مارٹن سیموئیل برق ( حصّہ دوم)۔۔اعظم معراج

لیکن اگر روشنی کے ان میناروں کو بطور رول ماڈل استعمال کیا جاتا تو پھر 2019ء تک 92 سال میں صرف 31 لوگ سی ایس ایس پاس نہ کرتے۔ میں جب بھی مارٹن سمو ئیل برق کے بارے میں لکھے ہوئے مضامین چاہے وہ بریگیڈیئر سیمسن کا مضمون ہو،رجنالڈ میسی، ساجدہ مومن، عادل انجم اورڈاکٹر عارف آزاد کا ہو، پڑھتا ہوں تو میرا دل پاکستان میں مسیحیت کے بانیوں کے لیے بھی تشکر سے بھر جاتا ہے۔کیونکہ پاکستانی مسیحیوں کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ برصغیر میں مسیحیت کے ان بانیوں کے بنائے ہوئے اداروں کی بدولت ہی ہے۔ اور جو بہت کچھ ہو سکتا تھا لیکن نہیں حاصل ہواہے وہ ان عظیم انسانوں کے نالائق اور بدنیت (چند ایک کو چھوڑ کر) جانشینوں کی وجہ سے ہی ہے۔ ہم نے ان عظیم انسانوں کی چھوڑی اس عظیم وراثت کو صحیح استعمال نہیں کیا۔چاہے یہ وراثت ان53 دیہات کی صورت میں ہو یا بڑے شہروں میں عظیم الشان تعلیمی اداروں کی شکل میں ہو یا پاکستان بھر میں مسیحیوں کی چھوٹی بستیوں میں بھی چرچ کے ساتھ قائم چھوٹے اسکولوں کی صورت میں جنہوں نے مارٹن پور جیسے 53گاؤں، دیہات میں فکری، شعوری، سماجی، معاشرتی بھلائی کیلیے مسلسل معجزے رونما کرنے والے ایسے ادارے بنائے ہیں جن کے حقائق اور شواہد بھی پیش کیے جا سکتے ہیں۔ جن میں سے ایک معجزہ آج سے 92 سال پہلے مارٹن سموئیل برق کی صورت میں ظاہر ہوا۔جب انہوں نے 1928ء میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا۔
”لیکن قابل رحم ہیں پاکستانی مسیحی جنہوں نے ان 53 گاؤں اور پاکستان بھر میں دیگر ایسے ہزاروں مذہبی، تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ حالانکہ یہ ادارے تباہ کرنے والوں کی آنے والی نسلوں کا بھی اجتماعی ورثہ ہیں لیکن قابل رحم ہیں یہ تیس تیس سکوں کے عوض اور مسیح کو چوکوں چراہوں میں بیچنے والے جو ہوس زر میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ اپنے بچوں کی اجتماعی وراثت بھی تباہ کئے جا رہے ہیں“۔
ان قابل رحم لوگوں کو ذرا ادراک نہیں کہ وہ چند سکوں اورتھوڑی سی خود نمائی کے عوض گنوا کیا رہے ہیں؟
بے شک قابل رحم ہیں وہ نسلیں جو چند سکوں اور تھوڑی سی خود نمائی کے لیے اپنی اجتماعی وارثت تباہ کر دیں۔ 1977ء سے میں جس مارٹن پور کے سحر میں کھویا تھا یہ تب ٹوٹا جب مارٹن پور جیسے53 دوسرے گاؤں میں سے چند نمایاں دیہاتوں کے بارے میں عملی زندگی میں آنے کے بعد میرے علم میں اضافہ ہوا۔ پھر 1995ء میں میری شادی ہوئی اور میری بیگم سیمی معراج کے خاندان کا تعلق بھی مارٹن پور سے ہے۔ میری بارات بھی مارٹن پور گئی اور میرا نکاح بھی مارٹن پور کے اسی تاریخی چرچ میں ہوا جس کی بنیاد پاکستان میں مسیحیت کے عظیم بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر سیموئیل مارٹن (بانی گاؤں مارٹن پور) نے رکھی تھی۔ یسوع مسیح کی تعلیمات کی روح کو سمجھ کر اس پر عملی کام کرنے والے ڈاکٹر سیموئیل مارٹن (بانیگاؤں مارٹن پور) کی عقیدت میں ہی3جولائی1906ء کو جب مارٹن پور اسکول کے ہیڈ ماسٹر خیرالدین برق کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام سیموئیل مارٹن رکھا گیا۔ برق خاندانی نام کے اضافے کے ساتھ یہ بچہ مارٹن سموئیل برق ہو گیا۔ خیر الدین برق کی بیوی کا نام بشیر بیگم تھا اور خیر الدین برق المعروف کے ڈی برق۔
گاؤں کے اسکول سے ابتدائی تعلیم کے بعد یہ بچہ اسکالر شپ حاصل کرکے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا۔ وہاں سے تاریخ میں ماسٹر ڈگری کی اور 1928ء میں آئی سی ایس کیا۔ اس وقت انڈین سول سروس میں شاذو نادر ہی کوئی ہندوستانی ہوتا تھا۔ انہوں نے اس وقت امتیازی نمبروں سے یہ امتحان پاس کیا۔ انہیں ایڈمنسٹریشن اور قانون پڑھنے کے لیے دو سال کے لیے برطانیہ بھیجا گیا۔ یہیں وہ اپنی بیوی لوئیز سے ملے اور ان کی شادی ہوئی۔ وطن واپس آئے اور جلد ہی اعلیٰ بیوروکریسی میں نام کمایا۔

واسٹرائن لیڈی ولنگٹن نے انہیں لیڈی ولنگٹن ہسپتال بنانے کے لیے منتخب کیا۔ یہ ہسپتال 1935ء میں مکمل ہوا۔ ایمان دار جج رہے۔ 1946ء میں پنجاب کے پہلے الیکشن کمیشن پٹیشن کے سربراہ ہوئے۔ برطانوی راج میں یہ ان کی آخری تعیناتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا اور بیوی بچوں کو برطانیہ لے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کے ایما پر برطانیہ چھوڑا۔ لیاقت علی خان انہیں اقلیتی وزیر بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے تنگ دائرے میں رہنے کی بجائے اپنی اہلیت کے مطابق بطور سفارت کار اپنی خدمات پیش کیں۔ جلد ہی سفیر کے عہدے پر پہنچے اور گیارہ ملکوں میں سفیر رہے۔ برطانوی سفارت خانہ قائم کرنے میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔ 1961ء میں پاکستانی وزارت خارجہ سے استعفیٰ دیا۔ اپنا تیسرا کیرئیر انہوں نے بطور پروفیسر امریکن یونیورسٹی آف مینی سوٹا میں ساؤتھ ایشین اسٹیڈیزسے کیا۔یہاں بطور مورخ و مصنف اپنے کام کا بڑا حصہ مکمل کیا اور مندرجہ ذیل کتب لکھیں۔
1۔ پاکستان فارن پالیسی:این ایسٹوریکل انالسز(1973)
2۔مین اسپرنگز آف انڈین اینڈ پاکستانی فارن پالیسی(1974)
3۔اکبر دی گریٹسٹ مغل(1989)
4۔ بہادر شاہ دی لاسٹ مغل امپائر آف انڈیا(1995)
5۔ دی برٹش راج ان انڈیا: این ہیسٹورکل ریویو(1995)
6۔ قائداعظم محمد علی جناح: ہز پرسنلٹی اینڈ ہز پولیٹکس(1997)
1. Pakistan’s Foreign Policy: An Historical Analysis (1973)
2. Mainsprings of Indian and Pakistani Foreign Policy (1974)
3. Akbar, the Greatest Mogul (1989)
4. Bahadur Shah, the Last Mogul Emperor of India (1995)
5. The British Raj in India: An Historical Review (1995)
6. Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah: His Personality and his Politics (1997)
یوں ڈاکٹر مارٹن سیموئیل (بانی مارٹن پور گاؤں) کے مسیحیت کی روح کو سمجھ کرہزاروں سال سے اپنی دھرتی پر ذلتیں سہتے دھرتی واسیوں میں سے ہندوستان بھر سے 72خاندانوں کے لیے قائم کیا گیا ایک مثالی گاؤں سماجی و معاشرتی بحالی کا ایک نمونہ تھا۔ اس سے فیض حاصل کرنے والے ایک بچے نے نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی، ایٹمی پالیسی پر اِ نمٹ نقوش چھوڑے بلکہ بطور مورخ و مصنف بین الاقوامی وراثت میں بھی اپنی کتب کے ذریعے اپنا حصہ ڈالا۔جس سے آج بھی اگر ڈاکٹر مارٹن سیموئیل (بانی مارٹن پور) کے موجودہ جانشین عقل،شعور اور بے لوثی سے کام لیں تو ایسے ہزاروں مارٹن سیموئیل برق پیدا کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے اس سماجی ناہمواریوں پر مبنی معاشرے سے نکل کر افق کو چھو لیا۔
”لیکن بے شک قابل رحم ہے وہ مذہبی گروہ جو اپنے مقامی روشنی کے میناروں سے اور چراغ جلانے کی بجائے بین الاقوامی چندوں پر انحصار کرے اور نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ذہنی طور پر مفلوج اور بھکاری بنانے کا اہتمام زور شور سے کرے“۔
ایسی ہی قابل رحم ذہنی کیفیت کی بدولت نہ صرف یہ53 دیہات جنہیں میں سماجی بھلائی کے مکمل یونٹ قرار دیتا ہوں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں ادارے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔کچھ تو تباہ ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ڈاکٹر سیموئیل مارٹن کے قائم کے ہوئے اور مارٹن سیموئیل برق کے گاؤں مارٹن پور سے قریبی تعلق اور دوسرے کئی ایسے دیہاتوں کے بغور مشاہدے کی بنیاد پر کلفٹن کنٹونمنٹ کراچی کے ایک ملازم کے حقیقی کردار کو موضوع بنا کرجس کا تعلق نیگسن آباد سے ہے،میں نے اپنی کتاب ”دھرتی جائے کیوں پرائے“ میں ایک باب ”پاکستان کا مسیحی وزیر اعظم“ لکھا۔اس میں ایک اقتباس صفحہ نمبر 143 اس صورت حال احوال کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔

چوہدری اس بستی کا بڑا دلچسپ کردار تھا۔ اس کا تعلق ضلع شیخوپورہ (موجودہ ضلع ننکانہ صاحب) کے قریب ایک مسیحی گاؤں ینگسن آباد سے تھا۔ مارٹن پور، کلارک آباد، فیصل آباد میں گوجرہ اور جنوبی پنجاب میں ضلع خانیوال، ضلع ساہیوال، میانوالی اور لیہ کے علاقوں میں بھی کل ملا کر47 ایسے گاؤں اور سندھ میں بھی 6 ایسے گوٹھ ہیں جہاں مسیحی مشنریوں نے زیادہ تر برطانوی دور میں برصغیر کے دور دراز علاقوں سے مسیحیت قبول کرنے والے ہندوستان کے معاشی اور سماجی طور پر پسے ہوئے مسیحیوں کو ان کی معاشی اور سماجی بحالی کے لیے لا کر آباد کیا۔انہیں زرعی زمینیں دیں، گاؤں بسا کر دیے۔ یہ 53گاؤں اور گوٹھ پاکستان بھر میں ماڈل گاؤں تصور کیے جاتے ہیں۔ باقاعدہ منصوبہ بندی سے آباد کیے گئے یہ دیہات پاکستانی مسیحیوں کی ایک بہت بڑی پہچان تھے۔ اس طرح کے دیہاتوں سے مشنری اسکولوں نے بڑے قابل اور کامیاب لوگ پیدا کیے۔ لیکن اب صاحبِ حیثیت پڑھے لکھے مسیحیوں کی یورپین ملکوں میں ہجرتوں کے سبب اور مسیحیوں کی موجودہ نسلوں کی تعلیم سے دوری، سہل پسندی نے اس طرح کے مسیحی گاؤں اور ان کے مکینوں کا بھی ستیاناس کر دیا ہے۔ ان علاقوں کے مسیحیوں کی چوتھی اور پانچویں نسل مسلسل تنزل کا شکار ہو کر اب تبیلے جیسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے۔ ماضی میں ایک ہی نسلی حسب نسب اور مذہبی پس منظر ہونے کے باوجود ان مسیحیگاؤں کے لوگ اپنے آپ کوکوئی خاص نسل گردانتے تھے اور ان کی طبیعتوں میں ایک خاص احساسِ تفاخر اور اعتماد پایا جاتا تھا۔ گو کہ وہ گئے دنوں کی باتیں ہیں کیونکہ اب یہ گاؤں دیہات منشیات اور ہر طرح کے نشوں کے گڑھ بن چکے ہیں اور ان گاؤں کی موجودہ نسلوں کی بدقسمتی کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ مذہبی انارکی اتنی ہے کہ ایک گاؤں جہاں ایک چرچ سے سارا گاؤں اپنی روحانی ضرورت پوری کرتا تھا اور اتوار کے اتوار اپنے سماجی مسائل پر بھی ایک جگہ اکٹھے ہو کر بات کرتا تھا وہاں سے اب لاتعداد گرجے بن چکے ہیں جس سے مذہبی و سماجی غرض ہر طرح کا انتشار زوروں پر ہے۔ لیکن ان کے یہ غریب ہم مذہب و ہم وطن ہمیشہ انہیں اپنے لیے قابلِ فخر گردانتے ہیں۔ اور ان گاؤں کے زمینداروں کے قصے مزے لے لے کر ایک دوسرے کو سناتے اور خوش ہوتے ہیں کہ سارے ہم مذہب اور ایک ہی برادری کے لوگ بسنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے کوئی جھجکتا نہیں۔ پتہ نہیں کن بقراطوں نے شراب ان کے لیے جائز قرار دی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دن بدن ان کی حالتبد سے بدتر ہو رہی ہے۔
اس لیے چوہدری لیاقت رولتا کھلتا جب اپنے عزیزوں کے پاس کراچی پہنچا تو انہوں نے اس کی نوکری کا بھی بندوبست کیا، اسے عزت بھی دی۔ چوہدری لیاقت نے جلدی پر پرزے نکالے اور ان کا لیڈر بن بیٹھا۔ چوہدری لیاقت کردار میں پاکستان کے کسی بھی بڑے، چوہدری سے کم نہ تھا۔ پولیس سے یاری رکھنا، شراب پینا، بڑے سیاسی بلکہ صاحب اقتدار لوگوں کے پیچھے بھاگنا، پولیس کے ساتھ مل کر غریبوں کو تنگ کرنا، جو بھی سیاسی حکومت ہو اس کے لیڈروں کے آگے پیچھے پھرنا اور اپنی ساری دو نمبر حرکتوں کے باوجود اپنے آپ کو عزت دار سمجھتا تھا۔چوہدری لیاقت جو شروع میں تو منہ پر ڈھاٹا باندھ کر سڑک پر جھاڑو پھیرتا تاکہ کوئی دیکھ نہ لے پھر جلد ہی اس نے اپنے ان جھک (بے جھجک) اور کمزور کے ساتھ بدتمیزی اور ا پنے سے بڑے کے ساتھ چاپلوسی کی خصلت کی بدولت جلد ہی اپنے افسروں کی توجہ حاصل کی اور صفائی والوں کا سپروائزر یعنی جمع دار ہوگیا۔ اب وہ سفید کپڑے پہن کر گولڈ لیف سگریٹ کا پیکٹ ہاتھ میں لے کر گھومتا اور اپنے انڈر کام کرنے والے اپنے ہی طرح کے حالات کے مارے ہوؤں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا۔سیاسی شعور نہ ہونے کے باوجود چاچے اکرام سے سیاست پر بحث کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply