکال لیتے ہیں، یہ الگ موضوع ہے۔ انڈیا سے سید سلمان ندوی کی بھرپور آواز اٹھی اور انہوں نے آل سعود کے حماقت پر مبنی اس اقدام کو چیلنج کیا، مگر اس پابندی اور تبلیغی جماعت کے خلاف خطبات جمعہ نے مذہبی طبقے کو بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آل سعود کا اصل چہرہ سامنے لایا جاتا، مگر اسلام کی محبت کا نعرہ لگا کر آل سعود کے گن گانے والوں میں جرات اظہار اور حق کے بیان کی کمی محسوس کی گئی۔

ردعمل کی ساری ذمہ داری دینی سیاسی جماعتوں اور ان شخصیات پر آگئی، جن کی بات لوگ سنتے ہیں۔ یوں مالی مفادات، مفت عمروں، پروٹوکولز اور تبلیغی جماعت کی حمایت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا وقت آگیا۔ کیا کیا جائے، یہ لوگ اتنے ماہر ہیں کہ ہر صورت میں اپنے لیے کوئی راہ شریعت کی روشنی میں نکال ہی لیتے ہیں۔ محترم مفتی طارق جمیل صاحب نے یہی کچھ کیا ہے کہ ان کی دلیل بڑی نرالی ہے۔ کہا اگر سعودی عرب کے خلاف کوئی بیان دیتے ہیں تو اس کا فائدہ لادینی قوتوں کو ہوگا۔ اس لیے ہم سعودی عرب کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے۔ سبحان اللہ بڑی دور کی لائے ہیں۔ حرمین کا تقدس ایمان کا حصہ ہے، مگر وہاں کے حکمران بھی اسلام کے مقدسات میں داخل ہوگئے کہ ان کے کسی برے اقدام کو برا کہنے سے اسلام کو نقصان اور لادینوں کو فائدہ پہنچنے لگا، ایسی بات کرنا ہی بڑے دل گردے کی بات ہے۔

مفتی طارق مسعود اور اس فکر کے دوستوں تک شائد وہ ویڈیوز نہیں پہنچیں، جہاں دنیا کی معروف ناچنے والیاں جدہ میں جمع ہیں۔ انڈیا کے معروف اداکاروں کو بلا کر ان کی شان میں محافل منعقد کی جا رہی ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک معروف مسجد کے خطیب کا پوسٹر جو بظاہر انہوں نے خود اپنے ٹویٹر پر شیئر کیا، اس میں فوجی وردی پہنے اداکاری کرتے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک بات تصویر بنانے کی حلیت و حرمت پر ہو رہی تھی اور یہاں بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ویسے یہی لوگ جو آج تبلیغی جماعت پر پابندی سے تھوڑا بہت تلملا رہے ہیں۔ یہ اس وقت خوشی محسوس کر رہے تھے، جب سید قطب اور مولانا مودودی کی مطبوعات پر سعودی عرب نے پابندی لگائی تھی۔ زمانہ اور ملک کی ضروریات کیسے تبدیل ہوتی ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک وقت تھا، جب سعودی عرب نے اپنے زعم میں امت کا نوبل پرائز سمجھا جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ مولانا مودودی کو ان کی اسلام کے لیے اعلیٰ خدمات کے پیش نظر عطا کیا تھا۔ اب جب دیکھا کہ ان کا نظریہ ان کے جدید بے نظریہ سماج کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور مذہبی طبقہ اس سے استفادہ کرسکتا ہے تو اس پورے لٹریچر پر ہی پابندی لگا دی۔

ایک بات کو واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ موجودہ دور قومی ریاستوں کا دور ہے اور ہمیں کسی دوسرے ملک کے بارے میں بات کرنے اور اس پر لکھنے کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب حرمین کے دفاع کا تقاضا بھی ہم سے کیا جائے اور خادم الحرمین کی حیثیت سے ہم سے قربانیاں بھی مانگی جائیں اور اپنے اس تقدس کو امت مسلمہ کی بجائے خاندانی بادشاہت کے بچانے کے لیے استعمال بھی کیا جائے تو اس کے جواب میں پوری امت بھی یہ چاہے گی کہ آپ کو اسلام کی حدود کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اصنام پرستی اور شعائر اسلام کی صریخ خلاف ورزیاں جن سے مسلمانوں کی دل آزاریوں ہوتی ہے، ان سے رکنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تبلیغی جماعت نے اگر وہاں بدامنی پیدا کی ہے تو ان افراد کے خلاف کارروائی کریں، پوری جماعت جو پوری دنیا میں امن پسندی کی وجہ سے معروف ہے، اس پر پابندی اور ان پر خلاف اسلام عقائد کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔ اپنے مقابل نظریات کو برداشت کرنا، آزادی اظہار کا لحاظ رکھنا ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ویسے مفتی طارق مسعود صاحب اور ان کے ہم فکر طبقے سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کہ اگر یہی پابندی جمہوری اسلامی ایران نے لگائی ہوتی تو آپ اچھل اچھل کر ممبر توڑ دیتے اور آپ کی آوازیں سپیکروں کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتیں۔ ہمیں مسلک پرستی سے نکل کر حق پرسی اور اسلام پرستی کی طرف آنا ہوگا، اسی میں اسلام اور اہل اسلام کا بھلا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ اب خلاف اسلام کام فقط روضہ رسول کی جالیوں کو چومنا اور جنت البقیع میں مزارات کی زیارت ہی ہوگا۔ اب مطوے فقط دخترِ خاتم الانبیاء حضرت فاطمہؑ کی قبر مبارک کی زیارت کرنے والوں پر ہی کوڑے برسائیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply